وہ ایک صلاحیت۔۔۔۔عظیم الرحمن عثمانی

اپنے ملک کو چھوڑ کر جب دیار غیر میں طالبعلم حصول علم کیلئے جمع ہوتے ہیں تو اکثر مل جل کر کوئی مناسب قیمت کمرہ یا فلیٹ یا مکان کرائے پر لے لیتے ہیں۔ پاکستان سے آئے اکثر لڑکے اپنے گھروں میں راجکمار کی زندگی گزار کر آئے ہوتے ہیں۔ کھانا پکانا یا گھر کی صفائی انہوں نے کبھی نہیں کی ہوتی مگر اب انگلینڈ جیسے ممالک میں جہاں ماسی وغیرہ کا رواج نہیں، وہاں یہ سب کام انہیں بادل نخواستہ خود ہی انجام دینے پڑتے ہیں۔ ایسی ہی زندگی ابتداء میں، میں نے بھی گزاری۔ کاموں کو دوست آپس میں تقسیم کرلیتے تھے۔ کسی کے ذمہ کھانا پکانا، کسی کے سودا سلف لانا، کسی کے جھاڑو دینا یا ویکیوم کرنا اور کسی کے ٹوائلٹ کو چمکانا شامل ہوتا۔ یہ ذمہ داریاں روزانہ کی بنیاد پر بدلی بھی جاتی ہیں۔ جیسے جو آج سودا سلف لایا وہ کل کھانا پکائے گا وغیرہ۔ کھانا پکانا اپنے آپ میں ایک مرحلہ ہوتا ہے۔ مجھے آج بھی وہ خوشی یاد ہے جب کئی بار کی ناکامی کے بعد میں نے بناء زردی توڑے انڈہ فرائی کرلیا تھا۔ شان اور لذیذہ کے مسالوں نے سب ہی کو کچھ نہ کچھ کھانا پکانا سیکھا دیا۔ ذرا ہاتھ بیٹھا تو سمجھ آگیا کہ پیاز کیسے سنہری ہوتی ہے؟، دہی پھینٹ کر ڈالنا کیوں ضروری ہے؟، کب دم دینا ہے؟ کب چمچہ چلانا ہے؟، کون سا گوشت کس سالن کیلئے اور کون سا چاول کس ڈش کیلئے زیادہ موزوں ہے؟، تازہ ٹماٹر ڈبے سے کیونکر بہتر ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔
.
ایک روز ہمارے ایک دوست کی کھانا پکانے کی باری آئی۔ اس نے بریانی بنائی جو کافی اچھی بنی۔ چنانچہ بڑی تعریف ہوئی۔ ہمارے اس دوست پر بھی یہ منکشف ہوا کہ انہیں کھانا پکانے میں لطف آتا ہے۔ لہذا وہ دھیان سے اپنی کوکنگ کو مزید بہتر بنانے لگا۔ کبھی پاکستان میں اپنے گھر والو سے پوچھ کر، کبھی کسی شیف کو سن کر اور کبھی تجربات کرکر کے اس کے کھانے بہتر سے بہتر ہونے لگے. دوستوں کو انتظار رہتا کہ کس دن وہ کھانا بنائے گا؟ خود میں اسے یہی کہتا کہ بھئی تمہارا پکایا کھا کر پیٹ بھر بھی جائے تو نیت نہیں بھرتی. دوسرے گھروں میں مقیم دوست بھی اس کا کھانا تناول کرنے آنے لگے. وہ اب ڈبے کی بجائے اپنے مسالے استعمال کرتا اور وہ وہ لوازمات بھی شامل کرتا جو کوئی روایتی ماہر شیف ہی کرسکتا تھا. اب لڑکے اسے آفر کرتے کہ پیسے لے لو مگر کھانا تم ہی پکاؤ. لوگ آفس میں کھانا سپلائی کرنے کیلئے رابطہ کرنے لگے. بات یہاں تک پہنچی کہ شادی و دیگر تقریبات کا کھانا بھی اس نے معاوضہ لے کر بنایا. گو اسکی پروفیشنل نوکری مختلف تھی اور کھانا پکانا فقط اسکا شوق یا سائیڈ انکم بنا رہا. مذاق ہی مذاق میں یوں لگتا ہے کہ ہمارے اس دوست نے اپنے اندر چھپا ایک آرٹسٹ ڈھونڈھ لیا تھا. یہ آرٹسٹ کوئی مصور، شاعر، موسیقار یا اداکار نہیں تھا بلکہ ایک شیف تھا. جو کھانا پکانے کو ایک فن ایک ہنر کے طور پر اپناتا اور پیش کرتا تھا.
.
دوستوں ہم سب میں بھی کوئی نہ کوئی ایک ہنر ایسا ضرور پوشیدہ ہوتا ہے، جو ہم سے بہتر ہمارے حلقہ احباب میں کوئی نہیں کرسکتا. مگر افسوس کہ ہم میں سے اکثر اس صلاحیت کو اپنے اندر ڈھونڈھ ہی نہیں پاتے. یا پھر شائد ہم خود کو موقع ہی نہیں دیتے؟ ہم میں سے کتنے ہیں؟ جنہوں نے کھانا پکانے کی کئی بار کوشش کی ہو؟ مصوری کو بطور مشغلہ اپنا کر دیکھا ہو؟ شعر کہے ہوں؟ فن خطابت میں اتر کر دیکھا ہو؟ جمناسٹک کراٹے یا تیراکی جیسے مشاغل میں جان کھپائی ہو؟ جب ہم خود کو مختلف مواقع ہی نہیں دیں گے؟ خود کو کھوجیں گے ہی نہیں؟ تو وہ ایک صلاحیت کیسے ڈھونڈھ پائیں گے جو ہمیں انفرادیت، مسرت، مقصدیت اور کامرانی عطا کرتی ہو؟ اس فیس بک کی ہی مثال لیجیئے. کتنے ہی مقبول و معروف لکھاری آج ایسے موجود ہیں، جنہیں سوشل میڈیا پر آنے سے قبل اس حقیقت کا ادراک تھا ہی نہیں کہ وہ بھی اچھا لکھ سکتے ہیں. کوئی انجینئر، کوئی ڈاکٹر، کوئی وکیل اور کوئی بیروزگار تھا، جسے قارئین کی توصیف سے یہ معلوم ہوا کہ وہ عام لوگوں سے بہت بہتر لکھ سکتا ہے. انہیں اپنی اس ایک صلاحیت کا علم ہوگیا جو ان کے وجود کے نہاں خانوں میں مدفون تھی. عزیزان من ! خود کو موقع دیں اور متفرق مشاغل و مصروفیات میں خود کو کھوجیں. ایسا تو نہیں کہ آپ میں بھی کوئی غالب، کوئی پکاسو، کوئی سقراط، کوئی نیوٹن، کوئی شیکسپیئر چھپا بیٹھا ہو؟ اور آپ خود ہی اس سے بے خبر ہوں؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply