• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سیاحتی مقام پر جنسی ہراسمنٹ ،پبلسٹی اسٹنٹ کے سوا کچھ بھی نہیں

سیاحتی مقام پر جنسی ہراسمنٹ ،پبلسٹی اسٹنٹ کے سوا کچھ بھی نہیں

لکھنے کے لئے موضوع کا انتخاب بہت پریشان کن عمل ہوتا ہے، جس طرح رمضان کے بابرکت مہینے کے بعد بہت سے موضوعات نے گھیراؤ کیا ہوا ہے جس پر لکھنے کو بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے اس میں ریمنڈ ڈیوس کی کتاب اور پھر سوشل میڈیا پر ایک خاتون کی شئیر شدہ تصویر جس میں اس کا دعویٰ ہے کہ اسے ہراساں کیا گیا تھا، اور وہاں اس نے بہت کوشش کی مگر وہ لاہوری منڈے اسے چھیڑنے سے باز نہیں آئے، دونوں موضوعات اچھے ہیں مگر ریمنڈ ڈیوس کی کتاب میرے لئے کوئی اہمیت کی حامل نہیں ہے کیونکہ جنرل پاشا نے جو کیا اس کی جگہ پر جو بھی ہوتا وہ یہی کرتا۔ وہ الگ بات کہ عمران خان، نواز شریف اور زرداری پر برسے مگر جنرل پاشا کے بارے میں اجتناب کر گئے۔ تو اس پر لکھنے میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مجھے لکھنے پر اس لڑکی کے سوشل میڈیا اسٹیٹس اور اس پر لکھنے والوں نے مجبور کر لیا ہے ۔

عید کے بعد سیاحتی مقات پر جانا ایک روایت اور دستورسا بن گیا ہے، اور کچھ دہائیوں سے اس میں بڑی تیزی دیکھنے میں آئی ہے، مری، سوات کے علاقوں میں پہلے لوگ جاتے تھے، کیونکہ ان علاقوں کے لئے سڑکیں اچھی تھیں۔دیگر سیاحتی مقامات لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھے، نہ میڈیا اتنا تیز تھا کہ لوگوں کو پتہ چل سکے، اور نہ ہی وہاں تک سڑکیں بنی تھیں، یہ تو سڑکوں کی تعمیر اور میڈیا پر پروجیکشن کے بعد بہت سے علاقے لوگوں کی نظروں میں آگئے، جس میں، کاغان، ناران، ہنزہ، خنجراب، گلگت بلتستان، کمراٹ، بدین، بحرین، گلیات، چترال کے کچھ علاقے شامل ہیں جہاں چھٹیوں اور گر میوں کے مہینوں میں ایک جم غفیر امڈ آتا ہے، خاص کر عید کے مواقع پر لوگ ان مقامات کا رخ کرنے لگتے ہیں، میرے خود کے بہت سے دوست ہر سال عید پر سیاحتی علاقوں میں جاتے ہیں اور میں ایسے دوستوں کو بھی اپنی علاقے میں جا نتا ہوں جو عید کے بعد سے ہر مہینے کچھ نہ کچھ رقم بچاکر رکھتے ہیں اور اگلی عید تک وہ ایک بڑی رقم بن چکی ہوتی ہے جس پروہ پھر ان سیاحتی مقامات کی سیر کرتے ہیں اور وہ صوبہ خیبر پختونخوا کے سار ے علاقے دیکھ چکے ہیں۔ ان لوگوں کے جانے کی وجہ سے سیاحت کو فروغ ملتا ہے اور وہاں کے مقامی لوگوں کے لئے کاروباری مواقع حاصل ہوجاتے ہیں اور عوام کو تیز ترین زندگی سے کچھ دنوں کے لئے چھٹکارا مل جاتا ہے۔ کیونکہ دوستوں کا ساتھ بزی شیڈول کی وجہ سے ہر وقت میسر نہیں آتا۔

سوات میں طالبان کی موجودگی کے باعث سوات اور شمالی علاقی جات کی سیاحت مکمل طور پر ختم ہوگئی تھی، کالام، مدین، بحرین، مالم جبہ اور دیگر سیاحتی مقامت تک جانا ایک خواب بن گیا تھا، مینگورہ کی خوبصورتی، خوازہ خیلہ کی خوبصورتی ماند پڑگئی تھی، وہاں خوف کے سائے پڑگئے، چوکوں پر انسانی جسموں کو لٹکایا جانے لگا۔ اور سوات جس کو ایشیا کا سوئزرلینڈ کہا جاتا ہے، وہاں سیاحت ختم ہوگئی، ہوٹل مالکان نے ہوٹل ختم کرکےء متبادل کاروبار دیگر شہروں میں منتقل کردیئے ،تمام سرگرمیاں ماند پڑگئی۔ اس حوالے سے اس وقت ایک سازشی تھیوری میدان میں آئی کہ سوات میں حالات کی خرابی میں پنجابی استعمار کا بڑا ہاتھ ہے، کیونکہ لوگ مری کی بجائے سوات سیاحت کے لئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے مری کی انڈسٹری تباہی سے دوچار ہوگئی ہے اس لئے سوات میں حالات خراب کردیئے گئے۔ مگر اس میں کوئی صداقت نہیں تھی۔ اور یوں سیاحت کی انڈسٹری سوات میں ختم ہوکر رہ گئی، جب سوات میں حالات اپنے نہج پر آگئے تو سوات یونیورسٹی میں ہوٹلنگ کے حوالے سے ایک ڈیپارٹمنٹ کھول دیا گیا تاکہ یہاں ہوٹلنگ اور سیاحت کو فروغ ملے مگر وہ شعبہ نہ چل سکا۔ پی ٹی آئی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سیاحت کے فروغ کے لئے اقدامات اٹھائے گئے، اور بہترین سڑکیں تعمیر کی گئی جو 2012میں آنے والے سیلاب کے باعث خراب ہوگئے تھے۔ گزشتہ سال کی نسبت اس سال ایک اندازے کے مطابق صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ اس دفعہ عید کے موقع پر 25لاکھ سیاح خیبر پختونخوا کے سیاحتی مقات پر آئے۔

ایسے موقع پرا یک لڑکی کے سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والے اسٹیٹس پر ہونے والے واویلے نے نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ ان سیاحتی مقامات پر لوگوں کو ہراساں کیا جاتا ہے اور پنجاب سے آنے والے ٹولے نے اسے کافی ہراساں کیا۔ جس کی تصویر بھی سوشل میڈیا پر وائر ل کردی۔ جس سے یہ تاثر پیش کیا جانے لگا کہ ان سیاحتی مقامات پر جنسی درندے دندناتے پھرتے ہیں جس سے لڑکیوں کی عزتیں وہاں محفوظ نہیں۔ ایک تو وہاں چیزیں اتنی مہنگی ہوتی ہیں دوسری جانب وہاں جنسی درندوں نے اودھم مچادیا ہے کیونکہ وہاں بڑے بڑے درختوں اور پہاڑوں کے درمیاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ کچھ لوگوں نے تو یہ بھی کہا کہ اس دفعہ ہوٹلوں میں لوگوں نے لڑکیوں کی بھی ڈیمانڈ کی، اور وہاں شراب پی کر تیز موسیقی میں ناچنا عام سی بات ہے۔ اگر لڑکی کی اس بات کو سچ مان لیا جائے تو کیا یہ سب کچھ دیگر شہروں میں نہیں ہوتا۔ رمضان کے آخری عشرے میں جب عورتوں کے بازاروں میں چھیڑ چھاڑ شروع ہوجاتی ہے تو وہاں ایسے واقعات نہیں ہوتے کیا؟ لڑکی کی یہ بات کہ اس نے بہت شور مچایا مگر کوئی مدد کو نہیں آیا، آپ کسی بازار میں لڑکی پر آواز کس لیں یا چھیڑ کر دیکھ لیں دیکھتے ہی دیکھتے کتنے خدائی خدمتگار آپ کی دھنائی کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ اور پھر ایسے سیاحتی مقامات پر جہاں لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے اور علاقہ بھی پنجاب کا کوئی علاقہ نہیں بلکہ خیبر پختونخوا کا علاقہ ہے جہاں عورت کی عزت کی جاتی ہے کیونکہ وہ علاقے اب بھی اپنی روایات اپنائے ہوئے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جہاں اس بات کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ پھر شراب وہاں کیسے پہنچتی ہے یہ ایک الگ بحث ہے جس پر لوگوں نے بذریعہ قلم بحث کی ہے۔ ہم اس سوشل میڈیا کی وائرل تصویر اور اسٹیٹس کی مکمل نفی کرتے ہیں کیونکہ 25 لاکھ افراد سیاحتی مقامات پر گئے ہیں اور صرف ایک لڑکی کے الزام کو مان لینا حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔ میں نے اپنے بہت سے دوستوں سے رابطے کئے جو ان سیاحتی مقامات پرعید کے بعد گئے تھے۔ ان کے بقول لڑکیوں کو چھیڑنے کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ اگر ایسا ہو ا بھی ہے تو اکادکا واقعات تو ہر جگہ ہوتے ہیں۔ مری میں تو ہر دن بلکہ ہر گھنٹے میں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ روالپنڈی اور اسلام باد کے لوگ تو ہر ویک اینڈ پرمری جاتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے سیاحتی مقامات پر تو صرف گرمیوں میں یا پھر عید کی چھٹیوں میں جایا جاتا ہے۔ اور وہاں شراب وشباب کی محفلیں بھی ہوٹلوں میں جمتی ہیں کسی نے اس جانب کوئی نظر نہیں ڈالی نہ ہی کسی نے اس پر قلم اٹھانے کی جسارت کی ہے۔ یہ خود کو مشہور کرنے کے اسٹنٹ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”سیاحتی مقام پر جنسی ہراسمنٹ ،پبلسٹی اسٹنٹ کے سوا کچھ بھی نہیں

  1. یہ بھی ایک نقطہ نظر ہے ۔مگر اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ کچھ لوگ ایسی حرکت کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ ایک بہت خراب عمل وفعل ہے جس کی مزمت بھی کی جانی ضروری ہے

Leave a Reply