اور جب میں مر گیا!آخری گھنٹہ۔۔۔۔منصور مانی/تیسری قسط

چوہیا بھوکی تھی!
میں نے غور سے دیکھا اس کی دُم کٹی ہوئی تھی، مجھے یعنی میری روح کو دیکھ کر ہنسی آ گئی!
مجھے اپنی دادی کی ایک کہی بات یاد آئی، انہوں نے کہا تھا جو جانور اپنے گھر والوں کا خیال نہیں رکھتے ان کا ساتھ نہیں دیتے ان کی دم کٹ جاتی ہے ہو سکتا ہے یہ بات انہوں نے مذاق میں کہی ہو ۔۔۔!
میں نے سوچا اچھا ہوا انسان کی دم نہیں ہوتی ورنہ تو کئی انسان دم کٹے ہوتے!
اور صحافی، لکھنے والے تو اس حوالے سے سر فہرست ہوتے، ہم لوگ کیا لوگ ہیں ہم ؟
ہم لکھتے ہیں، گالیاں کھاتے ہیں الزامات سہتے ہیں ، خبر کی کھوج میں یہاں سے وہاں خوار ہوتے ہیں، اپنے گھر والوں کا قیمتی وقت جانے کیسے کیسے لوگوں میں دیتے ہیں ! ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب ہمارے بچے بڑے ہو جاتے ہیں کیسے ان کے حسین پل ہم سے کھو جاتے ہیں، ہم رات بھر پریس کلب یا ادھر ادھر پڑے رہتے ہیں، گھر جاتے ہیں تو بچے سو چُکے ہوتے ہیں ،بیوی ہمارے لکھے ہوئے کا عذاب سہتے سہتے میگرین کی مریضہ بن چُکی ہوتی ہے!ہم سماج کے ٹھیکےدار بنے سدھار میں اپنے گھر کی سدھ بدھ بھلائے بیٹھے ہوتے ہیں، بچے کس کلاس میں ہیں کیا پڑھ رہے ہیں ہمیں تفصیل معلوم ہی نہیں ہوتی بس سال کے سال ایک رپورٹ کارڈ ملتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ  بچہ پوزیشن ہولڈر ہے! چھٹی والے دن بھی کوئی نہ کوئی تقریب کوئی سیمنار کوئی ڈنر سر پر ہوتا  ہے جسے کبھی کبھی ہم نظر انداز کر کے آخر بیوی بچوں کو وقت دے ہی دیتے ہیں!
شکر ہے ہماری دُم نہیں !
لیکن ہماری قسمت بھی تو نہیں!

کمرے میں ایک نامانوس سی بو بس رہی تھی، شاید یہ موت کی بو تھی ، میں سامنے پڑا تھا ، چوہیا تھک ہار کر کہیں غائب ہو چکی تھی، میں نے گھڑی کی طرف دیکھا، الارام بجنے میں ابھی تیس منٹ باقی تھے ، میں تنہا تھا، اور اب آگے تنہا ہی اپنے کیے کا پھل بھوگنا تھا اچھا یا برا یہ فیصلہ اُس نے کرنا تھا!
یوں ہی بیٹھے بیٹھے میں اُکتا گیا تھا، اُٹھا اور اسٹڈی سے نکل گیا۔۔ پورے گھر پر ایک سناٹا طاری تھا، بچوں کے کمرے سے نکلا، ان کے بستر ابھی سمٹے نہیں تھے، انابیہ کے بستر پر کمبل کے نیچے اُس کے چند کھلونے پڑے سو رہے تھے، ماریہ کا ٹیبلیٹ بستر پر ہی پڑا تھا، میں بچوں کے کمرے سے باہر نکلا صحن میں جیسے ہی نکلا پالتو طوطا ایک دم سے چیخا، میں اس کی جانب دیکھ کر مسکرایا، پورے گھر میں سناٹا پھیلا ہوا تھا، میں آہستگی سے اپنے کمرے میں داخل ہوا کمرے میں ابھی تک خنکی تھی میں نے اے سی کی جانب دیکھا وہ بند تھا، میں نے اپنے بستر کی جانب دیکھا، میرا تکیہ میری جگہ پر نہیں تھا، نہ امی کی شال جو میں سوتے وقت لیتا تھا وہ نظر آئی! پھر مجھے یاد آیا کہ آج میں اپنی جگہ پر آ کر سو بھی کہاں پایا تھا۔۔!
اہلیہ اطمینان کی نیند سو رہی تھیں!
مجھے دیکھ کر افسوس ہوا کہ اب یہ اطمینان کی نیند شاید عمر بھر میسر نہ آ سکے!
میں واپس اسٹڈی میں آ گیا!
میں اپنی موت پر افسردہ تھا، مجھے ملال تھا
اچانک مجھے الاارم بجنے کی آواز سُنائی دی!
میرا انتظار ختم ہونے والا تھا
کچھ ہی لمحوں کے بعد مجھے دروازہ کھلنے کی آواز سُنائی دی
نیند میں چُور میری اہلیہ اسٹڈی میں داخل ہوئیں، مجھے آوازیں دیں!
میری جانب سے کوئی آواز کوئی جنبش نہ پا کر وہ میری طرف بڑھنے لگیں!
میں اب اُن کے مقابل تھا
حسن کو اب سوگوار ہونا تھا!

Advertisements
julia rana solicitors london

میری بیوی کو اب ساری عمر ایک ماں بن کر رہنا تھا، آج صرف میں ہی نہیں مرا تھا ایک عورت کی بھی موت ہوئی تھی جسے اب اپنی پوری زندگی صرف ایک ماں کے روپ میں زمانے کے سرد و گرم دیکھنے تھے! صحیح یا غلط محبت مگر یہ ریت تھی محبت بھی نری اذیت ہی ہے!
اُٹھیں دیر ہو گئی ہے کافی دفتر نہیں جانا کیا ؟ پھرانہوں نے اپنا ہاتھ مجھے اٹھانے کے لیے میری طرف بڑھایا۔۔۔!
(مانی جی، میں عوام)

Facebook Comments

منصور مانی
صحافی، کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply