مردِ آہن ۔۔۔ معاذ بن محمود

یہ ایک وسیع ہال تھا جسے انگریز کے زمانے میں کوئلہ ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ یہاں دیواروں پر رنگ کی تہہ در تہہ جمی پڑی تھی جسے ذرا سا کھرچنے پر کوئلے کی کالک حال کو چیرتی ہوئی ماضی سامنے لے آتی۔ دیواریں دور حاضر کی نو انچی اینٹ کی بجائے پرانے بھاری بلاکس سے بنی تھیں۔ وہ اکثر یہ سوچتا تھا کہ جدید ٹیکنالوجی بھلا کیونکر ایک ہی بم سے عمارتیں گرا سکتی ہے، مگر یہ دیواریں دیکھنے کے بعد اسے اپنی کمزور سوچ کا مضبوط جواب مل جاتا۔ “نو انچ موٹائی والی اینٹ کو تو میرا جوانی کا گھونسہ بھی گرا سکتا ہے، پھر بم تو اچھا خاصہ طاقتور ہوتا ہے۔”

چارج لینے سے پہلے تک وہ فارغ تھا لہذا ڈسچارج کرنے کرانے کی سوچیں اس کے ذہن پر حاوی رہتی تھیں۔ ڈسچارج مطلب لوگوں کو ان کے فرائض سے ڈسچارج کرنا یا کرانا۔ اب وہ یہاں کا کرتا دھرتا تھا لہذا مثبت سوچیں اپنانا اس کی مجبوری بن گیا تھا۔ مثبت سوچ مثبت عمل وقوع پذیر کروائے گی اور مثبت عمل مثبت خبر کو جنم دے گا۔ مثبت خبر چونکہ حاکم کا حکم ہے لہذا پیدا کرنی پڑے گی۔ ویسے تو ڈسچارج کرنا کرانا بھی کوئی اتنا منفی کام نہیں لیکن کسی کی ملازمت ختم کروانے سے بہرحال کہیں بہتر یہ منصوبہ ہے جس پر وہ عمل کرنے کی ٹھان چکا تھا۔

وہ ایک ضدی شخص تھا۔ جو کام کرنے کا ارادہ کر لے اسے مکمل کر کے ہی رہتا، پھر وہ کتنا ہی کٹھن یا کتنا ہی غیر مقبول کیوں نہ ہو۔ اس سے پہلے بھی کئی مشکل مگر زبان عام میں نیچ کارنامے سرانجام دے چکا تھا۔ وہ تابعداری کا عملی ثبوت تھا۔ “یس سررررر یس سررررر” مقتدر حلقوں میں اس کی پہچان تھی۔ اس کے اکثر کارنامے افسران بالا کے احکامات کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوتے مگر یہ منصوبہ خالص اس کا اپنا تھا۔ 

ذات کا شیخ ہونے کے ناطے وہ بچپن سے دمڑی کی جگہ چمڑی کے استعمال کو فوقیت دیا کرتا تھا۔ گورے چٹے کشمیری جواں سال کے لیے چمڑی کے بدلے دمڑی حاصل کرنا ویسے بھی اس کے لیے آسان عمل تھا۔ ہاں دمڑی کسی اور کی ہو تو مالِ مفت دلِ بے رحم! یہاں چونکہ مال حکومت کا تھا لہذا اس نے پہلا حکم نامہ ہال میں نیا رنگ کروانے کا دیا۔ عملے نے اپنے تئیں چونا کرانے کا مشورہ دیا تو جواب آیا “مجھے رضیہ بٹ کے ناول نہ سناؤ، چونا صرف میں لگا سکتا ہوں تم نہیں”۔ یوں حال میں پینٹ کر دیا گیا۔ ٹوکن والا پینٹ جس سے عملے میں بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ 

اس کے بعد ہال کے برابر دائیں جانب ایک فیکٹری کھولی گئی۔ اس فیکٹری میں ریل کی بوگیوں کا “لویا( (لوہا)” پگھلا کر ان سے گول دھاتی پائپ بنائے جانے تھے۔ ریل اور لویا اس کی کمزوریوں میں شامل تھے۔ دیگر کمزوریوں میں فیصلہ کرنے کی کمزوری، مدافعت دکھانے کی کمزوری، خود پرستی سے نکلنے کی کمزوری اور مردانہ کمزوری قابل ذکر تھیں۔ اسے بچپن سے ریل اور لویا پرکشش لگتے۔ وہ ہمیشہ سوچا کرتا کہ پٹریاں اور ان پر کھڑی فارغ ٹرینیں کس قدر کام آسکتے ہیں۔ ان میں کتنا سارا لویا پڑا ہے جسے بیچ کر وہ لویے کی ایمپائر کھڑی کر سکتا ہے۔ آج وہ یہ سب کرنے کے قابل تھا مگر اس کا منصوبہ اس کے خواب سے کہیں بڑھ کر مقدس تھا۔ موجودہ حکمران نسیم حجازی کے ناولوں والے عرب سپاہ سالار نہ سہی، مملکت پاک کی نظریاتی حدود کے روحانی محافظ تو ہیں، اور وہ ان کا نمک خوار۔ حرمتِ سالار میں دوسروں کی جان بھی قربان ہے، وہ ہمیشہ اس سوچ پر عمل پیرا ہی تو رہا۔ 

ہال کے بائیں جانب اس نے ایک نئی عمارت تعمیر کروائی۔ یہاں اس نے شب برات کے پٹاخے بنانے والے تمام بین شدہ کارخانوں کے مالکان کو یکجا کر دیا۔ ریاست میں جاری تحریک نفاذ مائیکرو فنانسنگ کے تحت دیسی انڈے اور مرغیاں پہلے ہی کامیاب ثابت تھی جس پر بل گیٹس کی مہر اثبات بھی ثبت ہوچکی تھی۔ اسی مائیکرو فنانسنگ سے متاثر ہو کر اس نے پٹاخے والے اکٹھے کیے کہ اس کا مقدس مقصد چھوٹے پیمانے پر پٹاخوں سے حاصل نہ ہو سکتا تھا۔ ایک بارودی شخصیت کا حامل ہونے کے ناطے بارود جمع کرنا ویسے بھی اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ 

تمام اجزائے ترکیبی جمع کرنے کے بعد اس نے منصوبے پر طائرانہ نگاہ ڈالی۔ سب تیار تھا۔ 

اگلے دن وہ اپنے دفتر میں سگار منہ میں دبائے، شلوار میں رنگین پھولوں والے لٹکتے ازار بند کے ساتھ کرسی پر برجمان، سری پائے کے پیالے میں رسے ہاتھوں سے ریاست کے بڑے اخبار کی شہہ سرخی پڑھنے میں مصروف تھا۔ 

Advertisements
julia rana solicitors london

“پاکستان ریلوے میزائل لانچ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے”۔ 

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply