پکائیں کیا اور کھائیں کیا/شہزاد ملک

پیٹ تو روز ازل سے انسان کے ساتھ لگا ہے۔ ابتدا میں انسان کو جب بھوک لگتی تھی تو وہ درختوں کے پتے پھل اور بہت سی ایسی چیزوں سے پیٹ بھرتا تھا، آج جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پھر انسان نے آگ دریافت کرلی تو شکار کئے ہوئے جانوروں کا گوشت اور زمین پر اگی سبزیوں کو پکا کر کھانا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ انسان کے ذائقے کی حس نے اسے بھوک مٹانے کے بہتر سے بہتر طریقے سکھا دئیے اور آج تو دنیا کے ہر خطے میں لذت کام و دہن کی تسکین کے لئے ہزاروں طرح کے پکوان بنائے جاتے ہیں۔ ان میں آئے دن نئی نئی اختراعات کی جاتی ہیں یہ تو بات ہے ان علاقوں کی جہاں ہر چیز دستیاب ہے اور ایک فون کال پر گھر بیٹھے بھی مل سکتی ہے اور جگہ جگہ بڑے بڑے ہوٹل اور ریسٹورنٹس کی خدمات بھی میسر ہیں۔

کبھی کبھی ایسی جگہوں پر رہنا پڑ جاتا ہے جہاں چند مخصوص اشیا کے علاوہ کچھ نہیں ملتا اور انسان کی تنوع پسند طبیعت کی تسکین کے لئے سو طرح کے جتن کرنے پڑتے ہیں۔ جو چیزیں دستیاب ہوتی ہیں انہی کو ہیر پھیر کر اور ایک دوسرے کے ساتھ مکس اینڈ میچ کرکے کوئی نئی ڈش تخلیق کرنی پڑتی ہے۔

ہم صومالیہ گئے تو کچھ ایسا ہی معاملہ درپیش تھا، صومالی گوشت خور قوم ہے لوگ بکریاں گائیں اور اونٹ پالتے ہیں یہ ان کا ذریعۂ معاش بھی ہے اور ان کا گوشت ان کی خوراک ہے۔ غریب سے غریب صومالی بھی جانوروں کے بڑے گلے کا مالک ہوتا تھا حج کے موقع پر سعودی عرب کو جانور برآمد بھی کئے جاتے ہیں۔

صومالی لوگ گوشت کا ایک پارچہ لے کر اسے چھوٹا چھوٹا کاٹ کر پکاتے ہیں، اس میں لہسن، پیاز، ادرک، نمک، مرچ اور ٹماٹو کیچپ ڈالتے ہیں۔ سبزی کے نام پر حلوہ کدو کے چند ٹکڑے ڈال کر خوب گلا کر پکاتے ہیں اسے سوگو کہا جاتا ہے جسے ابلے چاولوں اور سپیگٹی پر ڈال کر کھاتے ہیں۔ ہوٹل میں کھانے پر یہ بہت مزیدار لگتا ہے گوشت کے ساتھ بننے والے کھانے پکانے میں تو کوئی مشکل نہ تھی کہ سب مصالحے بھی مارکیٹ میں موجود تھے اور چاول بھی ملتے تھے اس لئے بریانی پلاؤ اور گوشت کے ہر قسم کے سالن بنانے آسان تھے، البتہ اپنے ہاں کی طرح گوشت سبزی نہیں بن سکتی تھی کہ سبزی کے نام پر صرف آلو اور پمپکن ہی ملتے تھے۔

سبزی کھانے کو دل چاہتا تو بس تصور میں ہی کھائی جاسکتی تھی سبزیاں کاشت کرنے کا کوئی رواج نہ تھا۔ بھارتی لوگ اپنے گھروں میں دھنیا پودینہ کدو اور ترئی کی بیلیں لگا لیتے کھیتوں میں کچھ نہیں تھا۔ اگلے برس پاکستان چھٹی پر آئے تو جاتے ہوئے ملک صاحب کچھ سبزیوں کے بیج لے گئے اور زمینداروں کو کاشت کرنے کی تربیت کے ساتھ بیج بھی دیے یہ تجربہ بڑے چھوٹے پیمانے پر کیا گیا تھا کیونکہ ذیادہ بیج لے جانا ممکن نہ تھا۔ چند مہینے بعد کسانوں نے اپنی تھوڑی تھوڑی پیداوار سبزی منڈی میں رکھنا شروع کردی ہندوؤں میں بات پھیل گئی کہ منڈی میں بھنڈیاں پالک کریلے اور توریاں مل رہی ہیں پھر تو ہر صبح ہندو خواتین منڈی جاتیں اور جتنی سبزی نظر آتی لے جاتیں۔

ہمارے ہاتھ کچھ نہ آتا ایک دن ہم بھی ذرا جلدی منڈی پہنچ گئے لیکن دو دو چار چار کرکے کچھ دکانوں سے بھنڈیاں حاصل ہوئیں ہم گھر لے تو آئے مگر اب سوچ رہے تھے کہ ان کا کریں کیا جو دو پلیٹ سالن بن جائے پھر ایک ترکیب لڑائی کچھ آلو باریک کاٹ کر فرائی کئے بھنڈیوں کو چٹ پٹا مصالحے دار بنا کر تلے ہوئے آلو ان میں شامل کرکے تھوڑا دم لگایا پھر دھنیا ڈال کر اتار لیا گذارے لائق مزے دار سالن تیار ہوگیا جو خالی بھنڈی سے ذیادہ پسند کیا گیا۔

کسانوں نے کھیتوں میں مولی اور گاجر بھی لگائی لیکن پہلے سال وہ بہت باریک اور چھوٹے سائز میں تھیں سبزی کم اور پتے ذیادہ ہوتے تھے ہمارے گھر میں لوبیا کی بیل پوری دیوار پر پھیلی ہوئی تھی اس کی نرم پھلیوں کو گوشت میں اور آلوؤں کے ساتھ تو بہت بار پکایا ایک دن مجھے سرسوں کا ساگ بہت یاد آرہا تھا مگر وہاں یہ نعمت کہاں؟ بہت دھیان ہٹایا مگر دل تو ساگ کے لئے مچلا ہی جارہا تھا آخر ایک ترکیب نکالی بازار سے باریک مولیاں پتوں سمیت لائے کچھ پتے پالک کے بھی مل گئے، مگر بات کچھ بنی نہیں تو لو بیے کی بیل سے تازہ نکلتی ہوئی نرم کونپلیں توڑیں۔

اب مولی کے پتوں پالک کے پتوں اور لوبیے کے پتوں کو کاٹ کر سب کو ملا کر ہری مرچوں اور پورے مصالحے کے ساتھ ہلکی آنچ پر خوب گلا کر پکایا ساگ کی طرح تھوڑا مکئی کا آٹا ڈال کر گھوٹا یہ بلکل کریم کی طرح بن گیا اوپر سے دیسی گھی کا تڑکہ لگا تو یہ نئے نمونے کا عجیب و غریب ساگ تیار ہوگیا جو ذائقے میں بڑا لذیذ تھا اور خوب مزے لے کر کھایا گیا۔ جب لوبیے کی پھلیوں میں موٹے موٹے دانے پڑ گئے تو کئی بار ان دانوں کو پیس کر ان میں پیاز ہرا دھنیا مصالحے اور ڈبل روٹی کا نرم چورا ڈال کر آلو کے کٹلس کی طرح انڈے کی کوٹنگ میں فرائی کرکے بہت مزے کے کباب بنائے غرض کہ اس لوبیے کی بیل کا میں نے اس کی ہر سٹیج پر فائدہ اٹھایا۔

پپیتہ وہاں بہت پیدا ہوتا تھا ذائقے میں بہت مزیدار اور خوبصورت سرخ رنگ کا تھا۔ بچے ہر روز کھا کھا کر تنگ آگئے تو ایک دن میں نے کچھ پپیتے کاٹ کر انہیں کانٹے سے اچھی طرح کچل کر پیسٹ کی شکل بنا لی اس میں تھوڑی چینی اور کافی سارا پاؤڈر ملک ڈال کر مکس کیا اور ٹھنڈا ہونے کے لئے رکھ دیا۔ بے حد مزے دار سویٹ ڈش بن گئی پھر تو روز فرمائش ہوتی کہ یہ میٹھا بنائیں چونکہ یہ بہت آسان تھا تو مجھے اس کے بنانے میں ذرا بھی سستی نہیں ہوتی تھی۔

بازار میں گاجریں کوئی نہیں خریدتا تھا کیونکہ انگلی برابر سائز کی گاجروں کا استعمال کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا لیکن جب دل گاجر کا حلوہ کھانے کو چاہے تو کیا کیا جائے ملک صاحب دو دن کے ٹور پر فیلڈ میں گئے تو میرے پاس کرنے کو کوئی کام نہ تھا ملازمہ کو بھیج کر بازار سے کافی ساری گاجریں منگوائیں، انہیں صاف کرکے اس کے ساتھ مل کر باریک کاٹ لیا کدوکش کرنے کے قابل تو تھیں نہیں انہیں پانی میں اچھی طرح گلا کر پاؤڈر ملک اور چینی ڈال کر دیسی گھی میں بھون لیا بادام الائچی اور کشمش کی کمی نہ تھی بعد میں ابلے انڈے کاٹ کر گارنش کیا ایک بڑا ڈونگا بھر کر حلوہ بن گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بچے اس وقت ہمارے ساتھ نہیں تھے یہ حلوہ کئی دن تک چلتا رہا اسی بے سروسامانی کی حالت میں بڑی بڑی دعوتیں بھگتائیں ان میں ایسی عجیب و غریب ڈشیں ایجاد کرکے بنائیں کہ اب سوچ کر حیرت ہوتی ہے مہمانوں کو بہت پسند آتیں خواتین ریسپی پوچھتیں تو سن کر خوب ہنستیں کبھی وہ تجربات بھی شئیر کروں گی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply