رومی سلطنت کی پوری تاریخ میں سب سے بڑی اور پر تکلف ترین عمارت جس کے متاثر کن کھنڈرات آج بھی موجود ہیں۔
بالبیک فونیشیا کا ایک قدیم شہرہےجوکہ موجودہ لبنان میں بیروت کےشمال میں وادی بیکا میں واقع ہے۔ 9000 قبل مسیح سے پہلے بسنے والا بالبیک فونیشیا کےآسمانی خدا بال اور اسکی ملکہ کی پرستش کے لیےقدیم دنیا میں ایک اہم زیارتی جگہ میں تبدیل ہو چکا تھا ( بالبیک کا مطلب وادی بیکا کا بادشاہ بال)۔ شہر کا مرکز ایک بڑا مندر تھا جو کہ بال اور اسکی ملکہ سے منسوب کیا گیا تھا۔ اس پرانے مندر کے کھنڈرات آج بھی رومن دیوتا بال کے بعد کے رومی مندر کے نیچے موجود ہیں۔ پہلے مندر کے کونوں کے پتھروں کا وزن 100 ٹن سے زیادہ ہے۔ جو دیوار برقرار ہے اس کے ہر پتھر کا وزن 300 ٹن ہے۔ آج کے ماہر آثار قدیمہ ،سائنس دان اور تاریخ دان اس بات پر حیران ہیں کہ ان چٹانوں کو کیسے حرکت دی جاتی ہو گی، کہاں سےا ور کس طرح سے ان کی جگہیں تبدیل کی جاتی ہوں گی۔
بالبیک سے ایک میل کی دوری پر مزید چٹانیں موجود ہیں جن کا وزن 900 ٹن سے زیادہ ہے۔ آج بھی بالبیک کی چٹانیں مشہور ہیں اور بہت سے مباحثوں مطالعوں کا حصہ ہیں کہ ان چٹانوں کو کیسے حرکت دی جاتی ہو گی اور کیسے انہیں منظم کیا جاتا ہو گا۔ مزید یہ کہ انہیں اس جگہ پر ایسی چٹانوں کی کیا ضرورت پیش آئیں اور کیوں مندر کے ستون ضرورت سے زیادہ بڑے بنائے گئے۔
اس جگہ کو بعد میں تعمیر کرنے والے جیسا کہ رومی ان چٹانوں کو اپنے مندروں کی بنیاد کے لئے استعمال میں لایا کرتے تھے لیکن واضع طور پر انہیں کوئی حرکت نہیں دیتے تھے۔ ان انتہائی بڑی اور وزنی چٹانوں نے کافی حد تک بالبیک میں ایلین سرگرمیوں سے متعلق سوچ کی طرف رہنمائی کی اور یہاں تک سوچنے پر مجبور کروایا کہ یہ خلائی جہازوں کے اترنے کی ایک قدیم جگہ بھی ہو سکتی ہے۔
ان میں سے کوئی بھی نظریہ فی الوقت حقیقی نہیں مانا گیا اور نہ ہی کبھی یہ نظریات حقیقی مانے جائیں گے ۔ اس کو مشہور سپہ سالار سکندر اعظم نے 334 قبل مسیح فتح کیا تھا اور اسکا دوسرا نام ھیلیو پولیس (سورج کا شہر) رکھا۔ 64 قبل مسیح میں بھی شہر کا یہی نام رہا جب شہر رومی سلطنت میں شامل ہوا تو رومیوں نے اس جگہ کو بڑے تعمیراتی منصوبوں کے زریعے بڑے پیمانے پر بہتر بنایا۔ سلطان سیپٹمس سیورس نے (193ء سے 211ء ) میں رومیوں کے دیوتا بال کا عظیم مندر تعمیر کروایا ۔رومی سلطنت کی پوری تاریخ میں سب سے بڑی اور پرتکلف ترین عمارت آج بھی موجود ہے۔
یہ شہر رومی سلطنت میں کونسٹینٹائن کے عیسایت کو جائز قرار دینے تک کثرت سے دیکھی جانے والی مذہبی عقیدت گاہ ہے ۔
باکوس کا مندر یونانیوں کے پارتھینن سے بڑا ہے اور رومیوں کے تمام مندروں کی تباہی عیسایئت کے نمودار ہونے کے دوران ان کے گرجا گھروں کے طور پر استعمال کے ذریعے ہوئی۔ صرف دیوتا کی قربان گاہ کو تھیوڈمیس نے ڈھا دیا ان مندروں نے عیسائیوں کی پرستش کی جگہوں کے طورپر اپنا کردار 657 ء میں مسلمانوں کی آمد تک جاری رکھا۔ مسلمانوں کے دور حکومت میں یرموک کی جنگ میں بازنطینی طاقتوں پر فتح کے بعد اس جگہ کا نام القلعہ رکھا گیا۔ دیواروں کو دفاع کے لئے مضبوط کر دیا گیا اور مندروں کو قلعہ بنا دیا گیا۔ قدیم رومی مندروں کے درمیان میں ایک مسجد تعمیر کی گئی جبکہ عیسائیوں کے کئے گئے اضافے کو تباہ کر دیا گیا۔
باز نطینی فوج نے 748ء میں شہر لوٹ لیا اور 957ء میں دوبارہ حملہ کیا لیکن اس پر قبضہ نہ کر سکے اور آخر کار منگول اور دیگر دوسری سلطنتوں کے بعد یہ سلطنت عثمانیہ میں شامل ہو گیا جس نے اس شہر کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جس وجہ سے یہ شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا۔ بہت صدیوں تک زلزلوں اور تیز ہواوں نے اس شہر کو مزید نقصان پہنچایا ۔ اس جگہ کی حفاظت اور تعمیر نو کے لئے 1898ء تک کچھ نہ کیا گیا۔ جب جرمن شہنشاہ ولیم دوئم نے اس جگہ کا دورہ کیا اور ماہر آثار قدیمہ کے ایک گروہ کو یہاں کام شروع کرنے کے لئے بھیجا۔ ان کے بعد دوسری بین الاقوامی تنظیموں کی کوششوں نے بالبیک کو آئیندہ نسلوں کے لئے محفوظ رکھا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں