فرعون کے دوبدو: حصہ اول ۔۔۔ میاں ضیاء الحق

جوہانز برگ، سنگاپور، سری لنکا ،جارجیا اور نیپال کے حالیہ لگاتار ٹورز کے بعد اس سال کا آخری ٹرپ مصر منتخب کیا۔ چند مصری دوستوں سے ابتدائی معلومات لے کر دبئی میں مصری قونصلیٹ میں ویزہ اپلائی کیا جو کہ تین دن بعد پاسپورٹ پر ایک خوبصورت اسٹکر کی شکل میں مل گیا۔

شارجہ سے قاہرہ کی 3 گھنٹے کی ائیر عرابیہ فلائٹ رات 1 بجے قاہرہ بحفاظت اتر گئی۔ فلائٹ چونکہ امارات سے آرہی تھی تو اس میں مصری شہریوں کے علاوہ میرے ساتھ بہت سے غیر ملکی بھی شامل تھے۔ حسب معمول لائین میں لگ کر پاسپورٹ کنٹرول گیا تو مصری امیگریشن آفیسر نے پاسپورٹ دیکھ کر ایک سائیڈ پر بیٹھے کا اشارہ کیا۔ باقی سب مسافر انٹری سٹیمپ لگوا کر نکل گئے اور میاں صاحب ادھر بنچ پر بیٹھے سب کو آتے جاتے تکتےرہے۔ کافی دیر بعد ایک پولیس والا آیا اور بیگ ساتھ لے کر اس کے ساتھ چلنے کا کہا۔
برابر والی بلڈنگ میں سی آئی ڈی کا آفس تھا اور اس میں داخل ہوتے ہی دائیں جانب لاک اپ تھا جس میں کافی لوگ موجود تھے اور ان کے بیگ باہر ایک ریک میں ترتیب سے رکھے ہوئے تھے۔
حالات کی نزاکت بھانپتے ہوئے حواس پر کنٹرول کیا اور سوچنا شروع کیا کہ معاملہ کیا ہے؟ کچھ پلے نہیں پڑا۔

بیٹھنے کے لئے ایک بنچ آفر کیا گیا۔ رات کے 2 بجے اس صورتحال نے رہی سہی نیند بھی دھواں کردی۔ میرا پاسپورٹ امیگریشن ڈائریکٹر کے کمرے میں بھجوا دیا گیا اور میں بنچ پر بیٹھا لاک اپ میں موجود لوگوں کی چہل پہل دیکھنے لگا جو بہانے بہانے سے باہر بیٹھے سنتری سے کچھ نا کچھ فرمائشیں کررہے تھے کہ ٹائم پاس ہو۔ لگا کہ کئی لوگ کافی دنوں سے یہاں تھے۔
مصری اور پاکستانی بھائی بھائی تو ہیں ہی اس لئے یہاں بیٹھا اندازہ لگا رہا تھا کہ یہ کتنے پیسے مانگ سکتے ہیں اور میں کتنے دے سکتا ہوں؟

بجٹ بنا کر فارغ ہوا ہی تھا کہ اندر سے ایک انسپکٹر میرا پاسپورٹ لئے آیا اور کہا جاو میاں صاحب! جی لو اپنی زندگی!

سامان لے کر اس دروازے سے باہر چلے جاو باہر ٹیکسی مل جائے گی۔ خوشی میں یہ بھی ناں  پوچھا کہ بھائی مسئلہ کیا تھا؟ کس سے شکل ملتی ہے میری؟

بکنگ ڈاٹ کام سے نیو سٹی ہوٹل بک کیا ہوا تھا اور لیٹ چیک ان کنفرم تھا اس لئے تھوڑی خوشی اور زیادہ نیند سے جھومتے لہراتے باہر پہنچا۔ ٹیکسی والے کو ہوٹل کا پیپر تھمایا اور 170 مصری پاونڈز فائنل کرنے پر ٹیکسی والا نکل پڑا۔

سٹی ہوٹل کا معمہ:
سٹی ہوٹل کی جی پی ایس لوکیشن تحریر سکوائیر کے بالکل نزدیک تھی اس لیے ٹیکسی والے کو اسی سکوائیر کا کہا کہ سٹی ہوٹل کے نام پر اس مصری نے تجسس سے سر دائیں بائیں گھما دیا تھا۔ یہ ہوٹل تلابات سٹریٹ پر تھا جو اس میدان سے نکلتی ہے۔ 40 منٹس کی ڈرائیو کے بعد تحریر سکوائیر اور پھر تلابات سٹریٹ پہنچے تو رات کے 3 بج رہے تھے۔ گھپ اندھیرے میں نیو سٹی ہوٹل ڈھونڈنا مشکل ہورہا تھا۔ پوری سٹریٹ میں کہیں بھی سٹی ہوٹل نظر نہیں آیا جو بکنگ ڈاٹ کام پر بہت نفیس اور منفرد لگ رہا تھا۔ تب اندازہ ہوا کہ فوٹو پر مت جانا اگلی دفعہ۔ آخر ڈرائیور سے کہا کہ یار تو یہیں اتار دے میں خود ہی ڈھونڈ لوں گا۔

اگلے چوک میں ایک پولیس والا نظر آیا جو رات 3 بجے ٹریفک کنٹرول کر رہا تھا۔ اس کی خالص عربی کے سامنے اپنی سپیشل عربی میں اپنی مشکل بیان کی تو اس نے پیچھے کی طرف اشارہ کیا کہ چوک سے پانچویں بلڈنگ ہے۔

خوشی سے پھولا  سماتا اس طرف بھاگا۔ یہ ایک پرانی بلڈنگ تھی جس میں ایک داخلی راستہ تھا جیسا پرانی حویلیوں میں ہوتا ہے اور دائیں جانب دیوار پر ایک چھوٹے سے بورڈ پر نیو سٹی ہوٹل پانچو ں منزل لکھا تھا۔ سامنے لفٹ تھی جس پر گرد اتنی جمی تھی کہ شاید فرعون کے مرنے کے بعد کسی نے اس کی صفائی کی کوشش ہی نہیں کی کہ اب کون پوچھنے والا ہے۔ اوپر عربی میں کچھ لکھا نظر آیا۔ پڑھا تو معلوم ہوا کہ لفٹ رات 12 بجے بند ہوجاتی ہے اور اب صبح 6 بجے چلے گی۔

پانچ منزلیں سیڑھیاں چڑھنا پانچویں آسمان پر جانے جیسا محسوس ہورہا تھا۔ تب معلوم ہوا کہ سیاح کو صرف پیسے کی نہیں ہمت اور حوصلے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے کہ کب کیا حالات آن پڑیں گھبرانا نہیں۔

20 کلو سامان والا بیگ لے کر اوپر پانچویں منزل پر پہنچا تو پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ اوسان خطا ہونا کیا ہوتا ہے۔ صبح کے 4 بج چکے تھے۔ ایک ٹین ایجرز مصری لڑکا ایک ریسیپشن نما ڈیسک پر بیٹھا تھا۔ بھاگتا ہوا آیا بیگ اٹھا کر اندر لے گیا۔ کافی بنا کر جھٹ سے سامنے رکھ دی۔ میں نے کہا بھیا میرا کمرہ کدھر ہے۔ اس نے مسکرا کر کہا کہ سر کمرے تو سب لگ گئے ہیں کوئی بھی خالی نہیں ۔ آپ کی بکنگ ہے لیکن شاید مینیجر نے غلطی سے کسی اور کو دے دیا ہے۔ آپ کافی پئیں میں کچھ کرتا ہوں۔

میاں صاحب کا ٹورازم کا پروگرام تتر بتر ہوتا محسوس ہوا اور سوچنا شروع کیا اس سب خواری میں کہاں کہاں میرا اپنا ہاتھ ہے؟ اتنی دیر میں ایک اور مصری وارد ہوا اور کہا کہ برابر میں ہمارا ایک اور ہوٹل ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ اس کی لفٹ 24 گھنٹے چلتی ہے۔2 سیکنڈ میں پلان کیا کہ صبح تو تقریبا ہونے والی ہے کچھ گھنٹے سو کر کسی اور ہوٹل میں نکل جاوں گا۔ یہ ہوٹل ایسا ہے تو وہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ بکنگ ڈاٹ کام کے ساتھ ساتھ ذاتی ریسرچ کے فائدے بھی محسوس ہوئے۔

دونوں نے جھٹ سے میرے بیگ اٹھائے اور پانچ فلور نیچے اتر کر پچھلی گلی میں چل دیئے۔ تقریبا 500 میٹر کے بعد ایک اور ایسی ہی پرانی بلڈنگ کے سامنے رک گیا اور مسکرا کر اندر والی لفٹ میں سوار ہونے کی آفر کی۔ ساتویں فلور پر رک کر ہوٹل کی ریسیپشن پر گئے تو لگا کہ اسی کی دہا ئی آج ہی شروع ہوئی ہے۔ اپنا کمرہ دیکھا تو باتھ روم اندر ہی تھا لیکن چھت کھلی ہوئی۔ پرانا اےسی اور بوسیدہ فرنیچر سے آراستہ اس فرعونی حجرے میں آثار قدیمہ دریافت کرنے کا سوچنا شروع کیا کہ اچانک خیال آیا کہ یہاں سونا بھی ہے۔ فوری  طور  پر   اس مصری سے کہا کہ نہیں بھئی ہمارا کمرہ تم نے کسی اور کو دے دیا اور یہ کمرہ ہم کو پسند نہیں اس لیے ہماری بکنگ کینسل کرو اور کریڈٹ کارڈ سے ایک پیسہ بھی مت  کاٹنا جو بکنگ ڈاٹ کام والوں نے تمہیں دیا ہے اور مجھے نیچے چھوڑ کر آو۔ اس نے معذرت کی اور راضی ہوگیا کہ بکنگ ڈاٹ کام کو کمپلین مت  کرنا ہم نو شو ظاہر کردیں گے اور پیسے بھی نہیں کاٹیں گے۔

نیچے ٹیکسی ملی تو اس کوسینٹ جارج ہوٹل جانے کا کہا جس کی بکنگ کینسل کرکے میں نے یہ ہوٹل بک کروایا تھا کہ یہ تحریر سکوائیر  اور دریائے نیلکے بالکل ساتھ ہے۔ سینٹ جارج ہوٹل یہاں سے تقریبا 5 کلومیٹر دور تھا ڈرائیور دس منٹس میں وہاں چھوڑ آیا۔ ایک اچھا ہوٹل دیکھ کر جان میں جان آئی۔ 30 ڈالر یومیہ  ڈیل کر کے 2 دن کے لئے ایک عمدہ کمرہ مل گیا۔ صبح پانچ بجے چیک ان کرکے فورا سونا تھا کہ دوپہر کو اہرام مصر دیکھنے جانا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply