قائد اور ہم۔۔رفاقت کاظمی

پچیس دسمبر کی تاریخ تاریخوں میں ایک اہم حیثیت رکھتی ہے اس دن بہت ساری اہم شخصیت کا یوم ولادت ہے سب سے پہلے یسوع مسیح حضرت عیسی علیہ السلام کا یوم ولادت اسی تاریخ کو ہے اور پوری دنیا میں عیسائی مزہب کے ماننے والے کرسمس کے نام سے اس تہوار کو مزہبی جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں۔میری طرف حضرت عیسی کے ماننے والوں کو یوم پیدائش مبارک
اس کے علاوہ اسلام کے ایک عظیم مجاہد(قائد اعظم محمد علی جناح) کا یوم پیدائش بھی اسی تاریخ یعنی پچیس دسمبر کو ہے اور علاوہ ازیں انگنت لوگوں نے پچیس دسمبر کو اپنے جنم دن کی تاریخ بنا دی ہے وللہ علم کہ  سچ یہی ہے کہ نہیں، کیونکہ آج صبح جوں ہی موبائل ہاتھ میں اٹھایا تو فیسبک کا نوٹیفیکیشن اس چیز کی خبر دے رہا تھا کہ سو کے  نزدیک لوگوں کا ان دو عظیم شخصیات کے ساتھ جنم دن ہے۔

بہر حال میرا موضوع اسلام کے عظیم سپوت مرد مجاہد قائد اعظم کی عہد ساز شخصیت ہے اس عظیم موقع پر چند گزارشات ہیں جسے لے کر آپ کی خدمت میں حاضرہوا ہوں پڑھیے اور موازنہ کیجئے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔۔

آج ہم قائد اعظم کا یوم پیدائش منا رہے ہیں اس عظیم انسان کا یوم پیدائش جس نے کروڑوں انسانوں کو آزادی کی نعمت سے ہمکنار کیا۔اس یاد کو تازہ کرنے کے لیے رنگارنگ تقاریب اور پروگرام منعقد کیے جا رہے ہیں اور ہمیشہ کیے  جاتے  رہے ہیں اس دفعہ کرونا کا ماحول ہے سکول بند ہیں ورنہ چھوٹے بچے سکولوں کے اندر بڑھ چڑھ کے ایسے پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں اور اپنے عظیم قائد کا یوم ولادت جوش و خروش سے مناتے ہیں۔اور قومی و ملکی سطح پر بھی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ ہم قائد کا یوم پیدائش منا رہے ہیں لیکن اگر مجھے گستاخ نہ کہا جائے تو میں کہوں گا ہم یوم پیدائش نہیں منا رہے بلکہ اس دن کا منہ چڑا رہے ہیں وجہ یہ  ہے کہ قائد اعظم کے اصولوں سے غداری کر کے اپنا منہ کالا کر چکے ہیں ہم نے قائداعظم کی جانفشانی اور ان کی عظیم قربانی کے گلے پر خنجر رکھ دیا۔

ہم نے علامہ کے تصور پاکستان اور قائد کی مملکت خدادادکو اپنی خود غرضی کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ہم نےوہ اصول چھوڑدیے جن سے قوموں کو عروج اور بلندی ملتی ہے۔اقتدار کی رسہ کشی اور باری کلچر انا کی تسکین غرور کا جنون ہمیں منزل سے بہت دور لے گیا جس کے لئے یہ مملکت خدادادمعرض وجود میں آئی تھی۔ شہیدوں کی روحیں ہم سے سوال کرتی ہیں اسلام کا نظام حیات کہاں گیا اسلام حیات کا نظام تو دور کی بات ہم نے قوم کو مذہب کے نام پہ تقسیم در تقسیم کر کے رکھ دیا جس کے لیے قائد نے پاک سرزمین حاصل کی تھی رسول عربی کی سیادت کا تاج ہم نے گنوا دیا. جواب دیں جب قائد کے حاصل کوبرباد کر رہے ہیں ، امانت میں خیانت کر رہے ہیں پھر ہمیں یوم قائداعظم منانے کا کوئی حق نہیں . ہم کون ہیں جو اس مقدس ہستی کا نام لے رہے ہیں . ہم کیسے امین ہیں پوری امانت ہضم کرنے کے بعد بھی نہ ہمیں خدا کا خوف ہے اور نہ ہمیں خلق خدا سے شرم آتی ہے ہمیں چاہیے توبہ کریں اور سچے دل سے مومن بنیں مکروریا کے لبادے اتار کر صدق و صفا کے جامے زیب تن کریں پھر ہمیں قائد کا یوم ولادت منانے کا حق حاصل ہو گا۔

ہم کب تک نام نہاد تہوار مناتے رہیں گے ، جس ملک کو حاصل کرنے کے قائد اور انکے ساتھیوں نے جو دن رات کام کیے ہیں جو قربانیاں دے کہ اس ملک کو حاصل کیا ہے کیا وہ اس لیے حاصل کیا تھا کہ ہم اس کو بربادی کے دہانے پر لے جائیں۔ہم نے نام نہاد جمہوریت کے نام پر باریاں لگا کہ ملک کو لوٹنے میں کوئی کسر نہی چھوڑی۔رہی سہی کسر ہم نے مزہب لسانیت علاقے کے نام پہ قوم کو بانٹ کہ رکھ دیا۔کہیں پڑھا تھا قائد کے دور میں ایک قوم تھی جس کے لیے ملک بنایا۔لیکن بدقسمتی سے آج ہمارے پاس ملک تو ہے لیکن ہم قوم نہی رہے اس لیے کہ ہم قائد کے فرمودات ان کے اقوال اور انکا بتایا ہوا راستہ بھول گئے جو قومیں اپنے اسلاف کا بتایا ہوا راستہ بھول جاتی ہیں وہ قومیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں اور معذرت سے ہم پہلے سے قوم ہی نہیں  ہیں تو بربادی کی فکر کسے ؟؟

مجھے پتہ ہے میرے الفاظ سخت ہیں۔لیکن جو قائد کی پیدائش کا ہم پچھلے پچھتر سال سے ڈھونگ رچاتے آۓ ہیں اور جاری ہے یہ انکی شخصیت اور یوم پیدائش کی توہین ہے۔سال بعد ایک تقریب کر کے سوشل میڈیا پہ چند سٹیٹس لگا کر ہم دنیا کو یہ بتا رہے ہیں کہ ہم نے قائد کا یوم پیدائش منا لیا ہے ہم نے اپنے عظیم راہنما کو یاد رکھنے کے لیے چند سٹیٹس لگا دیے ہیں اور یہ صرف انکی قربانیوں کا صلہ ہم اس طرح لوٹا رہے ہیں یہ ہم نے احسان کردیا یہ سواۓ ڈھونگ کے اور کچھ نہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

حقیقی معنوں میں قائد کا یوم ولادت ہماری تقریب اور سوشل میڈیائی سٹیٹس کا محتاج نہیں  بلکہ  ہمیں سب سے پہلے ایک قوم بن کر قائد کے اقوال و فرمودات پر عمل کرتے ہوۓ ملک کی ترقی و بڑھوتری کے لیے یکسوئی کے ساتھ کام کرنا ہوگا اور ہمارا یہ کام دنیا کو خود بتا دے گا کہ ہم دنیاۓ اسلام کے انیسویں صدی کے عظیم راہنما قائد اعظم محمد علی جناح کو  ماننے والی قوم ہیں۔ اور اس طرح جس مقصد کے لیے قائد نے یہ ملک حاصل کیا تھا وہ پورا ہو سکے جس دن ہم نے انکے فرمودات پہ عمل کرتے ہوۓ اس ملک کو ترقی کی راہ پہ گامزن کیا اس دن ہمیں حقیقی معنوں  میں یوم ولادت منانے کا حق حاصل ہوگا اور تب قائد کی روح بھی اپنے یوم ولادت کی تقاریب سے خوش ہو گی اور ہم بھی دنیا کے سامنے سرخروہونگے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply