موٹروے انتظامیہ کہاں ہے؟۔۔آغر ؔندیم سحر

مجھے تقریبا ً ہر دوسرے ہفتے موٹروے کا سفر کرنا ہوتا ہے‘کبھی آبائی شہر ماں کی قدم بوسی کے لیے حاضری دینی ہوتی ہے اور کبھی مشاعروں اور تقریبات کے سلسلے میں کسی نہ کسی دوست کا بلاوا آ جاتا ہے اور یوں شہر سے باہر جانا پڑتا ہے۔میری ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ موٹروے کا ہی راستہ اختیار کیا جائے تاکہ سفر آسانی سے اور پُرسکون کٹ سکے۔اس دفعہ منڈی بہاؤالدین کے لیے لاہور سے نکلا تو گاڑی کی موٹرنے ”سکھیکی ریسٹ ایریا“ کے پاس جواب دے دیا اور یوں گاڑی کا پنکھا بند ہو جانے سے گاڑی ہیٹ کر گئی۔میں اتفاق سے ریسٹ ایریا کے بالکل قریب تھا،گاڑی کسی طرح سے ریسٹ ایریا پر موجودآٹو الیکٹریشن کے پاس پہنچائی۔اس نے گاڑی کی موٹر خراب ہونے کی بری خبر سنائی اور ساتھ ہی چھ  ہزار کا تقاضا کر دیا۔میں نے اس مکینک سے انتہائی مودبانہ گزارش کی کہ جناب گاڑی کی موٹر ہزار سے بارہ سو تک آتی ہے‘آپ زیادہ بھی لینا چاہتے ہیں تو دو ہزاریا پچیس سو لے لیں اور گاڑی کی موٹر ڈال دیں۔اس نے انتہائی غیر مہذب انداز میں فرمایا”جناب حکومت عمران خان کی ہے‘یہاں پر کرائے بہت زیادہ ہو چکے ہیں لہٰذا ایک روپیہ بھی کم نہیں ہوگا“۔

یوں مکینک نے معاملہ عمران خان اور موٹروے کے ٹھیکیداروں پر پھینک کر میری گاڑی کو چھوڑا اور ایک دوسری گاڑی کو دیکھنے لگا۔وہاں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جس کی گاڑی کا جنریٹر خراب ہو گیا تھا اور یہی مکینک اس سے گیارہ ہزار کا تقاضا کر رہا تھا۔اور ایسے ہی درجنوں مجبور لوگ وہاں کھڑے ان مکینکوں سے اپنی کھال اتروانے میں مصروف تھے۔خیرمیں نے کسی ریفرینس سے معلومات لیں اور یو ں گاڑی کوٹ سرور انٹر چینج (جو پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر تھی)پہ اتار لی‘وہاں موجود ایک الیکٹریشن نے پرانی موٹر ہی ٹھیک کرنے کا دو ہزارمانگا‘بات پندرہ سو میں فائنل ہوئی اور یوں میری گاڑی چلنے کے قابل ہوئی۔

یہ محض ایک واقعہ ہے‘آپ اگر موٹروے پر سفر کرتے ہیں تو آپ کو لازمی ایسے مسائل کاسامنا کرنا پڑا ہوگا۔گاڑی کی خرابی کے باعث نہ سہی‘ ریفریشمنٹ کے لیے آپ   اگر کسی ریسٹ ایریا پر قیام کریں تو وہاں بنے ریسورانٹس آپ کی چمڑی اتارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔چائے کا کپ ستر سے نوے روپے کا‘بوتل پچاس سے ساٹھ روپے‘فاسٹ فوڈ سمیت دیگر اشیاء کی قیمتیں بھی آپ کی پہنچ سے دور ہوں گی۔یوں موٹروے کا سفر جسے بہت آسان او رپُرسکون سمجھا جاتا ہے‘ٹھیکیداروں کے رویوں اور موٹر وے انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے انتہائی تکلیف دہ بن چکا ہے۔

میں اگر گزشتہ چند ماہ میں ہونے والے واقعات کی فہرست مرتب کرنے لگوں تو کالم کی جگہ کم پڑ جائے‘من مرضی کے ریٹس اور گاڑی کے معمولی سے ایشو پر آٹو مکینکس کا منفی رویہ ناقابلِ بیان اور ناقابلِ برداشت ہے۔ایسے معاملات میں ایک عام شہری کس سے شکایت کرے‘کس کو ٹیلی فون کرے اور بتائے کہ جناب موٹر وے پر لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔موٹروے ٹوکن کے پیسے ڈبل اور ٹرپل کر دیے گئے مگر عوام الناس کو سہولیات دینے کے معاملے میں انہیں   ٹھیکداروں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

جس روز میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا‘میں نے کسی طور جاننے کی کوشش کی کہ موٹرویز پر موجود ورکشاپس کا ٹھیکہ کس کے پاس ہے‘ایک ٹھیکدار سے رابطہ ہوا‘اسے ساری تفصیل بتائی اور دست بستہ گزارش کی کہ محترم کچھ خدا کا خوف کھائیں‘آپ سے یہ نہیں کہتے کہ آپ پیسے نہ کمائیں یا اپنی کمیشن نہ لیں‘بس یہ گزارش ہے کہ اپنی محنت کی مناسب قیمت وصول کریں‘لوگوں کی کھال نہ اتاریں۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ آج سے ایک سال قبل میرے ایک دوست نے بتایا کہ وہ کسی ریسٹ ایریا پر گاڑی کے ٹائروں کی ہوا چیک کروانے رکے‘وہاں پوری پلاننگ کے ساتھ ان کے ٹائر کو کیل مار کر شدید ترین پنکچر کر دیا گیا جس پر انھوں نے بہت شور شرابہ ڈالا اور معاملہ تھانے تک پہنچ گیا کیونکہ مکینک کو یہ حرکت کرتے میرے اس دوست نے دیکھ لیا تھا۔یہ واقعہ جھوٹ ہے یا سچ(خدا جانے)‘اس کو الگ رکھ کے بھی سوچیں تو ایسے واقعات اس ملک میں ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔

میں یہ کالم اس لیے نہیں لکھ رہا کہ میرے ساتھ ایسا واقعہ پیش آیا بلکہ اس طرح کے واقعات   روز کا معمول بن چکے ہیں۔ایک طرف ریسٹ ایریاز کی انتظامیہ کا رویہ اور دوسری طرف دکانداروں کی غنڈہ گردی‘ایسے واقعات نے ہمیشہ افسردہ کیا۔ہم کس کس بات پر ماتم کریں‘سسٹم کی کس کس خامی پر شور مچائیں اور قلم چلائیں۔حکومتوں کی کامیابی اداروں کی کامیابی سے جڑی ہوتی ہے‘ادارے کس طرح کام کر رہے ہیں‘اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومتوں کے اندر کچھ ڈلیور کرنے کی صلاحیت بھی ہے یا  محض نعرے بازی سے کام چلایا جا رہا ہے۔موٹروے محض ایک ادارہ ہے مگر اس ادارے سے پورے پاکستان کے لوگ کسی نہ کسی طرح جڑے ہوئے ہیں۔

آپ سب نے بھی کبھی نہ کبھی موٹروے کا سفر کیا ہوگا اورآپ ضروران مسائل کا شکار ہو ئے ہوں گے۔میری اس کالم کے توسط سے وزیر مواصلات سے گزارش ہے کہ جناب موٹروے کے ٹھیکداروں سے لے کر عام سیلز مین تک کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔موٹروے پر لیے جانے والے ٹوکن کی قیمتوں پر بھی غور کیا جائے۔صرف پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو کھری  کھری  سنانے سے ادارے ٹھیک نہیں ہو جاتے‘ادارے کچھ ڈلیور کرنے سے ٹھیک ہوتے ہیں۔اگر ادارے آپ کے لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی بجائے‘مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ پورا سسٹم ہی تباہ ہو چکا۔اب جس شخص سے بھی مہنگائی اور اشیائے خورد نوش پر قیمتوں کا پوچھیں‘اس کا پہلا جواب یہی ہوتا ہے کہ”عمران خان کی حکومت ہے“۔

Advertisements
julia rana solicitors

خان صاحب خدارا کسی ایک ادارے کو تو ٹھیک کر دیں‘تین سال گزر گئے‘ہم یہی سن رہے ہیں کہ ترقی ہو رہی ہے یا ہونے جا رہی ہے،نہ جانے ترقی کس ملک سے منگوائی جا رہی ہے۔ترقی جہاں سے بھی آنی ہے‘بس جلدی لائی جائے کیونکہ یہ عوام اب مایوسی کی آخری منزل تک پہنچنے والے ہیں‘ان کا کچھ سوچیں۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply