یہ ایک مشکل دور تھا۔ مشکل دور اور بھی بڑے گزرے اور آگے بھی گزرنے تھے مگر یہ بہت ہی مشکل تھا۔ مطلب حقیقت میں مشکل۔
ایک آمر کا دور عوام کو سوا نیزے پر چڑھے آڑھے ہاتھ لیے ہوئے تھا۔ بچہ بچہ جانتا تھا کہ ایک صبحِ نو ان کی منتظر ہے مگر تب تک اس شہنشاہ وقت کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم سہنا ضروری تھے۔ بھلا ایک لمبی سیاہ رات کے بغیر ایک انقلابی صبح کا وجود بھی کیا معنی رکھتا؟ ظلم کی ہر ایک گھڑی ویسے بھی سالہا سال کا کرب دیا کرتی ہے۔ ایسے میں سیاہ سفید کے مالک اس آمر کا یہ قلیل سا اقتدار بھی صدیوں پر محیط محسوس ہوتا تھا۔
“بابا، مجھے وہ پچھتر تولے کا گولڈ سیٹ کب لے کر دو گے”۔
باپ کا کلیجہ بیٹی کی اس خواہش پر کٹ سا جاتا۔ وہ تڑپ کر رہ جاتا اور بات ختم کرنے کے لیے الٹا بیٹی کو ڈانٹ دیا کرتا۔
“نالائق، پچھلے کتنے سال سے پچپن تولے کے سیٹ بنا رہی ہے، اب پچھتر تولے کا چاہئے؟ زیور بنانا ہے یا سونے کی بکتر بند گاڑی؟”
لیکن پھر باپ کا دل پسیج جاتا۔ اگلے ہی دن وہ بیٹی کو پچھتر کی جگہ اسی تولے کا سیٹ لا کر دیتا۔ بیٹی کا دل کرتا کہ باپ کے گلے لگ جائے اور کان میں سرگوشی کرے “ابا جی، رسیداں وی تے کڈو” مگر اسی تولے سونا بہت ہوتا ہے۔ اتنا کہ دماغ ایسی کسی خواہش کے ابھرنے سے پہلے ہی دل کی نس بندی کر دیا کرتا ہے۔
غربت کا مارا یہ خاندان اپنی خواہشات کو (پورا کرنے کے بعد) ان گلا گھونٹ کر مار دیا کرتا۔ یہ ایک مشکل دور تھا۔ لیکن قصہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔
آمر نے ظلمت کے اندھیروں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ظلم کی انتہاء کر ڈالی۔ ایک صبح آمر نے بیک جنبش قلم 303 افسران کو بدعنوانی کے نام پر سرکاری ملازمت سے فارغ کر دیا۔ میڈیا بدبخت چونکہ آمر کے زیر تسلط تھا لہذا ان شریف النفس افسران کو “تھری ناٹ تھری” نامی ایک بندوق کا شکار قرار دے ڈالا۔ اگلے دن ملک بھر کے اخبارات میں تھری ناٹ تھری کے چرچے تھے۔ بچی کا باپ ان معتوبین میں سے ایک تھا۔
یوں یہ ہنستا بستا خاندان ظالم آمر کے ہاتھوں تباہ ہونے کے قریب پہنچ گیا۔ باپ بیروزگار ہونے کے باوجود اپنے پیروں پر کھڑا تھا۔ کئی دال کی پاکباز ملازمت کے بعد پیر الحمد للّٰہ کافی مضبوط جو تھے۔ لیکن جس دور میں جینا مشکل ہو اس دور میں جینا لازم ہے کے مصداق والد محترم نے آگے بڑھنے کا سوچا۔ دل پر پتھر رکھ کر بیٹی کو پہلے سونے کے دھاگے بننے پر لگایا اور بعد ازاں انہی دھاگوں سے کپڑے سینے پر۔ جس سلائی مشین سے بچی سونے کے کپڑے سیا کرتی تھی اس کے قصے آج بھی ریاست میں مشہور ہیں۔ بلکہ یوں کہیے کہ حال ہی میں زیادہ مشہور ہوئی ہے۔
(دوسروں کے) خون پسینے کی کمائی سے باپ نے اپنے اکلوتے بیٹے اور سونے کا لباس سی کر زندگی گزارنے والی بہن نے اپنے اکلوتے بھائی کو پہلے ایچیسن کالج لاہور جیسے غریب پرور تعلیمی ادارے میں داخل کیا، اس کے بعد انگلستان جیسے غریب ملک میں رائل گرامر سکول ورسسٹر اور بالآخر آکسفورڈ یونیورسٹی کے کیبل کالج میں داخلہ دلوایا تاکہ بیٹا باپ کا نام روشن کر سکے اور اس پر سے آمر کی جانب سے بدعنوانی کا دھبہ مٹا سکے۔ ننھے نے تہیہ کر رکھا تھا کہ محنت کرنی ہے۔ ننھا دن میں پڑھائی رات میں کرکٹ سوری دن میں کرکٹ رات میں پڑھائی، سوری پتہ نہیں کس وقت پڑھائی اور کس وقت کرکٹ کھیلا کرتا کہ دنیا بھر میں نام کما سکے۔ خوب محبت کرنے کے بعد بالآخر ننھے بھائی نے کرکٹ میں نام بنایا بلکہ ساتھ کی ڈک ورتھ میتھڈ کی مہربانی سے ورلڈ کپ جیت کر اپنی عوام کی جھولی میں ڈال دیا۔
دوسری جانب بیٹی نے سلائی مشین سے سونے کے کپڑے سی سی کر اتنا دھن کمایا کہ ریاست میں مزید خریدنے کو جائداد نہ رہی۔ تھک ہار کر بیٹی نے ایک غریب عرب ملک کے غربت زدہ علاقے میں جائداد بنائی جس کے لیے پیسہ اونٹوں پر لاد کر بھیجا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جس وقت پیسہ بھیجا جا رہا تھا اس وقت گدھے مہیا نہیں تھے کیونکہ گدھوں پر ایک اور کرپٹ لیڈر کے پیسے ریاست سے باہر جا رہے تھے۔ گدھا چونکہ حرام جانور ہے لہذا اس پر لاد کر باہر لے جایا گیا پیسہ بھی حرام قرار پایا جبکہ اونٹ چونکہ مقدس حجازی جانور ہے لہذا اس پر لے جایا گیا پیسہ اس قدر برکت والا تھا کہ بی بی نے بنگالی پاڑے میں ایک کٹیا بنانا چاہی اور بن گئی عرب ملک میں جائداد۔
اس دکھ بھری داستان کا نتیجہ بھی کوئی خوبصورت نہیں۔ ساری زندگی محنت مشقت کر کے سونے کے کپڑے سینے والی بیٹی کی جائداد ایک اور آمرانہ حکومت کی نظروں کو کھٹکنے لگی اور اس نے حصہ مانگنا شروع کر دیا۔ بیٹی روتی رہی پیٹتی رہی کہ یہ میری محنت مشقت سے بھرپور سونے کے کپڑے سینے والی سلائی مشین کا پھل ہے مگر ظالم حکومت نے اس کی ایک نہ سنی اور بھاری بھرکم جرمانہ عائد کر دیا۔ یہ جرمانہ محنت سے کمائی گئی اس معمولی سے جائداد کا پچاس فیصد تھا جو ایک خطیر رقم تھی۔ بیشک جائداد معمولی سہی مگر حق حلال کا ایک ایک پیسہ جیب سے دل چیرتا نکلتا ہے۔
بہت ہے ظلم کہ دستِ بہانہ جُو کے لیے
جو چند اہلِ جنوں تیرے نام لیوا ہیں
بنے ہیں اہلِ ہوس، مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں