کوئٹہ وال کا عشق۔۔مدثر اقبال عمیر

عشق کی باتیں عجیب ہیں ۔
فیروزخان ان نئے اداکاروں میں سے ہے جوحقیقتاً  دلوں پہ راج کر رہے ہیں ۔ “خانی” میں اس کی بےساختہ اداکاری نے نہ جانے کتنے دلوں کو اس کا گرویدہ بنا دیا ۔مجھے وہ اس لئے بھی بھاتا ہےکہ اس کا تعلق میرے عشق “کوئٹہ” سے ہے ۔کوئٹہ والوں کا عشق کاریز کے ٹھنڈے پانی کی مانند ہوتاہے ،قسمت والوں کو نصیب ہوتاہے۔

خیر بات کہاں سے کہاں نکل آئی ۔

بات فیروز خان کی چل رہی تھی اور عشق کی طرف جا نکلی۔لیکن عشق ہی نے تو یہ تحریر لکھنے پہ مجبور کیا ہے۔فیروز خان نےخانی کے بعد دو ڈرامےکیے ایک” رومیو ہیر” جو کامیابیاں سمیٹ کر ختم ہوااور اب” عشقیہ “جو کامیابیاں سمیٹ رہا ہے۔دونوں ڈراموں میں اس کا فن عروج پہ دکھائی دیا ۔عشقیہ نے تو ہمیں بھی یو ٹیوب پہ بٹھادیا اور پھر اب تک چلنے والی تمام اقساط دیکھنے کے بعد اس کا انٹرویو دیکھا۔

سچ پوچھیں تو اس انٹرویو کے بعد کچھ زیادہ ہی اچھا لگنے لگا۔ کوئٹہ والوں کی ایک خوبی ہے کہ ان کے مزاج میں سادگی کا رنگ تمام رنگوں سے بڑھ کر ہوتا ہے ۔ دل کی باتیں اپنے رنگ میں کرتے ہیں۔اور بتا دوں کوئٹہ وال کا عشق،ست رنگا عشق ہوتا ہے،عالم ِ ذات میں درویش بنا دینے والا عشق ۔ تو اس انٹرویو میں یہ کوئٹہ وال” عشقیہ” کی بات کرتے کرتے میزبان سے اپنے عشق کی بات لے کر بیٹھ گیا بقول اس کے کہ میں نے محبوب سے کہا مجھے بلا لے ۔ ملاقات کے سارے ظاہری اسباب بند،سارے وسیلے بند۔لیکن دل تھا کہ بضد ،کہ کوچہ محبوب کا دیدار ہوکر رہے گا ۔ اور محبوب نے دل کی سن لی اور میرا بلاوا آگیا۔مجھے ایک بڑے با اثر در سے امید تھی کہ میرا کام ہو جائے گا مگر وہاں سے بھی معذرت آگئی ۔محبوب کے ہاں جانا ناممکن لگنے لگا اور ناممکن تھا بھی ۔مگر آخری فلائٹ سے پہلے ایسا سبب بنا کہ میں “حج “پہ تھا۔ ایک آخری سرکاری ویزہ ناممکن کو میرے لئے ممکن بنا گیا ۔

آپ کو بھی عجیب لگ رہا ہوگا ۔۔مجھے بھی لگا ۔

پروگرام شوبز پر،میزبان شوبز کی ،سامعین شوبز کی باتیں سننے کے منتظر ،موضوع عشقیہ اور باتیں عشق کی ۔۔۔۔۔۔۔لیکن دل کی باتیں عجیب ہی ہوتی ہیں بلکہ یہ عشق ہی ظالم عجیب ہے ۔اسے منظر ،پس منظر سے کیا غرض ،اسے تو محبوب سے غرض ہوتی ہے۔محبوب کی باتوں سے غرض ہوتی ہے۔

بہرحال کچھ دیر بعد اس نے خود ہی موضوع تبدیل کر دیا کہ لوگ عشقیہ پہ باتیں سننے آئے ہیں ،عشق پہ باتیں پھر سہی ۔لیکن جتنے منٹ وہ بولا۔اس کے چہرے کے رنگ مجھے بہت بھائے ۔اس کے لہجے سے ٹپکتا اخلاص مجھے بہت خالص لگا۔اس نے بڑی سرمستی میں کہا کہ مجھے “حج “کی باتیں کرنا بہت اچھا لگتا ہے ۔اس پہ عشق کا اک خاص رنگ چڑھ رہا تھا ۔عشق کے ہزار رنگوں میں یہ رنگ بہت گاڑھا ہوتا ہے ۔جب لگ جائے ناں تو مٹانا چاہو بھی تو نہیں مٹتا۔

سچ بتاؤں تو اس سے آگے میں نے وہ پروگرام نہیں دیکھا۔عشقیہ کی چھٹی قسط دیکھ کر اندر کا جو مرحوم عاشق انگڑائی لے کر اٹھا تھا اسے  تھپکی  دے کر دوبارہ سُلا دیا۔دل میں اک کسک سی اٹھی ،اک خلش سی بیدار ہوئی  کہ تُو تو اسے ایک اداکار سمجھتا تھا، جن کے لئے کیمرے،لائٹس ،فین ہی سب کچھ ہیں ۔جن کی داڑھی سے لے کرڈوپٹہ تک سب سین کی ڈیمانڈکہلاتے ہیں ۔جن کے آنسو سے لے کر قہقہے تک سب مصنوعی،مگر اس کا رب تعالیٰ سے ایسا تعلق ،بلکہ اس سے رب تعالیٰ کا ایسا تعلق۔

اس کی آنکھوں میں تیرتی سچائی مجھے باور کروا رہی تھی کہ رب صرف داڑھی والوں کا نہیں ۔حامل عبا،عمامہ،تسبیح،تہجد یقیناً  اسے پیارے ہوں گے لیکن ٹائٹ جینز، تراشے  بال ،جھولتےلاکٹ والے بھی اس کے لئے غیر نہیں۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے محبت نہ کرتا ہو ،یا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انھیں اس سے عشق نہ ہو۔عشق جس سر میں بھی ہو مست کر ہی دیتا ہے ۔عشق جس رنگ میں بھی ہو رنگ لگا ہی دیتا ہے ۔عشق کا سبق جس زباں میں بھی پڑھا جائے ،سمجھ آہی جاتا ہے ۔اور عشق کے سبق کا سب سے بڑا اثر پتہ  ہے ،کیا ہوتا ہے ۔یہ سب سے محبت کرنا سکھا دیتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

کوئٹہ وال ہمیں عشق کا سبق پڑھا گیا ۔

Facebook Comments

Mudassir Iqbal Umair
بلوچستان کے ضلع جعفرآباد کے شہر اوستہ محمد میں بسلسلہ ملازمت مقیم ہوں۔تحریر اور صاحبان تحریر سے محبت ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply