ہمیں کورونا نہیں ہو سکتا۔۔مظہر اقبال کھوکھر

زندگی پھر سے لوٹ آئی، رونقیں بحال ہو گئیں، روشنیاں جگمگا اُٹھیں، خوشیاں در آئیں، چہرے کھلکھلا اٹھے، زندگی نے موت کو شکست دے دی یہ سب حوصلے سے ہوا، ہمت سے ہوا، عزم اور یقین کے ساتھ ممکن ہوا ،چین کے صوبے ووہان کو 76 روز کے لاک ڈاؤن کے بعد مکمل طور پر کھول دیا گیا ،زندگی کی گاڑی ایک نئے عزم کے ساتھ چل پڑی ،بازاروں ،تفریح گاہوں ،شاہراؤں پر پھر سے انسانوں کا ہجوم ہے ،جہاں کچھ دن پہلے ویرانی تھی آج چہل پہل ہے ،چینیوں نے کورونا کو شکست دے کر ثابت کر دیا کہ کچھ بھی ناممکن نہیں۔

چند ماہ پہلے کی بات ہے جب دسمبر کے آخری دنوں میں چین کے شہر ووہان میں کورونا کا پہلا کیس سامنے آیا اور 12 جنوری کو کورونا کے نتیجے میں پہلی انسانی ہلاکت کے بعد اس وائرس کے پھیلاؤ کی خبریں سامنے آنا شروع ہوئیں، اور پھر یہ سلسلہ طول پکڑتا گیا 23 جنوری کو ووہان میں  مکمل لاک ڈاؤن کر دیا گیا، اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس وباء نے ہزاروں لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں اموات کا سلسلہ شروع ہو گیا، مگر اس وقت دنیا کے بہت سے ممالک نے اس وباء کو انتہائی غیر سنجیدگی سے لیا، یہاں تک کہ امریکی صدر ٹرمپ نے کورونا وائرس کو چینی وائرس قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم ہر طرح کی صورتحال سے نمٹنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں اور امریکہ میں چین سے صرف ایک مریض آیا ہے اور صورتحال مکمل کنٹرول میں ہے، اور آج حالت یہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ مریض امریکہ میں ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر ایک ہزار سے زائد اموات ہو رہی ہیں ،اور امریکی صدر بدحواسی میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے کہ اس نے کورونا کے خطرے سے بروقت آگاہ نہیں کیا۔

اسی طرح چین میں وباء کے پھوٹنے کے بعد اٹلی، ایران سمیت بہت سے ممالک نے چین سے دھڑا دھڑ اپنے لوگوں کو واپس بلا کر یہ سمجھ لیا کہ ہم نے اپنے شہری محفوظ کر لیے، مگر وہ یہ بات نظر انداز کر بیٹھے کہ شہری محفوظ کرتے کرتے انہوں نے اپنے شہر غیر محفوظ کر لیے، بلکہ اپنے ملک غیر محفوظ کر لیے ،اور پھر یہ وباء تیزی کے ساتھ پوری دنیا میں پھیل گئی ،اور آج کرہ ارض پر کوئی ملک ایسا نہیں جو اس موذی وباء سے محفوظ ہو۔ امریکہ، اٹلی سمیت بہت سے ممالک  کورونا کے ہاتھوں بے بس ہو چکے ہیں۔ سب چائنہ کی طرف دیکھ رہے ہیں، اس سے مدد مانگ رہے ہیں۔

آج جب پوری دنیا میں کورونا کی خوفناک صورتحال کو سامنے رکھیں تو وہ دن یاد آجاتے ہیں جب چین اکیلا اس وباء سے لڑ رہا تھا اور بہت سے ممالک اس کا مذاق اڑا رہے تھے ،اور بہت سے لوگ تو چین کو غیر مذہب قرار دے کر کہہ رہے تھے کیونکہ چینی حرام جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں ،حرام خوری کی وجہ سے اس وائرس کی زد میں ہیں، بعض نے اسے چینیوں پر خدا کا عذاب قرار دیا اور پھر اسی طرح جب ایران سے آنے والے زائرین کے نتیجے میں پاکستان میں کورونا سے متاثرہ لوگ سامنے آئے تو کچھ عاقبت نااندیش لوگوں نے اسے مخصوص مکتب ِ فکر سے جوڑنے کی کوشش کی ،بعد ازاں جب رائے ونڈ کے تبلیغی اجتماع کے بعد بہت سے لوگوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی تو کچھ اور لوگ بول اُٹھے۔

الغرض اسلام کی حقانیت سے نابلد لوگوں نے زمینی حقائق اور وباؤں کی حقیقت کو نظر انداز کر کے اپنا اپنا چورن بیچنا شروع کر دیا۔ یعنی پہلے یہ خدا کا عذاب تھا پھر یہ آزمائش بن گیا۔ حالانکہ تواریخ عالم اس بات کی چیخ چیخ کر گواہی دے رہی ہے کہ اس طرح کی وبائیں جب آتی ہیں تو وہ کسی ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، پارسی، یہودی، ملحد اور کسی بدھ مت کا لحاظ نہیں کرتیں اور نہ  ہی کسی شیعہ ، سنی ، وہابی ، دیوبندی ، بریلوی ، اہلحدیث ، کتھولک ، پروٹسٹنٹ، برہمن ، كهتری ، ویش ، شودر کے درمیان فرق کرتی ہیں۔ ڈوبنے والی کشتی میں جتنے بھی مذاہب کے لوگ شامل ہوں مگر بچے گا وہی جو تیرنا جانتا ہوگا اور حواس پر قابو پا کر پانی کی تند و تیز لہروں کا مقابلہ کرے گا۔

دین اسلام کو ایک مکمل ضابط حیات اس لیے تو کہا گیا ہے کہ اس میں زندگی کے ہر پہلو کے حوالے سے رہنمائی کی گئی ہے، آقا حضورﷺ نے 14 سو سال قبل فرمایا تھا کہ اس طرح کی کوئی وباء کسی شہر میں پھوٹ پڑے تو اس شہر میں موجود کوئی شخص اس شہر یا علاقے سے باہر نہ جائے اور نہ  ہی باہر سے کوئی شخص اس شہر یا علاقے میں داخل ہو، یعنی کہ مکمل لاک ڈاؤن کے ذریعے ایسی  وباء پر قابو پایا جاسکتا ہے اور پھر صفائی کو نصف ایمان قرار دے کر ہمیشہ صاف ستھرا اور پاکیزہ رہنے کی ہدایت کی گئی ہے اور آج جب پوری دنیا کے ڈاکٹر کورونا سے لڑنے کے لیے بار بار ہاتھ دھونے کو ضروری قرار دے رہے ہیں تو دین اسلام تو کہیں بہت پہلے ہمہ وقت باوضو رہنے کی تلقین کرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یقیناً  ہمیں کورونا نہیں ہوسکتا، ہم بھی کورونا کو شکست دے سکتے ہیں، ہم بھی موت کو مار سکتے ہیں، ہم بھی زندگی جی سکتے ہیں، مگر اس بنیاد پر کورونا کا مقابلہ نہیں کر سکتے کہ ہم کس مذہب یا کس مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، ہاں مگر اس بنیاد پر کورونا کا مقابلہ کر سکتے ہیں کہ ہم اسلام کی واضح تعلیمات کے مطابق خود کو زیادہ سے زیادہ گھروں تک محدود رکھیں، یہ نا صرف ہمارے لیے ضروری ہے بلکہ ان سب کی زندگیوں کے لیے بھی ضروری ہے جن سے ہم محبت کرتے ہیں، ہمیں کورونا کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت سے مکمل تعاون کرنا ہوگا، کیونکہ حکومت ہمارے تعاون کے بغیر اکیلی  اس وباء سے نہیں لڑ سکتی، ہمیں ہمت حوصلے اور بھرپور جذبے کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا ،ہر شخص کو ایک سپاہی کی طرح اس جنگ میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ یقیناً پوری قوم کے لیے یہ انتہائی مشکل کی گھڑی ہے، مگر یاد رکھنا ہوگا کہ پوری دنیا آج ایسے ہی حالات سے دوچار ہے ہمیں جیت کے عزم اور یقین کے ساتھ صورتحال کا مقابلہ کرنا ہوگا اور وہ دن دور نہیں جب یہ دن دور ہو جائیں گے ،ویرانیاں دور ہو جائیں گی وحشتیں باقی نہیں رہیں گی تنہائیاں دور ہو جائیں گی، رونقیں لوٹ آئیں گی ،خوشیوں کا بسیرا ہوگا ،چہرے کھل اٹھیں گے ،سب مل بیٹھیں گے ،ڈیرے آباد ہو جائیں گے، گلیوں میں چہل پہل ہو گی، شہر کھل جائیں گے ،دل مل جائیں گے۔

Facebook Comments

مظہر اقبال کھوکھر
لکھنے کے لیے جیتا ہوں اور جینے کے لیے لکھتا ہوں ۔۔۔! مظاہر قلم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply