کینسر (9) ۔ کل سے آج تک/وہاراامباکر

کوہِ اینڈیز کے سائے میں پیرو سے چلی تک چھ سو میل کا علاقہ پھیلا ہے جس میں عرصہ دراز میں بارش نہیں ہوئی۔ اٹاکاما صحرا کی گرم اور جھلسا دینے والی ہوا میں یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ یہاں کبھی انسانی آبادی رہا کرتی تھی۔ صدیوں پرانی بہت سی قبریں یہاں موجود ہیں۔ ان قبروں میں چری بایا قبیلے کے مرنے والے دفن ہیں۔ اگرچہ چری بایا قبیلے نے ان کی ممیاں نہیں بنائیں لیکن یہاں پر قدرتی طور پر مردے محفوظ ہو گئے ہیں۔ مٹی مردہ کا پانی اور سیال نیچے سے چوس لیتی ہے اور خشک ہوا اوپر سے ٹشو خشک کر دیتی ہے۔ قبیلے والے مردے کو گہرا نہیں دفناتے اور بٹھائی ہوئی پوزیشن میں رکھ دیتے ہیں۔ وقت اور جگہ پر یہ محفوظ ہو جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایسا ہی ایک قبرستان تھا جس کی 140 قبروں نے یونیورسٹی آف منیسوٹا کے پروفیسر آرتھر آفڈرہائیڈ کی توجہ حاصل کی۔ آرکیولوجیکل جگہوں سے سیمپل اکٹھا کر کے ان کی بیماریاں ڈھونڈنا ان کی مہارت تھی۔ سائنس میں یہ پیلیو پیتھولوجی کا شعبہ ہے۔
چری بایا قبیلے کی اس جگہ پر آفڈرہائیڈ نے چند ہفتوں میں 140 پوسٹ مارٹم کئے۔ ان میں سے ایک خاتون تھیں جن کی عمر پینتیس برس کے قریب ہو گی۔ ان کے بائیں بازو کو ٹٹولنے پر سخت ابھرا ہوا ماس ملا۔ جلد کے فولڈ اتارنے پر اس ابھار کی وجہ تک پہنچ گئے جو ابھی تک ثابت ایک حصے میں موجود تھا۔ کسی شک و شبہے کے بغیر یہ اوسٹیوسارکوما تھا۔ یہ ہڈی کا کینسر تھا۔ ایک ہزار سال پرانا کینسر جو محفوظ تھا۔ یہ انتہائی تکلیف دہ بیماری ہے اور جتنا بڑا کینسر اس خاتون کو تھا، یہ ناقابلِ برداشت تکلیف ہو گی۔
آفڈرہائیڈ واحد پیلیوپیتھولوجسٹ نہیں جنہیں قدیم لاشوں میں کینسر ملے ہیں۔ ہڈی کا کینسر ڈھونڈنا آسان ہے کیونکہ یہ سخت کیلسیفائیڈ ٹشو بناتے ہیں جو بہت دیر تک محفوظ رہتا ہے۔
محفوظ کردہ ممیوں میں کنیسر کا ٹشو بھی محفوظ رہ گیا ہے۔ ان میں سے ایک قدیم مصر میں داخلة کے مقام پر 1600 پرانا پیٹ کا کنیسر ہے۔ کئی دوسرے مقامات پر کینسر براہِ راست تو نہیں ملا لیکن اس کے چھوڑے ہوئے نشان مل جاتے ہیں۔ کھوپڑی یا کاندھے کی ہڈی میں ننھے سوراخ جو جلد اور چھاتی کے کینسر نے پھیل کر کر دئے تھے۔
آرکیولوجسٹ کی ٹیم کو 1914 میں دو ہزار سالہ پرانی ممی ملی تھی جس میں پیلوک ہڈی پر کینسر کے اثرات تھے۔ لوئیس لیکی نے چھ ہزار سال پرانی جبڑے کی ہڈی ڈھونڈی تھی جس میں خاص قسم کے لمفوما کے اثرات ظاہر تھے۔
کینسر جدید بیماری نہیں، قدیم بیماریوں میں سے ہے اور شاید قدیم ترین ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن جو بات حیران کن ہے وہ یہ نہیں کہ یہ بیماری بہت قدیم ہے بلکہ یہ کہ یہ اتنی کم کیوں تھی؟ میسوپوٹیمیا کے لوگ سردرد کو جانتے تھے۔ مصر میں فالج کے لئے لفظ تھا۔ تورات میں جذام کے لئے تساراعت کا لفظ تھا۔ ہندو ویداس میں جسم میں پانی بھر جانے کے لئے میڈیکل اصطلاح ہے اور چیچک کے لئے دیوی ہے۔ تپدق قدیم دنیا میں اتنا عام تھا کہ اس کے لئے کئی الفاظ ہیں۔ لیکن جو لفظ نظر نہیں آتا وہ کینسر کا ہے۔ عام کینسرز کے لئے بھی کچھ نہیں۔
یہ کیوں؟ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی تو یہ کہ کینسر کا تعلق عمر سے ہے۔ مثال کے طور پر تیس سالہ خواتین میں چھاتی کے کینسر کی شرح چار سو میں سے ایک ہے جبکہ ستر سالہ خواتین میں نو میں سے ایک۔ تپدق، جذام، ہیضہ، چیچک، طاعون اور نمونیا جیسے مرض کے سیلاب نے اسے چھپا لیا تھا۔ یہ اس وقت عام ہوا جب دوسرے قاتل قتل کر دئے گئے۔ انیسویں کے ڈاکٹر اس کو جدید تہذیب کا مرض کہتے تھے۔ ان کا تصور تھا کہ جدید دنیا کی تیزی اور رش کا اس سے کوئی تعلق ہے۔ یہ تعلق ہے تو سہی لیکن جدید تہذیب اس کی وجہ بالواسطہ طور پر بنی تھی۔ انسانی عمر کو طوالت دے کر جدید تہذیب نے اسے موذی کو بے نقاب کر دیا تھا۔
اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ کینسر کی تشخیص جلد سے جلد ہونے لگی تھی۔ تشخیص ہو جانے کی وجہ سے اس کا معلوم ہونا شروع ہوا۔ اگر 1850 میں کسی بچے کی موت لیوکیمیا سے ہو جاتی تو اس کا پتہ لگنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا کہ موت کی وجہ کیا بنی۔ اسی طرح ایکسرے کی آمد نے ابتدائی ٹیومر پتا لگانا اور تشخیص کو ممکن بنایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ جدید زندگی کے سٹرکچر نے کینسر کے سپیکٹرم کو تبدیل کیا ہے۔ کچھ کو بڑھایا ہے اور کچھ کو کم کیا ہے۔ مثلاً، معدے کا کینسر انیسویں صدی کے آخر میں آبادی کے ایک حصے میں بہت عام تھا۔ اس کی وجہ اچار ڈالنے میں استعمال ہونے والے اور کھانے کو محفوظ کرنے والے کچھ ایجنٹ تھے۔ جدید ریفریجریشن کی آمد کے بعد معدے کے کینسر میں نمایاں کمی آئی۔ دوسری طرف، مردوں میں پھیپھڑوں کے کینسر میں بیسویں صدی کی وسط میں بے حد اضافہ ہوا جس کی وجہ سگریٹ نوشی کی وبا کی آمد تھی۔ مردوں میں اس میں نمایاں کمی آئی ہے جبکہ خواتین، جنہوں نے سگریٹ کا استعمال خاصی دیر بعد شروع کیا، میں یہ شرح ابھی تک بڑھ رہی ہے۔
جب 1900 میں اموات کی وجہ کی فہرست بنائی گئی تو تپدق خاصی لیڈ کے ساتھ اول نمبر پر تھی۔ دوسرا نمبر نمونیا کا تھا۔ اس کے بعد پیچش اور گیسٹرو۔ کینسر کا نمبر ساتواں تھا۔ میڈیکل انقلاب کے بعد یہ 1940 کی دہائی میں دوسرے نمبر پر آ چکا تھا (دل کی بیماری کے بعد) جبکہ اوسط عمر میں چھبیس سال کا اضافہ ہو چکا تھا۔ نصف صدی میں آبادی میں ساٹھ سال سے زیادہ کے لوگوں کی شرح دگنی ہو چکی تھی۔ اور یہ وہ عمر ہے جہاں پر کینسر کا امکان زیادہ ہے۔
لیکن اگرچہ یہ نایاب تھا لیکن ہم پھر بھی آفڈرہائیڈ کے پوسٹ مارٹم والی خاتون کو نہیں بھلا سکتے۔ جو شاید اپنے بازو میں بڑھتی رسولی کی تکلیف پر دانت کچکچا رہی ہوں۔ ان کے ٹیومر کو دیکھ کر ہم خیال کو ذہن سے نہیں نکال پاتے کہ یہ ایک طاقتور عفریت ہے جو ہمیشہ سے ہمارے ساتھ رہا ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply