صفائی سے لا پروائی۔۔خرم خان

یہ صفائی سے لا پروائی ہم میں کہاں سے آگئی ہے؟ کیوں ہم  انفرادی طور پر اس بات کی کوشش نہیں کر سکتے کہ ہم جہاں بھی ہیں ہماری وجہ سے آس پاس کا ماحول اور جگہ گندی نہ  ہو؟ کیا صفائی بس کچھ پہلے سے طے شدہ چند معمولات  کا نام ہے جو صرف کوئی صفائی پر معمور لوگ ہی انجام دیتے ہیں؟

عام مشاہدہ میں یہ ہی آتا ہے کہ بحیثیت مجموعی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ افرادی قوت کو معمور کرے تاکہ ہم جہاں چاہیں، جب چاہیں جیسے چاہیں کچرا پھینک سکیں اور وہ ہمارا پھیلایا ہوا کچرا صاف کریں۔

کوئی بھی معاشرہ تہذیب یافتہ ہو کیسے سکتا ہے جہاں صفائی نہ  ہو؟ ہم جب کسی بھی ترقی   یافتہ غیر ملکی دورے پر جاتے ہیں اور ہر طرف صفائی نظر آ رہی ہوتی ہے تو پہلا تاثرخود بخود یہ ہی بنتا  کہ کس قدر تہذیب یافتہ معاشرہ ہے۔ وہ معاشرے جہاں صفائی پائی جاتی  ہے،وہاں بھی  شاپنگ بیگز استعمال ہوتے ہیں ،بچے تافیاں چاکلیٹس کھاتے ہیں ۔لوگ گاڑیوں میں ھاتے پیتے ہیں ،لیکن ایسا سب کرتے ہوئےشاپنگ بیگز اور ٹافیوں کے ریپرز  دیگر چیزیں سڑکوں پر نہیں پھینکتے۔

ان ملکوں میں حکومتیں کوئی چوبیس گھنٹے کے لیے صفائی کرنے والا عملہ  کام پر   معمور نہیں  کرتیں ،  مثال کے طور پر اگر امریکہ میں رہیں تو ان کے ایک شہر، فارمنگٹن ہلز، جہاں میں نے تقریباً سات سال گزارے ہیں وہاں شہری حکومت کی طرف سے جمعہ کا دن صبح کا وقت تقریباً دس بجے معین تھا اور آپ اگر صبح اٹھ کر اپنے دفتر،  سکول اور کالج وغیرہ کے لیے نکلیں تو ہر مکان اور عمارتوں کے باہر طریقے سے کچرادانوں میں اور بڑی بڑی کالی کچروں کے لیے مختص کی گئی تھیلیوں میں کچرا اور خزاں کے موسم میں پتّے بڑی سفید تھیلیوں میں نظر آئیں گے تاکہ جب کچرا جمع کرنے والے اپنے وقت کے مطابق آئیں تو تمام کچرا اٹھا کر لے جائیں ،کیونکہ وہ ہفتے میں صرف ایک دفعہ  ہی آئیں گے اور اس کے بعد نہیں ۔ اگر کسی نے نہیں  رکھا تو وہ گھروں پر دستک بھی نہیں  دیں گے کہ کچرا ہے تو دے دیں، تو جس نے نہیں  رکھا وہ اگلے جمعہ تک اپنا کچرا اپنے پاس ہی رکھے گا۔ مگر مجال ہے کہ   کسی کا کچرا  باہر  سڑک پر رکھا ہوا یا پھینکا ہوا نظر آ جائے۔

اس کے برعکس ہم اپنا جائزہ لیں اور خاص طور پر فلیٹ کے مکین تو یہ روز مشاہدہ کرتے ہیں کہ  وہاں  کچرا اٹھانے والا روز آتا ہے گھنٹی بھی بجاتا ہے اور کچرا لے کر جاتا ہے مگر تب بھی لوگ بے دریغ کچرا پھیلاتے ہیں، باورچی خانوں کی کھڑکیوں سے کبھی پورے پورے کھانے، اپنے ٹیریس سے تھیلیاں اور کبھی کبھی خواتین اپنے بال جھاڑتے ہوئے اپنے بالوں کے گچھے، پیاز چھیل کر پیاز کے چھلکے، شیِر خوار بچوں کے ڈائپر وغیرہ بے دریغ پھینک دیتی  ہیں۔ اور جو صفائی کرنے کے لیے روزآتے ہیں ان کی  محنت  چند گھنٹوں میں ملیا میٹ ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ہمارے یہاں دفتروں میں جائیں وہاں بھی لوگ اپنے استعمال شدہ ٹِشو پیپر اور کاغذ اور پانی کی خالی بوتلیں جگہ جگہ پھیلا دیں گے ، حالانکہ جگہ جگہ کچرا دان موجود ہونگے مگر جہاں بیٹھیں گے وہیں چھوڑ دیں گے کہ کوئی اور آئے گا اور ان کا کچرا صاف کرے گا! ہمارے یہاں کیونکہ نجی اداروں میں پھر بھی کچھ سختی ہوتی ہے ورنہ شاید حکومتی دفاتر میں کام کرنے والوں کی طرح وہ بھی اپنی کرسی کے ساتھ ملی دیواروں پر پان کی پیِکیں بھی تھوک کر دیواریں لال کر دیں،مگر اپنی دفتر کی دیوار لال نہیں  بھی کرتے تو اسی عمارت میں اپنے دفتر سے باہر نکل کر عمارت کی کوئی اور دیوار ضرور رنگ دیتے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم بالکل یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ شاید کچرا ہونا اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے شاید زندگی اسی طرح گزاری جاتی ہے اور اگر کچرا آس پاس موجود ہے بھی تو اس سے کوئی فرق نہیں  پڑتا ۔ ہماری صفائی کے بارے میں جو  حساسیت اور تربیت ہے انفرادی سطح پر جب تک وہ بہتر نہیں  ہو گی، تب تک ہمارے گلی، محلے، قصبے وغیرہ کچرے خانے بنے رہیں گے، ہمیں چاہیے کہ کم از کم ہماری آنے والی نسل اس بارے میں حساس ہو اور جہاں کہیں ہوں تو ان کی وجہ سے آس پاس کا ماحول نہ  خراب ہو۔ تو اس کے لیے ہمارے گھروں میں اور تعلیمی اداروں میں ہمارے بچوں کی صفائی کی حساسیت کی تربیت پر کافی زور دینا ہوگا تا کہ  مستقبل میں ہی سہی، ہمارے گلی اور محلے صاف  نظر آئیں  ۔ ہماری ابھی کی اور پچھلی نسلوں نے اس معاملہ پر کوئی توجہ دی ہی نہیں ، جس کے نتائج ہم یہ بھگت رہے ہیں کہ ہمارے علاقے کچرا کنڈیاں بن گئے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مگر بہرحال میں اس بات کو سمجھنے سے بالکل قاصر ہوں کہ اگر صرف تربیت کا فقدان کے نتائج ہم بھگت رہے ہیں تو ایسا کیوں ہے کہ یہ ہی لوگ صرف دو گھنٹے کی فلائیٹ سے خلیجی ممالک میں جائیں گے اور وہاں انتہائی  حساس ہو جائیں گے، کچرا پھیلانے کے معاملے میں، تو ایسا کیوں ہے کہ وہاں پرواہ کریں گے اور یہاں پر انتہائی درجہ کی لاپروائی؟

Facebook Comments

خرم خان
شعبہ سوفٹوئیر انجئینیرنگ سے تعلق ہے میرا۔ مذہب کے فہم کو بڑھانے کے لئے قرآن کا مطالعہ کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ اسلام کے مختلف اہل علم کی رائے اور فہم کو پڑھ اور سن کر اپنا علم بڑھانے کی کوشش کرتا ہوں ۔ مذہب میں تقلیدی رویے کی شدید مذمت کرتا ہوں، اور عقل کے استعمال کو فروغ دیتا ہوں جیسا کہ قرآن کا تقاضہ ہے، اور کسی بھی فرقے سے تعلق نہی رکھتا، صرف مسلمان کہلانا پسند کرتا ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply