• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • قلم کی نوک پہ رکھوں گی اس جہان کو میں /خواب سے حقیقت تک – سعدیہ سلیم بٹ /قسط3

قلم کی نوک پہ رکھوں گی اس جہان کو میں /خواب سے حقیقت تک – سعدیہ سلیم بٹ /قسط3

گریجویشن کی ابتدا تھی۔ کچھ دوستوں کی شادیاں طے ہوئیں ۔ کچھ اچھا لگا۔ کچھ عجیب لگا۔ اچھا کیوں لگا، یہ معلوم نہیں۔ شاید ناولوں میں جو پڑھ رکھا تھا، اس کا اثر تھا۔ عجیب اس لیئے لگا کہ ناولز کے برعکس رومینس کی نوبت ہی نہیں آئی۔ان کی سیدھا شادی ہو گئی۔ جب دلہے دیکھنے شروع کیے اور ان کی specifications معلوم ہونی شروع ہوئیں  تو پتہ لگا کسی کی تعلیم کم ہے، کسی میں رنگ و روپ کی کمی ہے، کسی کا خاندان طویل تر ہے، کسی کی کمائی اچھی نہیں۔ اور تو اور یہ بھی معلوم ہوا کہ لڑکیوں سے پوچھا بھی نہیں جاتا۔ بس ون فائن مارننگ پتہ لگتا ہے کہ لڑکے والے آ رہے ہیں اور ون فائن ایوننگ منگنی ہو جاتی ہے۔ ایک ایسا ذہن جو کہ لڑکے یا لڑکی میں کیلشیم یا آئرن تک کی کمی کا تصور نہیں کر سکتا جب “یہاں کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا” کا عملی مظاہرہ دیکھتا ہے تو سٹپٹا جاتا ہے۔

اسی دوران کچھ “قصوں” کے نتائج سامنے آئے۔ کہیں کوئی لڑکا اسٹینڈ لیتا دکھائی نہیں دیا۔ہر لڑکا نہایت تسلی سے محبوبہ کی شادی پر کرسیاں لگانے کی ذمے داری قبول کر کے اسے کسی اور کی دلہن بنا دینے پر صابر نظر آیا۔ اسی طرح کچھ قریبی لوگوں کی شادیوں کے نتائج بھی سامنے  آئے۔ میں نے پہلی قسط میں لکھا تھا ہم ان وقتوں کی اولادیں ہیں جو ماں باپ سے ڈرتی تھی۔ سو حالات کو دیکھتے تو تھے لیکن سوال کرنا فرض نہ سمجھتے تھے۔ لیکن ذہن سوچنے والا ہو تو وہ کسی اچھے ریاضی دان کی طرح الجھے سوالوں کی گتھیاں سلجھانے بیٹھ جاتا ہے۔

پہلی قسط کا لنک

ویسے تو عملی زندگی تب تک شروع نہیں ہوتی جب تک آپ ایک بار حالات کے مکمل رحم و کرم پر نہیں چھوڑے جاتے۔ لیکن میرے لیئے عملی زندگی کی انٹرن شپ افسانوی دنیا کے پرچارک ناولز اور حقیقت کے اس تضاد سے شروع ہو گئی تھی۔ تعمیر کا عمل ہمیشہ خاموش ہوتا ہے۔ تخریب میں شور بپا ہوتا ہے۔ مشاہدے نے شعور میں سوچ کا بیج بو دیا اور لاشعور اس کی آبیاری کرنے لگا۔ اور پھر ہر نیا مشاہدہ اس کے لیئے سورج کی کرن اور ہوا کا جھونکا ثابت ہوا۔
میں نے اب تک جو سیکھا، یہ کئی سال کی ریاضت ہے۔ میں بھی تخیل کو ذرا سی زحمت دیتی تو شاید ایک آدھ ناول لکھ مارتی۔ لیکن میں بچوں کو شداد کی اس جنت میں نہیں دھکیل سکتی۔ ہم اپنے بچوں کو اگر دو چیزوں کے لیئے نہیں تیار کرتے تو وہ شادی کے بعد اور موت کے بعد کی زندگی ہے۔ موت کا بیان ان کے حوالے جن کو اس پر بیان کرنا جچتا ہے۔ لیکن دوسرے کی ذمے داری ہم ماؤں پر ہے۔ ہماری گود پہلی تربیت گاہ ہے اور ہماری ہی گود سے مرد اور عورت نکلتے ہیں۔
ہمارا معاشرہ انتہاؤں میں ڈولتا ایک معاشرہ ہے اور اعتدال اس پر حرام ہو رہا ہے۔ ہم نے شرم کو یا تو چابک بنا دیا ہے یا پھر بالکل ہی اتار کے رکھ دی ہے۔ ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک سب کچھ جانتا ہے۔ اس لیئے ہم کسی سے سیکھ ہی نہیں سکتے۔ کیونکہ سیکھنے کا پہلا قدم اپنی کم علمی کا اعتراف ہے۔

سولہ سال ایک ایسی عمر ہے جس کے بعد بچوں اور بچیوں میں جذبات اپنے آپ کو ڈیفائن کرنے لگتے ہیں۔ اچھا لگنا، پسند کیا جانا، مسترد ہونے کا خوف، انجانے میں ہم ایک مقابلے کا حصہ بن گئے ہوتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جس وقت ماں باپ کو کھل کر سامنے آنا چاہیے اور ڈرائیونگ سیٹ پر خود بیٹھ جانا چاہیے۔ جب ماں باپ خود بات کریں گے تو انہیں معلوم ہو گا کیا بات کرنی ہے اور کہاں سے پلٹ جانا ہے۔ کون سا جملہ مکمل کرنا ہے اور کون سا ادھورا چھوڑ دینا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ ماں باپ اس ٹاپک کو شجر ممنوعہ بنا کے شرم کی آڑ دیکر چھوڑ دیتے ہیں۔ کچے ذہنوں کی ذہن سازی یا تو پرنٹ اور سوشل میڈیا کرتا ہے یا حالات زمانہ۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کوئی تو خیالوں کے قصر میں بند ہو کے کسی شہزادے کا انتظار کرنے لگتی ہے اور کوئی شادی کو جیل سمجھ کر اس سے متنفر ہو جاتا ہے۔

اگر میری بات سے کسی کو یہ لگا کہ ماں باپ کو تمام پردے اٹھا دینے چاہیئں  تو یہ غلط ہے۔ میں نے عرض کیا کہ ماں باپ کو ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لینی چاہیئے۔ ڈرائیونگ ایک مکمل فن ہے۔ ڈرائیور سڑک اور ٹریفک کے حساب سے آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھ کر گاڑی کی رفتار متعین کرتا ہے اور دیکھ بھال کے مناسب وقت پر بریک لگا دیتا ہے۔ ماں باپ کی ذمے داری ہے کہ بچوں کو زندگی کے پرچے کے لازمی سوال کے لیئے تیار کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوسری قسط کا لنک
ہمارے اٹھارہ سے اٹھائیس سال تک کے لڑکوں لڑکیوں سے شادی کی بابت دریافت کریں تو مکمل الگ الگ رویے  سامنے آتے ہیں۔ لڑکیوں میں، میرے تجربے کے مطابق، شادی سے پہلے شادی کو لیکر ذمے داری کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ شادی کا فنکشن، شادی کے کپڑے، ہنی مون، رومینس، آزادی، “حلال” ڈیٹ، لانگ ڈرائیو، کسی بائی پراڈکٹ کی طرح آٹو موڈ پر لگے بچے جو خودہی پیدا ہو کے خودہی  بڑے ہو جاتے ہیں اور جو صرف کیوٹ ہوتے ہیں، ایک ہینڈسم ویل سیٹلڈ رومینٹک شوہر اور وہ بھی ایسا جو ویسے تو مرکز نگاہ ہو لیکن خود وہ ان سے پہلے اور ان کے بعد کسی میں دلچسپی نہیں رکھے، بڑی گاڑی، اپنا گھر، یہ وہ تصورات ہیں جو بچیوں کے ذہن میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف لڑکوں کو یہ لگتا ہے بس شادی ہو جانی چاہیے، ہم مینیج کر لیں گے۔ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ اور یوں وہ توقعات جو کہ مبنی بر حقیقت تھی ہی نہیں، ایک حقیقی رشتے کو خراب کرنے کا اور فریقین کے لیئے ڈپریشن کا موجب بنتی ہیں۔

شادیوں کی ایک درجہ بندی محبت کی شادی اور ماں باپ کی مرضی سے کی گئی شادی کی بنیاد پر بھی ہو رہی۔ جو جوڑا مرضی سے شادی کرتا ہے، وہ چند ہفتوں بعد ہی پریشان نظر آتا ہے کہ محبت کہاں گئی۔ جو ماں باپ کی مرضی سے شادی کرتے ہیں، وہ ہر مشکل وقت میں ماں باپ پر تلوار سونت لیتے ہیں کہ آپ نے ہی کی تھی۔ اسی طرح کا روئیہ ماں باپ کی طرف سے نظر آتا ہے۔ بچے پسند کی شادی پر ضد کر بیٹھیں تو ماں باپ شادی کے بعد ہر مشکل مرحلے پر دہراتے ملتے ہیں کہ ہم نے تو روکا تھا، اب بھگتو۔ اور اگر ان کی مرضی سے ہوئی ہو تو اپنے بچے کا ساتھ دیتے ہوئے عدل کا ہر تقاضہا بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ سب رویے نامناسب ہیں۔ کہنے والوں نے ایک بار کہا تھا، ڈگری، ڈگری ہوتی ہے۔ چاہے اصلی ہو یا نقلی۔ اس بات میں کوئی وزن ہو یا نہیں، لیکن یاد رکھیں شادی، شادی ہوتی ہے۔ چاہے پسند کی ہو یا ناپسند کی یا چاہے پسند اولاد کی ہو یا ماں باپ کی۔ لیکن شادی ہوتی کیا ہے، اس کی تفصیل اگلی قسط میں۔

Facebook Comments

سعدیہ سلیم بٹ
کیہ جاناں میں کون او بلھیا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”قلم کی نوک پہ رکھوں گی اس جہان کو میں /خواب سے حقیقت تک – سعدیہ سلیم بٹ /قسط3

Leave a Reply