چندریان تھری تے پاکستان/محمد وقاص رشید

امریکہ ، کینیڈا ، انگلینڈ کے خلائی تحقیق کے اداروں نے مل کر 30سال محنت کی اور جیمز ویب نامی ایک جدید ترین ٹیلی سکوپ کو خلا میں بھیجا۔ اس مشن سے دنیا میں خلائی تحقیق سے متعلق ایک انقلاب متوقع ہے۔ کسے خبر کہ یہی دوربین مریخ پر انسانی حیات کی بنیاد ثابت ہو۔ بحرحال انسانی حیات وقت سے عبارت ہے اور وقت میں پیچھے کی طرف کا سفر بذاتِ خود ایک آگے کی منزل ہے۔

ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے چندریان-3 کے ذریعے چاند پر قدم رکھ دیا۔ پوری پاکستانی قوم جو نفسیاتی دباؤ اور ایک طرح کا احساسِ کمتری اس خبر سے محسوس کر رہی تھی ایک مردِ مجاہد اور غزوہِ ہند کے سپاہ سالارِ اعظم  جناب مدظلہ قبلہ زید حامد نے اسکا کیا خوب ازالہ کیا کہ چندریان تھری کو ایک ویڈیو گیم قرار دے دیا۔ نعرہِ۔۔۔۔۔۔

مجھے بھی یہی لگتا ہے کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ حقیقت میں ایسا ہو۔ اسکی وجہ راقم الحروف جب چھٹی ساتویں جماعت کا طالبعلم تھا تو اس وقت جماعت اسلامی کی ایک ذیلی تنظیم “بزمِ پیغام” کا “سر نیم گرم ” رکن تھا۔ ایک کشمیر ڈے پر ہم ملکوال کے مین بازار چوک میں “کرش۔ انڈیا” گیت کے ذریعے بھارت کو کرش کر چکے۔ مجھے یاد ہے کہ وہاں ایک شعلہ بیاں و “چندہ ٹھگاں” مقرر نے برصغیر پاک و ہند میں وقت کے ایک ولی کی پیشین گوئی دہرائی تھی کہ تقسیمِ ہند کے پچاس سال مکمل ہونے سے پہلے بھارت ٹوٹ جائے گا اور (ہماری طرف اشارہ کر کے)  غزوہِ ہند میں ان نوجوانوں کے جزبوں کی وجہ سے۔ ہم کافی دنوں تک سکول میں مرشدی زید حامد کی طرح خود کو غزوہِ ہند کے ہراول دستے میں شمار کرتے رہے ایک دن جب ہراول دستے سے تھوڑا سا آگے نکلنے پر پی ٹی صاحب نے کان پکڑا کر ہمیں بھارتی فوجی سمجھ کر اپنا جہاد کیا تو ہمیں افاقہ ہوا۔

بحرحال زید حامد صاحب کا ساتھ دینے کے لیے مفتی منیب الرحمان صاحب کو بھی سامنے آنا چاہیے اور یہ اعلان لازمی کرنا چاہیے کہ یہ رویتِ ہلال کمیٹی کے خلاف ہندوستان کی سازش ہے کہ جب مفتی صاحب چاند رات کو اپنی فواد چوہدری صاحب کو دیکھنے والی دوربین لگا کر بیٹھے ہوں تو چندریان تھری راستے میں آ جائے اور چاند نظر نہ آئے اور مسلمانوں کو ایک روزہ مزید رکھنا پڑے۔ یا پھر یہ کہ ہندوستان نے چندریان تھری چاند پر اس لیے بھیجی ہے کہ وہ مفتی پوپلزئی کا ساتھ دے اور اتحاد بین المسلمین کو نقصان پہنچائے جو کہ پہلے ہی موجود نہیں۔

پنجاب سے خصوصی طور پر پانی کا کیمیائی فارمولا بتانے کراچی جانے والے اور انجینئر مرزا صاحب کے متعلق بھرپور “خوش گفتاری” کا مظاہرہ کرنے والے جنکے سامنے سپیکر بھی کان بند کر لیتا ہے اتنا زور سے چلاتے ہیں۔ انہیں بھی چاہیے کہ اپنے تازہ ترین بیان زمین ساکن ہے کی وکالت میں مزید سامنے آئیں اور بتائیں کہ پاکستان میں ہر روز کسی نہ کسی جگہ چاند گاڑی کو حادثہ پیش آتا ہے اب اگر زمین متحرک ہوتی تو چندریان تھری سے ٹکرا نہ جاتی ، سنڑاؤ۔۔۔او بولو تے سہی ناں۔

یہ ساحل عدیم اور مصباحی صاحب کے لیے بھی بہترین موقع ہے کہ کیونکہ دونوں بہت زیادہ اوور ایکٹنگ کے ذریعے مسلمان نوجوانوں کو کشمیر و فلسطین جہاد کے لیے مائل کرتے رہتے ہیں۔ ساحل صاحب کے لیے تو اس سے نادر موقع ہے ہی کوئی نہیں کہ نادر صاحب والی پاڈکاسٹ میں جو انہوں نے دجال کے متعلق عظیم افکارِ عالیہ کا اظہار کیا اور ناہنجار لوگ میمز بنانے لگے۔ انہیں چاہیے کہ اسے سچ کر دکھائیں۔ جیسا کہ انہوں نے فرمایا کہ دجال زمین سے آسمان تک “یو یو” کی طرح ٹھپے کھا رہا ہے۔ اب حکمتِ عملی یہ ہو کہ زید حامد صاحب اور ساحل عدیم صاحب اپنے اسی گیٹ اپ کو تھوڑا اور میک اپ کرتے ہوئے دجال سے کہیں کہ ہم خلائی مخلوق ہیں اور ہم تمہارے ساتھ واپسی پر خلا میں جانا چاہتے ہیں۔ دجال کو باتوں میں لگانے کے لیے یوتھ کلب والوں کی خدمات لی جا سکتی ہیں۔ ادھر دجال واپسی کا رخ کرے ادھر ساحل عدیم صاحب اور زید حامد جمپ لگا کر اس پر سوار ہوں اور یوں غزوہِ ہند کا آغاذ ہو جائے۔ جونہی دجال چاند کے پاس پہنچے اور کنڈیکٹر کہے چاند پور کے چندو اتر جائیں تو زید حامد صاحب اور ساحل عدیم صاحب بھی “پِھشکیاں” کر کے پتلی گلی سے ہو لیں۔ چندریان تھری کو وہ سٹارٹ کریں اور سیدھا پاکستان۔ یہی غزوہِ ہند کی پہلی فتح ہو گی انشاللہ۔

اس معاملے میں عالی مقام بپا جانی کو بھی پیچھے نہیں رہنے کا۔ کیونکہ انکے چینل سے بھی زمین کا ساکن ہونا بچوں کو پڑھایا جاتا ہے اس لیے وہ بھی آئیں اور بتائیں کہ بچو اب جب زمین ہے ہی ساکن اور چاند حرکت میں تو پیٹرول اور موبائل چارجنگ میں بڑھوتری کے دم کی طرح وہ چاند کی حرکت میں اضافے کے لیے دم بتائیں گے جس سے چندریان تھری کلٹی کر جائے گی۔ ساحل عدیم صاحب اور زید حامد صاحب کو چندریان تھری پر بیٹھنے کے لیے “مدنی تکیہ” بھی انہیں تحفے میں دینا چاہیے۔

اسی معاملے میں کلیدی کردار میرے پسندیدہ سیاستدانوں میں سے ایک جناب ندیم افضل چن بھی ادا کر سکتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ اپنے “مختارے” کو کال کریں اور اسے کہیں۔ او مختاریا ! فلانڑیں فلانڑیں دیا انڈیا آلے چوٹھ ماردے پئے نیں۔ انڈیا دی حکومت صحیح گل دسدی نئوں پئی۔ اوئے “چن” تے میں آں تے میرے اتے انڈیا آلے پیر رکھ تے ویکھنڑ میں لتاں نہ بھن دیاں۔ (مختاریا ، ہندوستان والے جھوٹ بولتے ہیں انکی حکومت صحیح بات نہیں بتا رہی اوئے چاند تو میں ہوں اور انکی جرات کہ تیرے ہوتے مجھ پروہ قدم رکھیں میں انکی ٹانگیں نہ تڑوادوں)۔

جماعت الدعوۃ کے حافظ سعید صاحب کو بھی اس غزوہِ ہند میں شامل ہونا چاہیے اور بھارتی سورماؤں کے ہاتھوں سے چاند کا قبضہ چھڑوانے کے لیے جہاد کا اعلان کر دینا چاہیے۔

اور پاکستان کی موٹیویشنل سپیکر انڈسٹری کے روحِ رواں جناب قاسم علی شاہ صاحب جو کہ خان حکومت کے آخر پہ اپنی فاؤنڈیشن سے استعفی دے کر نوجوانوں کو لیڈر کی تعریف بتانے نکلے تھے انہیں بھی اپنے مخصوص انداز میں لوگوں کو موٹیویٹ کرتے ہوئے یہ کہنا چاہیے کہ “اگر پنکھا چلتے چلتے تھکتا نہیں تو آپ کیوں تھکتے ہیں” ڈیل کارنیگی کی کتاب خیال کی طاقت پڑھیں اور آج سے چلنا شروع کردیں بس تھکنا نہیں آپ ایک دن براستہ کامونکی چاند پر ہونگے اور ایسی بات نہیں کہ میں یہ صرف زبانی کلامی کہہ رہا ہوں آپ کا بھائی وہاں سے ہو کے آیا ہے۔ آپ وہاں جائیں گے تو آپ قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کی ایک نشانی ملے گی۔ ابھی نہیں بتاؤں گا آپ کو وہاں پہنچ کر پتا چلے گا کہ شاہ صاحب ٹھیک کہتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تحریر شاید ایک بارپھر لمبی ہو گئی۔ موضوع ہی ایسا تھا۔ بحرحال قصہ مختصر پاکستان کے حکمران طبقہ میں تمام اشرافیہ کو مل کر ایک پریس کانفرنس کرنی چاہیے جس میں بجلی کے بل ہاتھوں میں لیے سینہ کوبی کرتے عوام کو یہ اعتماد دلانا چاہیے کہ بھارت اگر چاند پر چڑھ گیا ہے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہمارے ہاں ہم روزانہ اپنا کوئی چن چڑھا دیتے ہیں۔۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply