میں بہتر ہوں (حصّہ اوّل)۔۔مرزا مدثر نواز

حضرت عیسیٰؑ کے زمانے میں ایک فاسق و فاجر انسان مخلوق خدا کو بہت ستاتا تھا‘ اس نے زندگی میں کبھی بھول کر بھی کوئی اچھا کام نہیں کیاتھا۔ لوگ اس سے اس قدر نفرت کرتے تھے کہ اسے دیکھتے ہی منہ پھیر لیتے۔ ایک روز حضرت عیسیٰؑ جنگل سے بستی میں پہنچے تو اپنے وقت کے ایک عابد و زاہد بزرگ بالا خانے سے اتر کر نیچے آئے اور بڑی عقیدت سے عیسیٰؑ کے قدم چومے۔ اس فاسق و فاجر انسان نے یہ منظر دیکھا تو دل ہی دل میں شرمندہ ہوا اور سوچا کہ ایک یہ شخص ہے جس کی لوگ اتنی عزت کرتے ہیں‘ ایک میں ہوں جس سے ہر شخص نفرت کرتا ہے۔ اس پر اس لمحے شرمندگی اور ندامت کی کچھ ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ اس نے زار و قطار رونا شروع کر دیا تھا۔ اس زاہد و عابد شخص کی نظر اس فاسق و فاجر پر پڑی تو غصے میں آ کر کہا ”یہ مردود کیا کر رہا ہے؟ یہ تو دوزخ کا ایندھن بنے گا‘ پھر دعا مانگی کہ اے اللہ میرا انجام اس مردود اور راندہ درگاہ کے ساتھ نہ کرنا“۔ وہ جب یہ دعا مانگ رہا تھا اس وقت حضرت عیسیٰؑ پر وحی نازل ہوئی کہ یہ فاسق و فاجر اور گنہگار انسان اپنے گناہوں پر نادم ہو کر اور استغفار کر کے جنت کا مستحق بن گیا ہے اور رہا وہ عابد و زاہد‘ تو ہم نے اس کی دعا بھی قبول کر لی ہے کہ اس کا انجام اس گنہگار کے ساتھ نہ ہو گا اس لئے کہ وہ تو اب بجائے جنت کے دوزخ میں جائے گا۔ اسے اپنے تقویٰ و پرہیزگاری پر غرور تھا جس کی وجہ سے اس کے سارے اعمال صالحہ ضائع ہوگئے۔(حکایت سعدیؒ)

Advertisements
julia rana solicitors london

انسان میں جب کوئی وصف یا کمال پایا جاتا ہے تو قدرتی طور پر اس کے اس کے دل میں اس کا خیال پیدا ہوتا ہے اور یہ کوئی اخلاقی عیب نہیں‘ لیکن جب یہ خیال اس قدر ترقی کر جاتا ہے کہ وہ اور لوگوں کو جن میں یہ وصف نہیں پایا جاتا ہے یا کم پایا جاتا ہے اسے اپنے سے حقیر سمجھنے لگتا ہے تو اس کو کبر اور اس کے اظہار کو تکبر کہتے ہیں‘ دنیا میں سب سے پہلے اس بد اخلاقی کا ظہور شیطان سے ہوا‘ اس نے آدمؑ کے مقابلہ میں اپنے کو بالاتر سمجھا اور پکارا۔ ایک حدیث کی رو سے تکبر یہ ہے کہ حق کو قبول نہ کیا جائے اور لوگوں کو حقیر سمجھا جائے۔ تکبر کی اسی اضافی حیثیت نے اس کو مذہبی‘ اخلاقی‘ معاشرتی بد اخلاقیوں کا سرچشمہ بنا دیا۔ پیغمبروں کی مزاحمت صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو اپنے آپ کو اور لوگوں سے بڑا سمجھتے ہیں‘ اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو اور غریب اور عام لوگ پیغمبروں کی ہدایت کو قبول کر لیتے۔اسی تکبر کی بنا پر وہ اپنے ہی جیسے آدمی کو جو عام انسانوں کی طرح کھاتا پیتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہو‘ اطاعت کرنا پسند نہیں کرتے تھے‘ ان کو اس سے ننگ و عار تھا کہ جس حلقے میں عام لوگ شامل ہو گئے ہیں اس میں وہ بھی شامل ہو جائیں۔ غرض پیغمبروں کی دعوت کے قبول کرنے سے صرف ان ہی لوگوں کو انکار تھا جو اپنے آپ کو مذہبی‘ قومی‘ سیاسی یا اور کسی وجہ سے لوگوں سے یا خود پیغمبروں سے بڑا سمجھتے تھے۔
اخلاقی اور معاشرتی حیثیت سے کبر و غرور کے جو ثمرات ظاہر ہوتے ہیں ان کا کوئی شمار ہی نہیں کیا جا سکتا‘ مثلاََ ایک متکبر شخص عام لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا‘ کھانا پینا‘ بات چیت کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے‘ اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے رہیں بلکہ بہت سے لوگوں کو اس قابل بھی نہیں سمجھتا کہ ان کو یہ شرف حاصل ہو‘ جب لوگوں سے ملتا ہے تو چاہتا ہے کہ لوگ اس کو پہلے سلام کریں‘ راستے میں لوگوں سے آگے چلنا چاہتا ہے‘ مجلسوں میں صدر بننے کی کوشش کرتا ہے‘ غرض اس کے ثمرات و نتائج ہزاروں صورتوں میں ظاہر ہوتے ہیں اور اسی بناء پر آپﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی غرور ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا۔بڑے آداب و القاب کا اپنے ناموں کے ساتھ اضافہ کرنا اگر وہ خلاف واقعہ ہوں تو جھوٹ ہے اور اگر واقعہ کے مطابق ہوں تو فخر و غرور کا ذریعہ ہیں‘ عجمی بادشاہ اپنے آپ کو فخریہ ملک الملوک اور شہنشاہ کہلاتے تھے‘ آپﷺ نے فرمایا ”سب سے برا نام اللہ کے نزدیک یہ ہے کہ کوئی اپنے کو ملک الملوک اور شہنشاہ کہلائے“۔ (جاری ہے)

Facebook Comments