طاقتور، سیاستدان، میں اور آپ۔۔۔ ابو علیحہ

برادرم  ظفر عمران  کا سوال ہے کہ کون ہے عوام جس کا ساتھ دیں کہ اسٹیبلیشمنٹ سے قبضہ چھڑایا جا سکے.اگر کوئی نہیں ہے, تو اینٹی اسٹیبلشمنٹ حلقے, اس کے ساتھ کیوں نہ کھڑے ہوں, جسے حالات نے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بنا دیا ہے؟
ناچیر کا جواب حاضر ہے۔ کل علی الصبح میں اورجگرم مبشر اکرم  ، کوہسار مارکیٹ میں کافیاں نوشتے ہوئے اس موضوع پر بنا ٹارچ کے گھنٹوں بحثتے رہے۔ حاصل بک بک یہ نکلا کہ جب آپ کسی بھی وجہ سے کسی “طاقتور” کے نرغے میں آجائیں۔ پھر اپنوں کی دعاوں کے  با عث آپ کو وہاں سے چھٹکارا مل جائے تو آپ کے پاس دو راستے ہوتے ہیں۔
اول یہ کہ وطن سے ہجرت کریں اور باہر کسی ملک میں اٹھارہ گھنٹے کڑی مشقت کرنے کے بعد جو وقت بچے وہ سوشل میڈیا پر آکر اس “طاقتور” کو گالیاں دینے میں صرف کردیں جس کی وجہ سے آپ کو تارک وطن ہونا پڑا۔ آپ کا یہ ڈپریشن ، شدید مایوسی سے کب چڑچڑے پن میں ڈھل کر آپ کی شخصیت کو تارتار کردیتا ہے۔ پتا بھی نہیں چلتا ہے۔ انجام کار آپ جس سے نفرت کرتے ہیں، خود بھی اس جیسے مسخ ہوکر رہ جاتے ہیں۔
دوم ، وطن میں ہی رہیں اور اس طاقتور سے سمجھوتہ کرکے اس کے آلہ کار بن جائیں۔ اس کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے دن رات ایک کردیں اور ان سب کے دوران جو فوائد اینٹھ سکتے ہیں ، اینٹھ لیں۔ سیاستدانوں کی اکثریت کو میں ایسا ہی سمجھتا ہوں کہ ذرا سے دباو پر گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔
ایک تیسرا راستہ بھی ہے جو میں نے چنا ہے کہ وطن چھوڑ کر نہیں جانا اور نہ ہی کسی کا آلہ کار بننا ہے۔ اپنے کیریر پر فوکس رکھنا ہے۔ اپنی کامیابی کے لئے تگ و دو کرنی ہے اور خود کو معاشی طور پر اتنا مضبوط بنانا ہے کہ اگر اگلی بار کوئی طاقتور مجھ پر ہاتھ ڈالے تو گھروالوں کے پاس چولہا جلتا رکھنے اور سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے واسطے دس لاکھ روپلی میں مہنگا وکیل کرنے جوگے پیسے ہوں۔ اپنی معاشی خوشحالی کی اس ریس کے دوران سچ بھی بولتے رہنا ہے مگر اتنا ہی سچ کہ شام کو بحفاظت لوٹ کر گھر جاسکوں اور بستر پر رات بھر بنا کسی خطر کے سوسکوں۔
سیاست کے بارے  میں کچھ ایسا ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا ہمیشہ سے ڈرامہ رہا ہے کہ اقتدار کو اس کے تمام تر لطف انگیزیوں سمیت گزارتے ہیں۔ خاندان کے پیمپر پہنے بچوں کو بھی ہم پر مسلط کردیتے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ “طاقتور” کے ہاتھوں بےبس ہونے کا رونا بھی روتے رہتے ہیں۔ آپ آج نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف انتقامی کاروائی بندکرادیں۔ اگلے دس برس آپ میاں برادران کے منہ سے طاقتور کے خلاف ایک بات نہیں سنیں گے تاوقتیکہ ان کو دوبارہ طاقتور نے ڈنڈا نہ چڑھایا۔ اگر بےبس ہیں تو پھر حکومت کرنے کا شوق نہ رکھیں۔ محسن داوڑ جیسا اکیلا شخص اگر قومی اسمبلی کا رکن ہوتے ہوئے طاقتور حلقوں کے خلاف بات کرنے کی جرات رکھتا ہے تو بنوشریف کی حکومت کے پہلے چارسالہ خاموشی کو میں بزدلی کا نام نہ دوں تو کیا کہوں۔
اور یہ تو کوئی مت کہے کہ اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف بولنے کی سزا دی جارہی ہے۔ میاں صاحب طاقت کے مرکز سے ڈیل کرنے اور کافی کچھ طے کرنے کے بعد حکومت میں آئے تھے۔ 2013 الیکشن کی شب گیارہ بجے جب ووٹنگ ختم ہوئے چھے گھنٹے بیت چکے تھے، وہ کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے دوتہائی سے زائد اکثریت مانگ رہے تھے۔ کس پھپھڑ سے مخاطب تھے جب جس نے ووٹ دینا تھا ، وہ تو دن میں دے چکا تھا۔ سو جب وہ اپنے معاہدوں سے پھرے تو اگلوں نے بھی اپنی طاقت دکھادی۔ عمران خان بھی اسی قسم کی ڈیل کرکے اقتدارمیں آیا ہے۔ جب یہ گھومے گا تو اس کے ساتھ بھی نوازشریف والا سلوک کرکے کسی اور کے ساتھ ڈیل بنالی جائے گی۔ عمران خان ہو، زرداری یا نوازشریف بات فقط اتنی ہے کہ اگر حکمرانی کا شوق ہے تو گودا بھی رکھیں اورگودا رکھنے والی جگہ کو صرف اسی وقت حرکت میں نہ لائیں جب اس پر لات پڑجائے بلکہ کسی غریب کے لاپتہ ہونے یا ماورائے عدالت مارے جانے پر بھی غیرت کھالیا کریں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”طاقتور، سیاستدان، میں اور آپ۔۔۔ ابو علیحہ

  1. بات #AsiaBibi کی پھانسی کی نہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس موقع پر رسول کریم کا موقف آپ کا طرز عمل ۔ آپ کی عفو رحمت کیا کہتی ہے ۔
    لیکن مجھے یہ دیکھنا ہے کہ میری EGO . معاشرے کا دباو ۔ حالات حاضرہ کیا کہتے ہیں۔ انصاف کیا کہتا ہے میرا مسئلہ نہیں ۔ اسلام اور خود اسوہ حسنہ کیا کہتا ہے میرا مسئلہ نہیں ۔ ۔ ۔ میرا مسئلہ ۔ مطالبہ یہی ہے کہ جو میں کہوں انصاف وہی جو میں سوچوں جج کو وہی فیصلہ دینا ہوگا ۔ چاہے غلط ہی ہو ۔ اس معاملے میں مولانا عطاللہ بخاری ۔ قاسم نانوتوی یاد آتے ہیں ۔ اولیا اللہ جن کے طرز عمل سے برصغیر ہند ۔۔۔ پاک و ہند بنا جن کی برکت سے ہم مسلمان ہیں آج وہ ہوتے تو آسیہ کے معاملے میں رحم کرتے ۔ آپ پاکستان کے دس بڑے مدارس کے سربراہان سے صلاح کرلیں وہ بھی آسیہ کو ایک موقع دینے کے حق میں ضرور ہونگے ۔ مکہ کی وہ بوڑھی عورت جو آپ پر گند پھینکتی تھی دشنام کرتی تھی ۔ اس پر مشکل وقت آیا تو سب سے پہلے مدد خود رسول کریم نے کی ۔ بات ضد کی نہیں عفو درگزر معافی کی ہے ۔ اسلام کی ہے دین اسلام کی ۔ مزہب کی نہیں

Leave a Reply