کمیونیکیشن ٹاورز اور سیکورٹی گارڈز

آپ گھر کی چھت یا کسی بھی اونچی جگہ سے اپنے گردونواح میں نظر دوڑائیں تو آپ کو جا بجا پاکستانی ایفل ٹاورزیعنی موبائل ٹاورز نظر آئیں گے۔ ان ٹاورز کے بغیرآپکی روزہ مرہ کمنیکشن کسی صورت میں ممکن ہی نہیں۔ ان ٹاورز کے چوٹی پر بعض اوقات آپکو ایک لائٹ نظر آئے گی جس کے بظاہر دو مقاصد ہیں۔ اول اندھیرے میں اس جگہ کی نشاندہی ہو سکے اور متعلقہ افراد باآسانی اپنی مطلوبہ لوکیشن پر پہنچ سکیں۔ دوئم اندھیرے میں ہوائی جہازاس ایریا میں نیچی پرواز سے گریز کرسکیں۔ فیڈرل ایوایشن ایڈمنسٹریشن (FAA) کے قوانین کے مطابق جب بھی کسی بلڈنگ یا ٹاوروغیرہ کی بلندی دو سو میٹر (96۔60 میٹر) یا اس سے زائد ہو توپھرٖفضائی حادثات سے بچنے کے لئے لائٹ لگانا ضروری ہوتا ہے۔ لائٹ کی خرابی کی صورت میں تیس منٹ کے دورانیہ کے اندر اسکی مرمت یا تبدیلی ضروری ہوتی ہے۔ بد قسمتی سے وطن عزیز میں ایسے قوانین پر عمل درآمد کم ہی ہوتا ہے۔ عوام بھی متعلقہ محکمہ میں اپنی شکایات درج نہیں کرواتے اور نہ ہی متعلقہ ادارے اس وقت تک جاگتے ہیں جب تک کوئی اندوہناک حادثہ رونما نہیں ہوتا۔زیادہ تر سرخ رنگ کو ٹاور لائٹ کے لئے منتخب کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ہر رنگ کا استعمال اپنی جگہ الگ معنی رکھتا ہے۔ جیسے سفید، سبزاور سرخ رنگوں کے امتزاج ائیر پورٹس اور ملٹری کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔
مسلسل جلتی ہوئی ساکت ٹاورلائٹ پرندوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق سالانہ ستر لاکھ پرندے کمنیکشن ٹاورز سے ٹکرا کر لقمہ اجل بن جاتے ہیں اس لئے FAA کے ستمبر 2015 کے اعلامیہ کے مطابق ٹمٹاتی ہوئی لائٹ نصب کی جائے گی اور اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق پرندوں کی شرح اموات میں تقریباً 40 فیصد کمی ہوئی ہے۔ ٹاور کس طرح کی زمین پر تعمیر کیا جائے گا یا اس عمارت کی کیا حالت ہونی چاہئے جس پر یہ بوجھ لادا جائے گا یہ ایک الگ بحث ہے، لیکن ایک بات قابل افسوس ہے کہ فیک رپورٹننگ سے ہی ایسے ٹاور تعمیر کئے جاتے ہیں اورپاس سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ہمارے دیس میں کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
ٹاور زمین پر لگایا گیا ہو یا کسی بلڈنگ کی چھت پرنصب ہو،ہر موبائل کمپنی ٹیلی کام آلات کی حفاظت کے لئے ایک سیکورٹی گارڈ متعین کرتی ہے۔ اگرچہ سیکورٹی کہنا کسی بھی لحاظ سے بھی موزوں نہیں ہو گا کیونکہ اس بیچارے کے پاس سیکورٹی کے نام پر غلیل تک نہیں ہوتی جس سے وہ سائٹ تو کیا اپنی بھی حفاظت کر سکے۔ لیبر قوانین کے تحت ایک مزدور ( بشمول چوکیدار، انجینئر ، مینجر وغیرہ ) صرف 8 گھنٹے ڈیوٹی کر سکتا ہے البتہ لنچ بریک اور وقفہ برائے نماز کو مد نظر رکھ کر یہ اوقات 9 گھنٹے بھی ہو سکتے ہیں۔ انہی لیبر قوانین کےتحت ایک چوکیدار کی تنخواہ تقریبا 14ً ہزار مقرر کی گئی ہے۔
ٹیلی کام کمپنیز کسی بھی سائٹ کے لیے چوکیدار سے 24 گھنٹے کی سروس طلب کرتے ہیں اور تنخواہ 6 ہزار سے 8 ہزار (اوسط 6 ہزار) مقرر کرتے ہیں جو کہ اکثر پندرہ بیس دنوں کی تاخیر کے ساتھ ادا کی جاتی ہے۔ یہ نہ صرف لیبر قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ اخلاقی جرم بھی ہے کہ ایک غریب کو مجبور کیا جائے کہ وہ سائٹ پر موجود آلات اور ڈیزل میں خرد برد کرے۔
اس کم تنخواہ کے علاوہ گارڈ کو کسی قسم کی کوئی میڈیکل سہولت ، سالانہ الاؤنس یا انشورنس پالیسی کی صورت میں کوئی بھی مراعات نہیں دیں جاتی۔سائٹ پرجہاں گارڈ کی 24 گھنٹے موجودگی مطلوب ہوتی ہےوہاں نا تو پینے کے لئے صاف (حتیٰ کہ گندہ مندہ بھی ) پانی موجود ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ٹوائلٹ تعمیر کیا جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف گارڈ مسائل کا شکار ہوتے ہیں بلکہ ٹیکنیکل ٹیمز جو آئے روز سائٹ پر وزٹ کرتی ہیں انکی توجہ کام پر کم اور زیادہ مسجد یا پٹرول پمپ کی تلاش میں صرف ہوتی ہے۔
ٹیلی کام کمپنیز کو چاہئیے کہ لیبرلاز پر عمل درآمد کروائے اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان معاملات پر چیک اینڈ بیلنس رکھے۔

Facebook Comments

محمد کمیل اسدی
پروفیشن کے لحاظ سے انجنیئر اور ٹیلی کام فیلڈ سے وابستہ ہوں . کچھ لکھنے لکھانے کا شغف تھا اور امید ھے مکالمہ کے پلیٹ فارم پر یہ کوشش جاری رہے گی۔ انشا ء اللہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply