• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(پچاسویں قسط،حصّہ دوم)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(پچاسویں قسط،حصّہ دوم)۔۔گوتم حیات

تو گزشتہ قسط میں  مَیں نے اپنے قارئین کو بتایا تھا کہ ان سوالوں کا تعلق صائمہ کی ریسرچ سے بالکل بھی نہیں تھا، واقعی میں ایسا ہی تھا۔۔۔
یہ بہت مشکل ہوتا ہے کسی ادیب سے روبرو ان کی ذاتی زندگی پر گفتگو کرنا اور پھر میڈم کا معاملہ تو اس لیے بھی الگ تھا کہ وہ اپنی ذاتی زندگی پر عموماً گفتگو سے پرہیز ہی کیا کرتی تھیں۔ کیونکہ تھیسز ریسرچ کے سلسلے میں شروع کی ملاقاتوں کے دوران صائمہ نے یہ بات نوٹ کی تھی کہ اُن تلخ باتوں کو دہرانا یا اس سلسلے میں ان سے کچھ پوچھنا بےمعنی سا تھا۔
صائمہ عجیب کشمکش کا شکار تھی۔ وہ اکثر ہمیں کہا کرتی تھی کہ
“میڈم بتاتی تو کچھ نہیں کیونکہ اس بارے میں ابھی تک میری ہمت نہیں ہوئی کہ ان سے کچھ پوچھوں، لیکن میں چاہتی ہوں کہ میڈم اس بارے میں تفصیلی طور پر کچھ لکھیں، اپنی یادداشتوں پر مبنی کوئی مضمون یا اپنی خودنوشت”

“خود نوشت” کے خیال سے میں اور صدف تھوڑا خوش ہو جاتے اور صائمہ سے کہتے کہ۔۔
“ہاں اگر وہ اپنی خودنوشت لکھ دیں تو کتنا آسان ہو جائے گا ہم سب کے لیے، کیونکہ ہمیں اس بات کا سو فیصد یقین ہے کہ میڈم نے اب تک جو بھی لکھا کسی بھی قسم کی مصلحت پسندی سے دور ہو کر لکھا اور اگر وہ اپنی خودنوشت بھی لکھیں گی تو اس میں کسی بھی قسم کا مبالغہ نہیں ہو گا”

باتوں باتوں میں ہم لوگ اپنے تئیں میڈم کی خود نوشت کے تانے بانے بننے لگتے، اس کے ٹائیٹل کور پر میڈم کی کون سی تصویر لگنی چاہیے یہ بھی ہم تینوں خود سے طے کر لیتے۔ “خود نوشت” تو “میڈم” کو ہی لکھنی تھی لیکن تیاریاں ہم کر رہے تھے۔ لائبریری کی سیڑھیوں  پر بیٹھے بیٹھے، چائے کے “ڈسپوذیبل کپوں” کو ہاتھوں میں تھامے ہوئے ہم تینوں یک زبان ہو کر اکثر اس خواہش کا اظہار کرتے کہ۔۔
“کاش! کاش! میڈم جلد سے جلد اپنی خود نوشت لکھ دیں، اس سال ہی لکھ دیں تو کتنا اچھا ہو جائے گا”

یونیورسٹی میں ہم اکثر اس موضوع پر بحث کرتے کہ لکھنے والوں کی ذہنی سطح عام انسانوں سے بلند تر ہوتی ہے۔ ان کا مطالعہ، مشاہدہ اور تجربہ ہر لحاظ سے عام انسانوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے ہم ان سے یہ توقع بھی نہیں رکھ سکتے کہ ناسمجھی یا کم علمی کی وجہ سے انہوں نے یہ کام کیا۔ کیونکہ اس طرح کی باتیں ہم معاشرے کے عام سطحی قسم کے انسانوں سے تو وابستہ کر سکتے ہیں لیکن معاشرے کے عالم فاضل لوگوں سے یہ امید نہیں لگا سکتے کہ جس قلم کے زور پر وہ عوام کو بیدار کر رہے ہیں، ان کے شعور کو جھنجوڑ رہے ہیں دراصل وہ عملی طور پر خود ہی بیدار نہیں ہیں۔ ہمارے ملک کے ایک عظیم انقلابی شاعر نے غربت میں زندگی گزاری، کبھی بھی کسی حکومت کے آگے مصلحت پسندی سے کام نہیں لیا، ہمیشہ مزاحمت کی راہ پر گامزن رہے، معاشرے کے نادار اور کمزور طبقوں کے لیے وہ امید کا روشن چراغ تھے، لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو ان کی نجی زندگی پریشان کُن تھی، سات سے ذیادہ بچے تھے، یہاں کوئی مجھ سے یہ سوال بھی پوچھ سکتا ہے کہ سات بچوں کا کسی شاعر کی شاعری یا اس کی مزاحمت سے کیا تعلق۔۔۔؟ تو میں بتاتا چلوں کہ ہم کسی نادار شادی شدہ مزدور سے یہ توقع کر سکتے ہیں کہ وہ غربت کے باوجود ایک کے بعد ایک بچہ پیدا کیے جا رہا ہے یہ سوچے بغیر کہ اس کی پرورش کس طریقے سے ہو سکے گی، اس کے نزدیک تو یہ سب خدا وند کی دین ہے، وہ جتنی اولادوں سے اسے نوازے، اس کے لیے وہ کسی بھی قسم کی منصوبہ بندی کو خاطر میں نہیں لاتا، لیکن ہم کسی انقلابی شاعر سے یہ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ غربت کے سائے میں ایک کے بعد ایک نئی زندگی کو جنم دیتا چلا جائے۔۔۔ کیا یہ ناانصافی نہیں ان نئی زندگیوں کے ساتھ؟۔۔۔ آخر کو انہیں بہتر منصوبہ بندی کے تحت اس عذاب سے بچایا جاسکتا تھا، لیکن کیا کیا جائے کہ یہاں قول و فعل میں ایک ایسی خلیج حائل ہے جس کو کم کرنے کے بجائے بڑھایا جاتا ہے۔ اپنی خامیوں اور تضادات کو خوبیوں میں شمار کر کے ایسے لوگ کس قسم کے معاشرے کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔۔۔ ہمارے معاشرے میں اس طرح کے دوہرے رویے باآسانی دیکھے جا سکتے ہیں۔ مردانہ روایات کا پروردہ یہ سماج آج بھی صحیح معنوں میں وہ حقوق عورت کو دینے کے لیے تیار نہیں جو حقوق بحیثیت انسان اس کو فطرت نے دیے ہیں۔ جون کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا۔ انہوں نے اپنے آپ کو اس سماج میں مظلوم ثابت کرنے کے لیے کیا کیا حربے استعمال نہیں کیے۔ کسی حد تک وہ اس مقصد میں کامیاب بھی ہوئے کہ یہ معاشرہ پروپیگنڈے کو ہی حتمی سچ تصور کر لیتا ہے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے شیدائیوں نے جون کو ایک “متھ” بنا دیا۔ من گھڑت واقعات کو ان کی شخصیت سے جوڑ کر ان کو “پُوجا” جانے لگا۔ کچھ لوگوں نے تو یہ تک اُڑا دیا کہ وہ سنسکرت اور عبرانی زبانوں پر مکمل عبور رکھتے تھے، کسی نے کہا کہ بہت ظلم کیا اس سماج نے ایک معصوم شاعر کے ساتھ، کسی نے کہا کہ محبت کی ناکامی اسے لے ڈوبی، وہ آخری عمر تک وفا کرنا چاہتا تھا لیکن اس کے حصے میں ٹھوکریں آئیں، کسی نے کہا کہ وہ اس زمانے کا مسیحا تھا جس کو اس کے اپنوں نے صلیب پر لٹکا دیا اور تو اور کچھ لوگوں نے یہ فرمان بھی جاری کر دیا کہ جون صاحب “اسٹیفن ہاکنگ” کے ساتھ خط و کتابت بھی کرتے تھے۔ غرض جتنے منہ ، اتنی باتیں اور سب کی سب من گھڑت۔۔۔

اجمل نیازی کو ایک انٹرویو کے دوران زاہدہ حنا نے ان کے اس سوال پر کہ “جون ایلیا پچھلے دنوں لاہور آئے تھے، آپ کے لیے کہا کہ آپ ان سے خفا ہیں۔ اس سلسلے میں کیا کہیں گی؟؟؟ اس سوال پر زاہدہ حنا کا جواب تھا؛
“شفیع عقیل نے اگر مجھے “پاکستان” کے وہ شمارے نہ بھجوائے ہوتے جن میں جون ایلیا کا انٹرویو شائع ہوا ہے تو آپ کا یہ سوال مجھے حیران کر دیتا۔ مجھے نہیں معلوم کہ جون ایلیا نے اپنی گفتگو میں ناراضگی والا تاثر دینے کی کوشش کیوں کی ہے۔ شاید محض انٹرویو کو دلچسپ بنانے کی خاطر۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ اب ہمارے درمیان کوئی تعلق ہی نہیں تو کیسی ناراضگی اور کہاں کی ناراضگی۔”

اسی انٹرویو میں ایک اور سوال پر کہ لیکن اس بارے میں آپ کچھ تو کہیں۔۔۔ کراچی آیا تو اندازہ ہوا کہ آپ دونوں کے بارے میں بڑی سرگوشیاں ہیں؟۔۔ اس سوال پر زاہدہ حنا کا موقف تھا کہ
“ہم دونوں فلمی ستارے نہیں جن کے بارے میں سرخیاں لگیں یا سرگوشیاں ہوں۔ مجھے نہ اپنی ‘مظلومیت’ کی داد وصول کرنے کی خواہش ہے اور نہ اس علیحدگی کو ڈرامائی رنگ دے کر اپنی نام نہاد شہرت میں اضافے کی ضرورت محسوس کرتی ہوں۔ میری نظر میں یہ ایک افسوسناک رویہ ہے”۔

اجمل صاحب کے ایک اور سوال پر کہ جون اور آپ ساتھ ساتھ رہے جیسے یہ کوئی خاص واقعہ نہ تھا؟ آپ الگ الگ ہو گئے، کسی کو پتہ نہ چلا۔ یہ کیسا رشتہ تھا؟ جھگڑا کیا تھا؟ جون کے لیے کیا اچھا لگا تھا اور پھر کیا برا لگا؟ اس بارے میں میڈم کا کہنا تھا کہ۔۔
“ایک عورت اور ایک مرد کا ساتھ رہنا یا ساتھ رہتے رہتے جدا ہو جانا کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں۔ مہذب طریقہ یہی ہے کہ دو افراد ساتھ رہنے کے  بعد اگر جدا ہو جائیں تو اس کی تشہیر نہیں کرتے اور نہ اس بارے میں ذومعنی یا غلط بیان دیتے ہیں۔ میں اپنے اور جون ایلیا کے بارے میں کچھ کہنا اپنے اور ان کے خاندان کی حرمت اور اس رشتے کے وقار کے  منافی سمجھتی ہوں جو ہمارے تین بچوں کی وجہ سے ہمارے درمیان قائم ہے اور رہے گا۔ میرے خیال میں یہ نازک تعلق بہت احتیاط کا تقاضا کرتا ہے، لہٰذا اس بارے میں مزید گفتگو میرے لیے ممکن نہیں”۔

صائمہ چائے کے ساتھ بسکٹ نہیں کھاتی تھی، بچپن سے ہی اس کی یہ عادت پختہ تھی کہ وہ چائے بہت پیتی تھی اور چائے کے دوران کچھ اور نہیں کھاتی تھی۔
ایک دن یونیورسٹی میں جب ہم تینوں چائے کے ساتھ بسکٹ سے بھی لطف اندوز ہو رہے تھے تو صائمہ نے بتایا تھا۔
“مجھے کبھی بھی بسکٹ کھانا پسند نہیں تھے۔ لیکن جب میں اور صدف پہلی بار میڈم کے آفس گئے تو انہوں نے ہمیں چائے کے ساتھ کھانے کے لیے “زیرہ پلس” اور “میری بسکٹ” پیش کیے تھے۔ وہ بسکٹ دیکھ کر پہلے تو دل نہیں کیا کھانے کو، مگر پھر ہم باتیں کرتے ہی چلے گئے اور چائے کے ساتھ ساتھ وہ بسکٹ بھی ختم ہو گئے۔۔۔ وہ دن اور آج کا دن ہماری چائے اب بسکٹ کے بنا مکمل ہی نہیں ہوتی”۔

صائمہ کے ایم اے کا آخری سال ختم ہو چکا تھا، امتحان کے بعد رزلٹ بھی آگیا۔ وہ تمام مضامین میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی لیکن میڈم سے اس کا ملنا جلنا برقرار رہا۔
ایم اے کے بعد بھی ایسا لگتا تھا کہ صائمہ ابھی تک اپنے تھیسز کو مکمل کر رہی ہے۔ وہ ہر روز اپنے تھیسز کا مسودہ اٹھائے صبح گھر سے نکلتی اور شام کو گھر آتی۔

ان دنوں آنرز میں میرا تیسرا سال شروع ہو چکا تھا، وہ پابندی سے یونیورسٹی آتی رہی اور میڈم سے ملنے ان کے آفس یا گھر جاتی رہی۔ صائمہ کا پلان تھا کہ وہ میڈم کے بارے میں زیادہ سے زیادہ ریسرچ کرے اور اسی چیز کو مدنظر رکھ کر وہ اپنے تھیسز پر وقتاً فوقتاً نظرثانی کرتی رہی۔ اچھے نمبروں سے پاس ہونے کے باوجود وہ اپنے تھیسز سے مطمئن نہیں تھی۔ اس کا خیال تھا کہ
میڈم زاہدہ حنا جیسی قد آور علمی و ادبی شخصیت پر یہ تھیسز بہت معمولی سا ہے۔ اپنے تھیسز کو میڈم کے شایانِ شان بنانے کے لیے مزید ریسرچ اور مطالعہ درکار ہے۔ صائمہ کا یہ بھی پلان تھا کہ وہ اپنے تھیسز میں مزید چیزیں شامل کر کے اس کو کتابی شکل میں بھی شائع کروائے۔ اسی دوران صائمہ کو پاکستان  سٹڈی سینٹر میں ڈاکٹر جعفر کی سرپرستی میں “ریسرچر” کی جاب بھی مل گئی۔ اس جاب کی وجہ سے وہ بہت مطمئن تھی۔ کیونکہ اس ادارے سے تصنیف و تالیف کا کام بھی بھرپور طریقے سے جاری تھا اور صائمہ کا بھی یہی ارادہ تھا کہ وہ میڈم پر مزید ریسرچ کرنے کا کام یہیں سے سرانجام دے۔ صائمہ نے میڈم زاہدہ حنا کی مشاورت و رضامندی اور ڈاکٹر جعفر کی سرپرستی میں اُن مضامین اور کالمز کو ایک جگہ اکھٹا کرنا شروع کیا جس میں “امن” کو کسی نہ کسی طریقے سے موضوع بنایا گیا تھا۔ میڈم کے لاتعداد ایسے مضامین اور کالمز تھے جن میں انہوں نے کھل کر امن کے فروغ کی بات کی تھی اور اپنے پڑھنے والوں کو تاریخی، سماجی اور سیاسی طور پر جنگوں کے عذاب اور مصائب سے روشناس کروایا تھا۔ صائمہ نے میڈم کی لکھی ہوئی پچھلے بیس، پچیس سال کی تخلیقات میں سے امن کے حوالے سے تحریروں کو نہایت ہی دلجمعی اور عرق ریزی سے جمع کیا۔ مختلف فہرستوں کو بنانے کے بعد آخر کار کتاب کا حتمی مسودہ تیار ہوا اور یوں کراچی کے علمی و ادبی افق پر “امیدِ سحر کی بات سنو” کے عنوان سے میڈم کی ایک اہم تخلیق منظر عام پر آئی۔ یہ دوہزار گیارہ کی بات ہے، ان دنوں کراچی سمیت ملک بھر میں نہایت ہی جوش و خروش سے فیض احمد فیض کی صد سالہ تقریبات کا آغاز ہو چکا تھا۔ اس سلسلے کی ایک اہم کانفرنس “دلِ پُرخوں کا ہنر” کے عنوان سے کراچی میں بھی منعقد کی گئی جس میں ہندوستان سے بھی کچھ ادیبوں نے شرکت کی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس اہم کانفرس میں فیض احمد فیض پر لکھی گئی کچھ نئی کتابوں کی رونمائی بھی ہوئی تھی۔ میڈم کی کتاب چونکہ براہ راست طور پر فیض پر نہیں تھی لیکن فیض کا امن مشن جس سے ہم سب کی گہری وابستگی ہے وہ اس کتاب کا موضوع تھا۔ اس لیے میڈم زاہدہ حنا کی یہ کتاب “امیدِ سحر کی بات سنو” جس کا ٹائٹل فیض کی ہی ایک نظم سے مستعار لیا گیا تھا کو فیض صد سالہ تقریب کا حصہ بنایا گیا۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں میڈم نے فیض سے جڑی کچھ یادوں کو بھی رقم کیا تھا اس کے علاوہ فیض کے قلم سے لکھی گئی وہ آخری تحریر جو اتفاق سے میڈم کے ہی ایک افسانے کا انگریزی ترجمہ تھا، جس کو فیض نے اپنے رسالے “لوٹس” کے لیے منتخب کیا تھا۔ فیض کا وہ انگریزی ترجمہ بھی اس کتاب میں شامل کیا گیا۔
جاری ہے۔۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply