اور جب میں مر گیا(وہ دو گھنٹے)۔۔۔منصور مانی/قسط 2

دفتر جانے میں ابھی دو گھنٹے باقی تھے، الاارم ایک بار پھر بجنا تھا اور اس ٹائمنگ کا الاارم اب آخری بار بجے گا،پھر مجھے اُٹھا لیا جائے گا!
ابھی دفتر جانے میں کچھ وقت باقی تھا ویسے بھی میری شہرت کہیں بھی وقت پر پہنچنے کی نہیں تھی، زندگی میں کبھی دفتر وقت پر نہیں گیا ہمیشہ گھنٹہ ڈیڑھ، دیر سے ہی پہنچا، تاویل اس پر یہ جڑتا کہ جب سونا ہی صبح کے چار پانچ بجے تلک ہو تو بندہ صبح کیسے جلدی اٹھے؟ یہ میرے احباب تھے جو مجھے جھیلتے تھے میں لیٹ پہنچتا تھا میرا انتظار کرتے تھے یہ اُن کی محبت تھی۔
اب لیکن انتظار میں کر رہا تھا!

اور جب میں مر گیا۔۔۔۔منصور مانی/قسط1

میرا وجود ٹھنڈا ہو چُکا تھا،مجھے امی جان کا آخری وقت یاد آ رہا تھا، ان کی زبان سے کلمہ، درود شریف، اور تلاوت قرآن جاری تھی، مجھے ایک دم خیال آیا کہ کیا میں نے کلمہ پڑھا تھا؟
مسلمان تو میں ہوں لیکن کیسا ؟۔۔۔۔۔یہ مجھے علم نہیں تھا، جب بہت چھوٹا تھا تو امی جان کو خوش کرنے کے لیے نمازیں پڑھا کرتا تھاکچھ بڑا ہوا تب بھی ان کے کہنے پر ہی نماز پڑھی، ہمیشہ امی، بیوی یا کسی کے کہنے پر ہی نمازپڑھی کبھی کسی ضرورت کو پورا کروانے کے لیے تو کبھی کسی کو خوش کرنے کے لیے ،کبھی کسی کے کہنے پر! کئی کئی جمعے گزر جاتے تھے اور میں مسجد نہیں جا پاتا تھا۔
مجھے بس اپنی زندگی کی تین نمازیں ہی یاد ہیں
پہلی ،جب میں چھوٹا تھا اور کراٹے سیکھتا تھا جب پڑھی تھی کہ اے اللہ میرا بیلٹ ٹیسٹ پاس کروا دے۔۔۔ ہو گیا پاس!
دوسری،میں پریشان تھا پیسے نہیں تھے اور کسی کی مدد کرنی تھی ، جس کی مدد کرنی تھی وہ بڑی آس لے کر آیا تھا، میں نے نماز پڑھی، اور دوسرے دن ہی میرے پاس اتنے پیسے تھے کہ اُس کی مدد تو ہوئی ساتھ میں میرے پورے مہینے کا خرچ نکل گیا!
تیسری جب ابو جان اہسپتال میں تھے ، زندگی اور موت کی کشمکش جاری تھی ، میں جان گیا تھا کہ ابو مر جائیں گے، ابو جانتے تھے وہ نہیں بچ پائیں گے، پھر بھی انہوں نے میرے کان میں کہا۔۔۔۔! منصور مجھے بچا لو مجھے گھر لے چلو۔۔! میں نے اپنی زندگی کی تیسری نماز پڑھی ۔۔۔۔!
ابو نہیں بچ سکے!!!

میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا، نماز روزے سب ملاوٹ والے تھے ، کسی میں رغبت نہیں تھی دل لگی نہیں تھی ، ہاں کچھ بنا نماز کے سجدے تھے جو میں چھپ کر کیا کرتا تھا، جب مجھے اللہ پر پیار آیا کرتا تھا، میں اپنی محبت کا اظہار سجدے میں جا کر آئی لو یو بول کر زمین چوم کر کیا کرتا تھا، میرے گھر والے اکثر بولتے تھے کہ  آپ مسلمان بھی ہیں؟ بیوی بولتی انہیں سب کے سامنے نماز پڑھنے میں شرم آتی ہے! دفتر میں ایک ساتھی کو منہ بھر کر بول چُکا تھا کہ میرا دل راغب نہیں ہوتا جب ہوتا پڑھ لیتا!
میرا دامن خالی تھا ، مجھے علم تھا میرے گناہوں کے آگے یہ سب کچھ نہیں اور میرے منہ پر مار دیے جائیں گے!
قبر میں کیا سوال ہو گا مجھے علم تھا فکر نہیں ، کہ جو کیا اسے بھوگنا تھا۔۔!
بس ایک چیز جو ماں نے گھٹی میں ڈال رکھی تھی کہ اللہ اور آپﷺ بس!
اللہ سے محبت کی اور کاروبار بھی، اللہ سے کہتا اچھا ایک کام دلوا دو ، اس کے پیسے میرے اور جو دوسرا کام دلواو گے اس کے پیسے فلاں کو دے دوں گا اسے ضرورت ہے ۔۔۔! اللہ نے کبھی دوسرا کام دینے میں دیر نہیں کی !

یاروں زندگی میں کئی لوگوں کے ساتھ مل کر کام کیا ۔۔۔ لیکن یقین کرو کاروبار کا جو مزا اللہ کے ساتھ ہے وہ کسی کے ساتھ نہیں ۔۔کھرے دام وہ بھی وقت پر! اس کاروبار میں میرے کئی احباب شریک رہے کبھی کسی سے کچھ مانگا تو کبھی کسی سے کچھ، جس کو دینا تھا احباب سے لے کر دیا اور خود کئی بار مفت میں دعائیں سمیٹیں!
امی جان سے اکثر کہا کرتا تھا مجھے جہنم کی ٹینشن نہیں آپ ہیں ناں ۔۔ ! آپ وہاں اللہ کےسامنے اپنا ڈوپٹہ ڈال دیں گی ، بچا لیں گی مجھے ، جس کے جواب میں اکثر مجھے چپل ہی پڑتی تھی۔
اچانک مجھے کچھ کھٹر پٹر کی آواز سنائی دی !
اپنے جسم کی طرف دیکھا ، وہاں کچھ نہیں تھا، میرے لیپ ٹاپ پر ایک چوہیا بیٹھی ہوئی تھی میں خاموشی سے اسے دیکھنے لگا، اور میں کر بھی کیا سکتا تھا؟
چوہیا کچھ دیر تک تو بیٹھی رہی پھر میرے چہرے کے پاس آ گئی کچھ دیر مجھے سونگتی رہی اور پھر میرے چہرے پر چڑھ کر دوسری طرف نکل گئی!
مجھے بہت افسوس ہو رہا تھا!
اہلیہ کئی بار بول چکی تھیں کے چوہے مار دوا لا دیں ہر بار ہی بھول جاتا تھا، اب جانے دوا لا کر کون دے گا اور کون ڈالے گا!

میری نظر گھڑی پر گئی، ابھی الاارم بجنے میں ایک گھنٹہ باقی تھا۔۔!
میں سوچنے لگا کہ  میری زندگی میں آخر تھا کیا؟
میری زندگی میں کچھ بھی تو نہیں تھا، سوائے محبت اور بے پناہ گناہوں کے!
محبت میں نے خوب کی اور سب سے کی !
عشق مگر ایک ہی کیا!
مگر کیا یہ عشق یہ محبت اب میرے کسی کام کی تھیں ؟
مجھے اپنی بیوی اپنے بچوں کی فکر تھی !
بچے جو ابھی چھوٹے تھے!
بیوی جو ابھی جوان تھی !
لیکن کیا میرے فکر کرنے سے اُن کا کچھ بن سکتا تھا؟
کچھ نہیں !
میں اپنے بیوی بچوں کی بے بسی کو محسوس کر رہا تھا
لیکن اس سے کہیں زیادہ اپنی بے بسی کہ جس سے میرا دل پھٹ رہا تھا
لیکن میرے دل کے پھٹنے سے بھی اب کیا ہو سکتا تھا
میں تو مر چُکا تھا۔۔!
چوہیا ایک بار پھر میرے چہرے کے پاس آ کر بیٹھ چکی تھی!

Advertisements
julia rana solicitors

(مانی جی، میں عوام)

Facebook Comments

منصور مانی
صحافی، کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply