بوڑھا آئینہ ۔۔۔۔۔۔شبیر رخشانی

ایک زمانہ گزر گیا کہ اس نے کمرے کے اندر لٹکا ہوا آئینہ تبدیل نہیں کیا۔ وہ روز اسی آئینے سے اپنا چہرہ دیکھتا ۔۔ چہرہ کبھی دھندلانظر آتا تو کبھی کھردرا تو کبھی سندر۔۔۔ وہ روز آئینے سے گلہ کرتا آئینہ روز اسے خاموشی سے سنتا چلا جاتا مگر ایک حرف زبان پہ نہیں لاتا۔۔ زمانہ گزر گیا کہ آئینے پہ جمی دھول مٹی تک اس نے صاف نہیں کی ۔ لیکن شکوے شکایتیں آئینے  سے ہی کرتا رہتا تھا ۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے ایسے لگ رہا تھا کہ آئینہ اپنی عمر جی چکا ہے۔ اب وہ بوڑھا ہو چکا ہے۔ جگہ جگہ اس کا چہرہ مسخ ہو چکا ہے۔ ایک مسخ شدہ لاش کی طرح۔۔ دل ہی دل میں سوچتا کہ آئینہ کسی ویرانے میں پھینک آئے اور نعم البدل کے طور پر نیا آئینہ دیوار پہ آویزاں کرے ۔پھر اسے خیال آتا کہ ایک دیرینہ ساتھی جس نے ہر عہد میں اس کا ساتھ نبھایا اس کے چہرے کو ہمہ وقت جلا بخشی یہ کیسی بے وفائی کہ اسے کسی ویرانے کے حوالے کیا جائے۔۔ وفاداری کی تمام تر حدوں کو پار کرتے ہوئے جب آئینے نے اپنی جوانی اسے سنوارنے میں خرچ کیا تو اسے کیا حق پہنچتا ہے کہ دیرینہ ساتھی  کو کسی ویرانے کے حوالے کرے۔۔ جہاں وفاداری کا صلہ اسے یہ ملے کہ محلے کے آوارہ بچے اس کے وجود کو ٹکڑوں میں تقسیم کریں۔

ایک عجیب سی کیفیت روز آئینے پہ طاری ہوتی تھی جب وہ اپنا زنگ آلود اور افسردہ چہرہ لے کر اس کا منتظر رہتا۔ اسے روز ایک بات کھائے جا رہی تھی کہ وہ وقت کا مسافر بن چکا ہے۔ شاید اس صدی کا آخری مسافر۔۔ جسے مزید مسافتوں کے لیے تنہائی کا سہارا لینا پڑے۔

وفاداری کا  اندازہ  تو آئینے کے چہرے کو دیکھ کر لگایا جا سکتا تھا کہ اس کی تمام تر رعنائیاں اس کے  مالک کی  آمد کے ساتھ وابستہ تھیں۔ دن کے چوبیس گھنٹے مالک کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب چہرہ دیکھتے ہی وہ پرسکون ہو جاتا۔ جیسے کوئی ماں اپنی اولاد کے انتظار میں اس کی راہیں تھکتی  ہو اور اس کی واپسی پہ نہال ہوجائے۔

آئینے کے ساتھ رکھی کنگھی کے دانت بھی ٹوٹ چکے تھے۔ اس کی حالت آئینے سے بھی بدتر تھی۔ ایک زمانہ گزر گیا مالک کو گنجے سر کی وجہ سے کنگھی کا خیال نہیں آیا۔ اب وہ اپنی زندگی کی آخری سسکیاں لے رہا تھا۔۔

کمرے کا رنگ بھی اترا ہوا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ کپڑے چھین کر اسے ننگا کر دیا گیا ہو۔ ننگے پن میں اس کا جسم ٹھٹھر رہا ہو۔۔ نہ ہی مالک سے اس نے اپنی بے پردگی کا گلہ کیا اور نہ ہی مالک کو اس کے لباس کا خیال آیا۔

کمرے کے اندر لٹکی گھڑی نے کبھی بھی اسے یہ باور کرانے کی کوشش نہیں کی کہ وقت کی  رفتار اس کے ہاتھوں سے تیزی سے نکل چکی ہے۔اس کی سوئی نہ جانے کب سے ایک جگہ اٹکی ہوئی تھی۔ مالک مکان کو بھی خیال نہیں آیا کہ اس کے اندر روح پھونک کر اسے زندگی کی شاہراہ پہ گامزن کردے اور نہ ہی بے جان گھڑی نے کبھی شکایت لگائی۔ اور نہ ہی اس نے کمرے کے اندر پھیلی خاموشی کو توڑنے کے لیے اپنے کانٹوں کو گھمانے کی کوشش کی۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک زمانے کے بعد مالک نے جب کمرے سے باہر قدم رکھا تو وہ اپنے اردگرد کے لیے اجنبی بن چکا تھا اور اردگرد اس کے لیے ۔۔ نائی کی  دوکان پہ کھڑا جب وہ آئینہ دیکھ رہا تھا تو اس کے سامنے ایک اجنبی چہرہ آویزاں  تھا۔ وہ واپس کمرے کا رخ کر چکا تھا جہاں بوڑھا آئینہ اس کے دیدار کا منتظر تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply