• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مرحبا سیدی مکی مدنی العربی صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔محمود چوہدری

مرحبا سیدی مکی مدنی العربی صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔محمود چوہدری

یورپی سکولوں میں پڑھنے والے پاکستانی بچے اس ماحول میں اتنے گہرے طور پر ضم ہورہے ہیں کہ نومبر دسمبر کے مہینے میں آپ کسی بھی پاکستانی بچے سے کرسمس کے تمام نغمے سن سکتے ہیں جو انہیں زبانی یاد ہوں گے مسیحی مذہبی تہواروں کے اہم کردار جیسے سانتا کلاز ، سانتا لوچیا،بیفانا کے بارے آپ کسی بھی پاکستانی بچے سے پوچھ لیں اسے پوری تفصیل کا پتہ ہوگاجن گھروں میں بچوں کے ساتھ مکالمے کا ماحول نہیں ان کے بچے کرسمس کے افسانوی کردار سانتا کلازکے بارے میں یقین رکھتے ہیں کہ اس کا وجود ہے اور شام کو آکروہ کرسمس ٹری کے نیچے بچوں کے لیے تحفے رکھ جاتا ہے اس کے علاوہ کارنیوال ،ہالووین اور ایسٹر جیسے تہواروں کے سحر میں وہ اپنے ہم جماعت طلباءکے ساتھ اس رومانوی دنیا میں ایسے گم ہوجاتے ہیں کہ آہستہ آہستہ ان سے محبت بھی کرنا شروع کردیتے ہیں ظاہری سی بات ہے جس کا تذکرہ ہوگا اس سے محبت ہونا لازمی ہے فیکٹریوں اور دفاتر میں کام کرنے والے پاکستانیوںکو کرسمس گفٹ پیکٹ ملتا ہے جو وہ اپنی فیملی کے لئے گھر لیکر آتے ہیں کرسمس کے دنوں میں بہت سے پاکستانی بچے گھروں میں کرسمس ٹری بنانے کی فرمائش کرتے ہیں اور ان کے والدین ان کی خوشی کے لئے کرسمس کا درخت خرید کر دیتے ہیں اور کچھ نہیں تو والدین اپنے بچوں کے لئے کرسمس کا کیک اور ایسٹر کے تہوار میں چاکلیٹ خرید کرضرور لاتے ہیں سکولوں میں اطالوی استانیاں بچوں کو سانتا کلاز کو خط لکھنے کی مشق کراتی ہیں جس میں اس سے تحفوں کی فرمائش کرنا ہوتی ہیں
میری ذاتی رائے میں بچوں کو اپنے دین کی اگر پوری تعلیم دی جائے تو ایک بین الثقافتی معاشرے میں میں رہتے ہوئے میزبان ممالک کے تہواروں کے بارے جاننے میں کوئی حرج نہیں اگران تہواروں میں میزبان ملک کے شہری خوشیاں منا رہے ہیں تو ان کی خوشیوں میں خیر سگالی کے جذبات کے تحت شامل ہونے میں بھی کوئی حرج نہیں اگر کوئی ان دنوں میں بچوں کو کوئی تحفہ لیکر دینا چاہتا ہے کہ اس کے بچے بھی دوسرے بچوں کی خوشیوں میں شامل ہوں اور اپنے آپ کوکم تر نہ سمجھیں تو اسے تحفے لیکر دینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ خوشیاںتو سب کی سانجھی ہوتی ہیں اوردوسروں کی خوشیوں میں شامل ہونے کا مطلب دوسرے کا مذہب اپنا لینا نہیں ہوتا البتہ کسی کی خوشیوں میں شامل ہونے سے خوشیاں بڑھ جاتی ہیں دوسروں کے تہوارکا احترام کرنا چاہیے کسی کی خوشی کابائیکاٹ کرنے سے آپ ایک غیر مہذب شہری ثابت ہوتے ہیں لیکن میرا آج کا سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں اپنے نبی ﷺ کی یوم ولادت کی خوشی بھی منانی چاہیے ؟
ہم یورپ میںرہتے ہوئے مختلف شہروں میں یوم پاکستان منا کر اپنے وطن سے محبت کا اظہار کرتے ہیںکچھ لوگ قائدا عظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی یاد میں بھی دن مناتے ہیں تاکہ ہمارے بچوں کو ہمارے قائدین کے بارے پتہ چلے کچھ لوگ اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے یوم تاسیس پر ہزاروںیوروخرچ کرتے ہیںاور اپنے سیاسی قائدین کی برسیوں پر فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ہزاروں یورو کے ڈنر دیتے ہیں تقاریر کرتے ہیں ، ان کے یوم پیدائش پر سالگرہ کا کیک کاٹتے ہیں دوسرے ممالک سے مہمانوں کو بلاتے ہیں ان کے طعام و قیام پر خرچ کرتے ہیں ہم پاکستان سے آنے والے سیاسی لیڈروں ، مذہبی راہنماﺅں ، پیروں، ادب کی دنیا سے تعلق رکھنے والے شاعروں ادیبوں اور فنکاروں کے ساتھ بھی شام مناتے ہیں ہم بیورو کریسی سے تعلق رکھنے والے افسروں کی آمداور الوداعی تقاریب بھی مناتے ہیں ہم مذہبی جماعتوں کے پروگرام کراتے ہیں اور ان مذہبی راہنماﺅں کویورپ کی سیر پر بھی لیکر جاتے ہیںبہت سے لوگ ویلنٹائین ڈے بھی مناتے ہیں اور جن سے محبت کرتے ہیں ان کے لیے پھول یا تحفے بھی خریدتے ہیں ہم اپنے بچوں اور بیویوں کی سالگرہ کی تقریب مناتے ہیںاور ان تقاریب کی تصاویربھی ویب سائیٹس پر لگاتے ہیں
ہم ان خوشیوں والی تقریبات میں کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے پروگرام میں زیادہ سے زیادہ لوگ جمع ہوں اورہماری خوشیوں کو دوبالا کریں لیکن ان خوشیوںکے منانے سے پہلے ہم کسی سے اجازت نہیں لیتے، کوئی فتویٰ نہیں مانگتے اور ان تقاریب میں کوئی ناصح بننے کی کوشش بھی نہیں کرتا ۔کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہوتا ان خوشیوں کے منانے میں کسی کے ماتھے پر بل بھی نہیں پڑتا کسی کو کوئی فتویٰ یاد نہیں آتاکسی کو بدعتی اور مشرک کہنے کا بہانا نہیں ملتا کسی کو کفر کی فیکٹری لگانا نہیں پڑتی کسی کے دل میں اضطراب پیدا نہیں ہوتاکسی کو نام نہاد ھادی بننے کازعم نہیں ہوتا اور اگر کوئی ایسے معاملات میں سیانا بن کرروکنے کی کوشش بھی کرے تو کوئی ایسے شخص کی بات پر کان بھی نہیں دھرتا اور اس کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی
اس کے بر عکس معاملہ ہواگر اس روح کائنات ﷺ ، فخر موجودات ﷺ اور اللہ کی محبوب ترین ہستی ﷺ کے یوم پیدائش کی خوشی منانے کی تو بہت سے لوگوںپر ناصح بننے کا خمار چڑھ جاتا ہے اور وہ عقل کل کے زعم میںایسے مبتلا ہوتے ہیں کہ سوال داغ دیتے ہیں کہ صحابہؓ ؓنے تو ایسا کوئی دن نہیں منایا تو ہم کیوں منائیںعجیب منطق ہے صحابہ ؓ جن کے شام وسحر اسی محبوب ﷺ کی یاد اور ان کے دیدا رکی لذت میں گم گزرتے تھے جن کی مشتاق نگاہیں اس رخ زیباﷺکا برائے راست نظارہ کرتی تھیں جن کے دلوں کا گلشن ہرپل محبوبﷺ کی یاد میں مہکتاتھا جن کاقلب وصال یارکی لذت سے قرار پاتا تھا جن کی آنکھیں محبوب کے ہجر میں ساون بھادوں کی طرح برستی تھیں ، جن کی چاہت انہیں ایمان و ایقان کے چشموں سے سرفراز کرتی تھی جن کو اس محسن کائنات ﷺ کی ذات با برکات سے اتنا گہرا لگاﺅ اور عشق تھا کہ ان سے دوری انہیں بے چین کردیتی تھی اورجب ایک بار اس چہرہ والضحیٰ کا نظارہ کرلیتے تھے توان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتیں ، دل باغ باغ ہوجاتے اور سینوں کو انقباض کی کیفیت سے نجات حاصل ہوجاتی انہیں بھی ضرورت تھی کہ وہ آپ ﷺ کی یاد کے لیے کوئی خاص دن مقرر کرتے ان کا تو ہر لمحہ ہر پل محبوب ﷺ کی یاد میں بسر ہوتا تھا اور جب وہ ان کی محفل میں موجود ہوتے تو ان کے نظریں اپنے محبوب ﷺ کے چہرے کا طواف کرتی رہتی امام طبرانی نے ام المونین حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت کیا ہے کہ ”نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص آپ ﷺ کے چہرہ اقدس کو اس طرح ٹکٹی باندھ کر دیکھ رہا تھا کہ نہ تو آنکھ جھپکتا اور نہ ہی کسی طرف پھیرتا آپ ﷺ نے اس کی حالت دیکھ کر وجہ دریافت کی تو اس نے دست بستہ عرض کی ”یارسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ ﷺ کے چہرہ انور کی زیارت سے لطف اندوز ہورہا ہوں “امام شعبی حضرت عبداللہ بن زید ؓکے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دن انہوں نے رسالت ماب کی خدمت میںعرض کیا ”خداکی قسم یارسول اللہ ﷺ آپ مجھے اپنی جان مال اولاد اور اہل سے زیادہ محبوب ہیں اگر میں ہر روز آکرآپ ﷺ کی زیارت نہ کر پاﺅں تو میری موت واقع ہوجائے“
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ یورپ میں رہنے والے پاکستانی فرقہ وارانہ ابحاث میں الجھنے کی بجائے ایسے دنوں کو غنیمت جانیں اور ایسی محافل کا اہتمام کریں کہ ان کے بچے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت سے روشناس ہوں آج اہل محبت علمائے دین پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسے دنوں میں حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات کے ہر پہلو اور ہر گوشہ کا تذکرہ اس انداز سے کریں کہ پوری دنیا کو پتہ چلے کہ آپ ﷺ کی ذات نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لوگوں کے لیے مینارہ نور اورچشمہ ہدایت ہے آپ ﷺ کی سیرت کا ایک ایک کونہ علم و عمل اور صبر و عزم کاخزانہ ہے اور آپ ﷺ کے کردارکا ایک ایک گوشہ تقویٰ و پرہیزگاری ، طہارت و پاکیزگی ، توکل و ایقان اور تسلیم ورضا سے منور ہے یہ آپ ﷺ کی تعلیمات ہی ہیں جنہوں نے دنیا کو عدل کی حکمرانی اور بنیادی حقوق کا تصور دیا ، یہ جو ابن آدم کو جبر و استبداد اور ظلم و استحصال کی ہر شکل مٹانے کا شعور آیا ہے ، یہ جوبنت حوا کے نصیبوں میں صدیوں سے چھائے ہوئے استحصال کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں حقوق و احترام کا چراغ روشن ہوایہ جو بچوں اور کمزوروں کے حقوق میں شفقت اور عزت کا تصور ابھراہے یہ جو گورے اور کالے کی تقسیم اور نسلی تفاخر کے بت توڑنے کا آوازا بلند ہواہے ، یہ جو توہم پرستی اور ملوکیت کے بت پاش ہوکر ایک اللہ کی واحدنیت کا علم اونچا ہواہے ،سودی نظام کی چکی میں پستی ہوئی انسانیت کو آزادی دینے کا عندیہ ملا ہے، یہ جوپوری دنیا میں بادشاہت اور فرعونیت کے بت پاش ہوکر جمہوریت کی صدائیں بلند ہورہی ہیںاور انسان کو انسان کی غلامی سے نفرت پیدا ہوئی ہے یہ سب عطا ہے اس محسن کائنات ﷺ کی جن کے بارے شاعر نے کہا
درفشانی نے تیری قطروں کو دریا کردیا   دل کو روشن کردیا آنکھوں کو بینا کردیا
جو نہ تھے خود راہ پر غیروں کے راہبربن گئے  وہ کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کر دیا
آج یورپ میں پلنے والی مسلمان نسل کے علمی نصاب میںمحبت الہی ، محبت رسول ﷺ اہل بیت عظام ؓ ، صحابہ کرام ؓ اور صلحائے امت کے تذکرے موجو د نہیں ہیں اس لیے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ایسے دنوں کو منایا جائے جن سے ان کی زندگیوں میں حضورنبی کریم ﷺ کی محبت اور والہانہ عشق اس طرح گھر کر جائے کہ مادیت اور لادینیت کے طوفان بھی ان کے ایمان کو متزلزل نہ کرسکیں آج کے یورپین مسلمان نوجوان کے دلوں میں ایمان کی بہار اسی صورت خوشبو بکھیر سکتی ہے جب ان کے دلوں میں ابوبکر ؓ و عمر ؓ ، عثمان ؓ و علی ،حسن ؓ و حسین اور بلال ؓ و اویس ؓ کی محبت کے پھول مہک رہے ہوں دانش فرہنگ سے مقابلہ کرنے کا گر ُ اقبال آج سے کئی سال پہلے بتا چکا ہے
خیرہ نہ کر سکا مجھے دانش فرہنگ    سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ ونج

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply