• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • حسن بن صباح”، تصنیف پروفیسر جواد المسقطی، ترجمہ وحواشی جون ایلیا

حسن بن صباح”، تصنیف پروفیسر جواد المسقطی، ترجمہ وحواشی جون ایلیا

آج 8 نومبر کو جون ایلیا کی سولہویں برسی پر ان کی ترجمہ کردہ اس نایاب کتاب کا PDF حاضر ہے.

https://drive.google.com/file/d/1nnl3UfqO5dC4mI2lWShf_54GFlBIE5ER/view

Advertisements
julia rana solicitors london

جنابِ حسن بن صباح کی ممتاز انقلابی شخصیت اور مبارزے سے متعلق اس کتاب کی عرصے سے تلاش تھی جو بالآخر ہمارے پیارے نوجوان ترقی پسند شاعر دوست کامریڈ علی احمد جان نے فراہم کی اور یوں اس کا پی ڈی ایف بنانا اور دوستوں کو مہیا کرنا ممکن ہو سکا.
جنابِ حسن بن صباح مزدک اور مانی جیسے جلیل القدر انقلابی مساعی پسند مبارزین اور صاحبانِ دانش وبینش کی سرزمین پر جنم لینے والی ایک ایسی عبقری شخصیت ہے جس کے گرد اگر اس کے چاہنے والوں نے عقائد اور اس کی فقیرانہ اور درویشانہ زندگی کی بنیاد پر محض تقدس کا ہالہ قائم کرنا کافی جانا تو اُس عہد کے ظالم، فاسق، نااہل اور عوام دشمن مطلق العنان حکمرانوں، ان کے درباری مورخین سے لے کر ہر حیلہ ء پرویزی کے لیے مذہب سے جواز تراشنے والے علمائے سو تک، ہلاکو خان کے درباری، کفش بردار مورخ عطا ملک جوینی سے لے کر قبلائی خان کے خادم ونمک خوار چنگیز وہلاکو کے دروغ گو مداح مارکو پولو سےوان ہامر تک نے اتہامات پر مبنی قصہ گویوں اور عبدالحلیم شرر نے اپنے ناول “فردوسِ بریں” کے ذریعےکذب وافتراح کے، دروغ گوئی اور اتہامات کے وہ طومار باندھے جس کے ذریعے جنابِ حسن بن صباح جیسے نابغہ روزگار انقلابی مبارز، دینیات، فلکیات، علمِ ہندسہ، منطق اور ریاضی کے باکمال عالم اور صاحبِ فکروعمل کی شخصیت پر وہ گرد بکھیر دی گئی جس میں اس کا اصل انقلابی جوہر اور کردار کہیں گم کر دیا گیا.
جنابِ حسن بن صباح کے متعلق اس کے مخالف حکمران طبقات کی تائید وایما پرتاریخ اور ادب کے نام پر بُنے گئے یہی افسانے “دانیانِ مشرق ومغرب” کی “تحقیق” کا مرکز ومنبع ٹھہرے.
آج کوئی جنابِ حسن بن صباح کو موجودہ انسان کش خودکش بمبار کا باوا آدم اوراس کے جانثار انقلابی فدائیوں کی ظالموں اور لٹیروں کے خلاف دفاعی کارروائیوں کو “حشیش اور الموت میں قائم خود ساختہ جنت اور حوروں” کا شاخسانہ قرار دیتا ہے. لیکن جنابِ حسن بن صباح کا سچ یہ نہیں.
حقیقت یہ ہے کہ جنابِ حسن بن صباح مسلم اسماعیلی عقائد میں یقین رکھتے تھے اور انھوں نے مخالفین کے جبر کا شکار اسماعیلیوں کے دفاع، فلاح وبہبود اور نظریات کے پرچار کے لیے مساعی کی لیکن انھیں محض ایک مذہبی شخصیت قرار دینا ان کے ساتھ زیادتی ہے.
اس مذہبی حوالے کے سوا وطن پرستی، عرب اور ترک قابضین اور تجاوز گروں کے خلاف اپنے وطن اور لوگوں کے دفاع کے علاوہ گیارہویں اور بارہویں صدی کی اس عظیم المرتبت شخصیت اور دانائے روزگار کا کمال قلعہ الموت اور اس کے اطراف میں ایک ایسے مساوات پر مبنی سماج کا قیام تھا جس میں زندہ رہنے کے لیے خود جنابِ حسن بن صباح کی زوجہ اور بیٹی کو زندہ رہنے کے لیے اون کاتنے کی مزدوری کرنا پڑتی تھی، اس نے ایک ایسے مبنی برانصاف معاشرے کی بنیاد رکھی جس میں خود اس کا بیٹا قتل کا جرم ثابت ہونے پر موت کی سزا پاتا ہے.اور اس کا اعتراف ان کا جینی جیسا مخالف بھی کرتا ہے.
مخالفین کے گھیرے میں رہنے والی قلعہ الموت کی جس انقلابی ریاست کی اس نے بنیاد ڈالی وہ 1090 عیسوی سے 1256عیسوی تک 166برس ناقابلِ تسخیر رہی تاوقتیکہ کہ ہلاکو خان نے اسے تاخت وتاراج کر ڈالا، اس کے ساتھ ہی اس کا وہ علمی ذخیرہ بھی برباد ہوا جو انسانیت کا گراں مایہ اثاثہ تھا. اس قلعے سے کبھی کوئی لشکر عام لوگوں کو لوٹنے، قبضہ کرنےاور ان کے قتل عام کے لیے روانہ نہیں ہوا، بلکہ وہاں تو سرے سے لشکر اور لشکر کشی کا تصور ہی ناپید تھا. اس کے بدترین مخالف بھی اس کے کسی فدائی کی کسی عوام دشمن کارروائی کی نشاندہی نہیں کر سکے ہیں جس میں کسی بے گناہ اور عام فرد کو نشانہ بنایا گیا ہو.اور نا ہی اس “جنت” کے الموت میں کسی باقیات کی نشاندہی کی جا سکی ہے جسے آج تک “مطلق سچائی” بنا کر پیش کیا جاتا ہے.
جناب ِ حسن بن صباح کی “جنت” دراصل اس دنیا کوظلم وجبر، استحصال اور ناانصافی سے پاک جنت بنانے کا وہ خواب تھا جو ہر دور میں ترقی پسند انسانیت نے دیکھا، اس کے لیے جدوجہد کی اور خودجس کی اس نےقلعہ الموت اور جوانب میں بنیاد رکھی.
اساسین کے مشرقی ومغربی افسانوں سے قطع نظر شیخ الجبل کے نام سے معروف جنابِ حسن بن صباح ایک زبردست منتظم تھے جنھوں نے اس زمانے میں فولادی ڈسپلن کی حامل تنظیم قائم کی. وہ داعی ( نظریاتی علم سے لیس پرچارک، انقلابی کیڈر) اور فدائی (انقلابی مزاحمت کار) جیسے تصور کا خالق تھا. جسے نے ایک طویل عرصے تک زمین پر فساد پھیلانے والوں کی نیندیں حرام کیے رکھیں.
اپنے عصر کے بالکل برعکس اس نے نا تو بادشاہوں جیسے القابات و تکلفات اختیار کیے،نہ کوئی شاہی دربار قائم کیا نہ اپنے خاندان کے لیے موروثی بادشاہت چھوڑی. معروف اسماعیلی اسکالر جناب ڈاکٹر عزیز اللہ نجیب صاحب بھی اپنی کتاب “حسن صباح، حقیقت اور افسانے” میں اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ” وہ ایک دوسرے کو رفیق کے نام سے یاد کرتے تھے.” جی ہاں اس زمانے میں کامریڈ شپ پر مبنی تعلقات کو مثالی فروغ دینے والےجنابِ حسن بن صباح بشر دوستی اور مساوات کے نظری و عملی نمائندے تھے. جن پر مخالفین نے کفر والحاد، ساحری، اساسین اور نقلی جنت سے وحشت وخونریزی تک ہر الزام لگایا لیکن نہ اسے کبھی ثابت کیا جا سکا اور نہ کیا جا سکتا ہے.
ترقی پسند انسانیت نے مزدک اور مانی جیسی اسی خطے کی انقلابی شخصیات سے انصاف کیا ہے اور اس میں کیا دورائے کہ جنابِ حسن بن صباح بھی ایک دن تاریخ کے افق پر اپنے انقلابی جاہ وجلال کا سرخ ستارہ بن کر نمودار ہوں گے.
جناب ِ حسن بن صباح کی انقلابی روح کے حضور سرخ سلام.
( جنابِ حسن بن صباح کے متعلق تفصیلی تحریر پھر کبھی. مشتاق علی شان)

Facebook Comments

مشتاق علی شان
کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply