روبینہ فیصل کا انٹرویو۔۔۔۔احمد رضوان

روبینہ فیصل کینیڈا میں مقیم معروف ادیبہ اور نوائے وقت کی کالم نگار ہیں۔تین کتابوں کی مصنفہ ہیں اور دو کتابیں زیر طبع ہیں۔ لکھنے پڑھنے کے ساتھ ساتھ ٹی وی ٹاک شوز کی اینکر پرسن ہیں اور کم و بیش دو سو سے زائد پروگرام ریکارڈ کروا چکی ہیں۔ ان کے ایک افسانے ”حلال بیوی”کے پلاٹ پر مبنی ایک شارٹ فلم “چھینٹے “بھی آج کل زیر تکمیل ہے۔ حالیہ دنوں میں ان کی نثری نظموں پر مشتمل نئی کتاب ”ایسا ضروری تو نہیں ” چھپ کر مارکیٹ میں آئی ہے۔ آج کا انٹرویو روبینہ فیصل کی اسی کتاب کے پس منظر میں ان کی رہائش گاہ واقع
مسی ساگا،کینیڈا میں کیا گیا۔
احمدرضوان :سب سے پہلے تو ہمارے قارئین کے لئے اپنا مختصر تعارف کروائیے کہ کہاں سے تعلق رکھتی ہیں اور ابتدائی زندگی کیسے بسر کی؟ لکھنے پڑھنے کا شوق کب پیدا ہوا اور کیا مشکلات پیش آئیں؟
روبینہ فیصل :میں آپ کی اور نوائے وقت کی بہت مشکور ہوں جنہوں نے مجھے میری نئی کتاب پر اظہار خیال کا موقع دیا۔ بنیادی طور پر میرا تعلق لاہور سے ہے۔پیدائش کا ضلع فیصل آباد ہے جو پہلے لائلپور کے نام سے مشہور تھا ۔میری عمر کا اندازہ لگانے کے لئے کیا یہ اشارہ کافی ہوگا ؟
احمدرضوان:چلیں اسی بہانے آپ نے تسلیم کرلیا کہ آپ اٹھارہ سال کافی سال پہلے پار کرچکی ہیں ورنہ جیسا کہ ایک مقدمے میں جج صاحب نے عصمت چغتائی سے عمر پوچھی تو انہوں نے جواب دیا بتیس سال اور چند ماہ۔جج نے پوچھا صحیح صحیح بتائیے کتنے ماہ تو انہوں نے کہا یہی کوئی چھیانوے ماہ۔
روبینہ فیصل :خیر گھر کا ماحول کافی علم دوست اور ادبی تھا۔والد صاحب اور میری والدہ شعبہ تدریس سے وابستہ رہے تو بچپن سے ہی گھر میں کتابیں،رسائل اور اخبارات کو اپنے اردگرد موجود پایا۔شاید اتنے کھلونوں یا گڑیاؤں سے نہیں کھیلی جتنی کتابوں اور کہانیوں میں غرق رہتی تھی۔ پڑھتے پڑھتے نہ جانے کب شوق پیدا ہوا کہ کیوں نہ خود بھی لکھنے کی کوشش کی جائے۔ مگر اس شوق نے عملی شکل تب تک نہ لی تاوقتیکہ میں کینیڈا امیگریشن کرکے نہیں آگئی۔ اس میں بھی جب بچے چھوٹے تھے تو یہاں کتابوں تک رسائی اتنی آسان نہ تھی۔ انٹرنیٹ پر کتابیں اتنی دستیاب نہیں ہوتی تھیں تو پاکستان آنے جانے والے کسی دوست یا عزیز کے ذریعہ سے کتابیں منگوا کر پڑھتی تھی۔ اب تو کینڈا کی لوکل لائبریوں میں آپ کو ایسی ایسی کلاسکیل اردو ادب کی کتابیں مل جاتی ہیں جو شاید پاکستان کی لائبرریوں میں بھی نہ ہوں ۔
تب اخبارات کے آن لائن ایڈیشن سے ملکی حالات کے بارے میں معلومات ملتی تھیں۔ پھر ڈش اور کیبل آنے کے بعد جب پاکستانی چینل آگئے تو رابطہ مزید استوار ہوگیا۔ مقامی اردو اخباروں میں کالم تقریبا پندرہ سال سے لکھ رہی ہوں اورپانچ ،چھ سال پہلے دستک کے عنوان سے نوائے وقت پاکستان میں بھی کالم لکھنا شروع کیا ۔لوگوں نے پسندیدگی سے نوازا تو سلسلہ چل نکلا۔کالموں کے انتخاب پر مشتمل کتاب ” 2010 میں روٹی کھاتی مورتیاں” کے نام سے شائع ہوئی ۔ اسی دوران لوکل ٹی وی چینل پر دستک کے نام سے انٹرویوز اور ٹاک شو شروع کیا جس میں سیاسی،سماجی موضوعات پر گفتگو کی جاتی تھی۔ ان ٹاک شوز پر تنقید اور تعریف دونوں ہی بے تحاشا ہو ئیں ۔ اور اس سے میری ایک اور پہچان ابھر کر سامنے آئی ۔
احمد رضوان : آپ نے ایم اے انگریزی ادب میں کیا اور پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز بینک کی ملازمت سے کیا، جبکہ لکھنے کا سارا کام اردو میں۔یہ سب کسی منصوبہ بندی کے تحت ہوا یا آپ ایک واضح سمت کا تعین نہ کرسکیں؟
روبینہ:پاکستان کے تعلیمی نظام اور ہمارے معاشرے کے پر یشرز ،ہمیں بہت عرصہ یہ سمجھنے ہی نہیں دیتے کہ ہم خود سے چاہتے کیا ہیں ؟ اور ہم میں کیا کرنے کی صلاحیت ہے ،میرے اس سارے عمل میں کوئی خاص پلاننگ تو نہیں کی تھی بس زندگی کی رو جس طرف بہا کر لے گئی ویسے ہی ساتھ بہتے گئے۔ جیسے پاکستان کا ہر دوسرا طالبعلم کرتا ہے ۔بی کام میں نے ہیلے کالج آف کامرس سے کیا تھا اس کے بعد انگریزی ادب میں داخلہ لے لیا اورابھی پارٹ ون کیا ہی تھا کہ اسی دوران امی کے کہنے پر پنجاب بنک کے مقابلے کا امتحان دے دیا ، بدقسمتی سے پاس بھی ہو گئی اور امی کے حکم کے مطابق پارٹ ٹو کو چھوڑ کر بنک کی ٹریننگ شروع کر دی ، مگر بنک میں جانے کے بعد ایم انگلش کو بھی مکمل کیا اور بنکنگ کا ڈپلومہ بھی کر لیا ۔ہر کام میں قدرت کا عمل دخل ہوتا ہے۔میرے جیون ساتھی فیصل محمود سے بینک کی ملازمت کے دوران کی ملاقات ہوئی جو بالآخر شادی پر منتج ہوئی۔شادی کے کچھ عرصہ بعد کینیڈا کی امیگریشن ہوگئی تو یہاں آکر سارا نظام ایک نئے سرے سے استوار کرنا پڑا۔اردو میں لکھنا مجھے اپنی سوچ اور خیالات کو الفاظ کا جامہ پہنانے میں زیادہ آسان لگا۔جب افسانہ نگاری شروع کی تو کہانی پلاٹ،ڈائیلاگ کو زیادہ بہتر طریقے سے بیان کرسکتی تھی اسلئے اردو کا استعمال کیا۔میری افسانوں کی”کتاب خواب سے لپٹی کہانیاں””پچھلے سال خالد احمد ایوارڈ حاصل کر چکی ہے. میرٹ پر اس ایوارڈ کو حاصل کرنا میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں اور اس نے مجھے لکھنے کے لیے بے تحاشا حوصلہ دیا.
احمد رضوان:افسانہ نگاری میں آپ کا کینوس بہت وسیع ہے،پاکستانی پس منظر سے لیکر بیرون ملک مقیم لوگوں کی کہانیاں آپ نے اپنی کتاب میں شامل کی ہیں۔کیا ادب میں تخیل کے ساتھ ساتھ مشاہدہ نگاری اہم کردار ادا کرتی ہے؟
روبینہ:میں نے جتنے بھی افسانے لکھے ان سب کے کردار ہمارے درمیان جیتے جاگتے موجود ہیں۔دیکھنے میں یہ عام انسان اتنے بھی عام نہیں ہوتے ہر انسان کے اندر ایک کہانی چھپی ہوتی ہے صرف آپ کو اس انسان کی کہانی کو کیسے بیان کرنا ہے اس کا نام ہی افسانہ نگاری ہے۔بہت سارے پہلو ایسے ہوتے ہیں جن کو ہم عام زندگی میں دیکھتے ہیں مگر ان کا تجزیہ گہرائی اور گیرائی میں جاکر نہیں کرتے مگر جب کوئی لکھنے والا کسی بات یا کام کو دیکھتا ہے تو اس کا تجزیہ شعوری طور پر کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کے نتیجے میں حقیقی واقعات کو اپنے مشاہدہ کی روشنی میں قلم زد کیا جاتا ہے۔میں ادب برائے زندگی کی قائل ہوں۔ اور انسانی نفسیات میر خاص ا میدان ہے ۔ میرے لکھے ہوئے ہر افسانے کا موضوع انسانی رشتوں،رویوں اور سماجی واقعات کے بیک گراؤنڈ میں لکھا گیا ہے۔اب اس میں کینوس پاکستان کا ہو یا کینیڈا کا۔انسان کے اندر اور باہر کی کشمکش اور اس کے گرد پھیلی کہانی ۔۔ ہوتی تو کہانی ہے ۔ میں نے انہی کہانیوں کو لفظوں میں ڈھال کر آج کے اور بعد کے آنے والے لوگوں کے سامنے پیش کرنا ہے۔یہی میرا منصب ہے جو اللہ نے مجھے سونپا ہے ۔
احمد رضوان:اپنی تازہ نثری نظموں کی کتاب ” ایساضروری تو نہیں”کے بارے میں کچھ بتائیے؟نثری نظم لکھنے کا خیال کیسے پیدا ہوا؟
غیر رسمی سی شاعری بلکہ اسے غیر شاعری بھی کہہ سکتے ہیں۔میں نہیں جانتی ادب میں اس کتاب کا کیا مقام ہوگا مگر میں نے اپنی ہتھیلی پر ٹوٹ جانے والی،تنہائی اور بے وفائی کاغم سہنے والی ساری عورتوں کے آنسو جذب کر کے یہ نظمیں لکھیں۔اس کتاب میں کچھ پرانی کچھ نئی چھوٹی چھوٹی کہانیاں(نظمیں ) ہیں۔ہر ایک نظم ایک افسانہ ہے،میں افسانے لکھنے بیٹھتی تو شاید عمر بیت جاتی،اس لئے نثری نظموں کا سہارا لے کر اپنی بات کو بیان کرکے دل کا بوجھ ہلکا کرلیا۔یہ نثری نظمیں شاعری کے روایتی انداز بیان اور خیال پر مشتمل نہیں ہیں،ان میں آپ کو سماج کی خودغرضی میں ایک انسان کس قدر پریشان، پراگندہ ہو سکتا ہے اس کے بارے میں پتہ چلے گا۔میں نے ان نظموں میں انسانوں کے مابین باہمی رشتوں کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے،جن چھوٹی خوشیوں اور بے معنی مسرتوں کا سہارا لے کر اس معاشرے میں ایک دوسرے سے معاملات کرتے ہیں ان کے بارے میں لکھنے کی کوشش کی ہے۔جیسے میری ایک مختصر نظم ہے
الوداع
مجھے ہجرت کا غم اسی روز بھول گیا
جب وطن کی مٹی سے اٹھنے والی
بے حسی اور منافقت نے
میرے تن من کو جلا کےراکھ کر دیا
سوال:نثری نظم یا جسے اب’ نثم ‘کا نام دے دیا گیا ہے کیا آپ اس کا مستقبل روشن دیکھتی ہیں؟ ہماری ینگ جنریشن کیا اس طرف کافی متوجہ ہے؟
جواب:نثری نظم کو اردو ادب کی چوتھی بڑی تحریک کہا جاتا ہے۔نثری نظم کا پہلا کنونشن 1973 میں کراچی میں ہوا اس دور کے بڑے بڑے نام اس کے ساتھ جڑے۔جن میں نمایاں احمد ہمیش،قمر جمیل، رئیس فروغ،ساقی فاروقی،شاہدہ حسن،عذرا عباس ،ثروت حسین ،انور سن رائے، اور سارہ شگفتہ وغیرہ شامل تھے، ذیشان ساحل بھی ایک معتبر نام تھا۔ ستیہ پال آنند نے اب اس کا جھنڈا اٹھا رکھا ہے ۔ ابرار احمد بہت اچھی نثری نظمیں کہتے ہیں ۔ جدید نظم کے بعد یہ سب سے توانا تحریک تھی جو تنگنائے غزل کے روایتی ڈھلے ڈھلائے سانچوں،چبے چبائے استعاروں،ردیف قافیہ کی تکرار مسلسل کے خلاف بغاوت تھی کہ یہ لوگ عروض،قافیہ اور بحر کی بیگار سے تنگ آ چکے تھے۔نظم معری اور آزاد نظم کے موجود ہونے کے ساتھ نثری نظم بھی اپنے اندر معانی کا ایک جہان آباد کئے ہوئے ہے۔نثری نظم مروجہ آہنگ سے بے نیاز ہونے کی وجہ سے وسیع کینوس رکھتی ہے۔نثری نظم میں لچک پائی جاتی ہے اشاریت، استعارے بڑی منزل رکھتے ہیں۔نثری نظم سہل نگاری کے زمرے میں نہیں آتی۔یہ خیال اور موضوع کو زیادہ بہتر طریقے سے اظہار اور ابلاغ کا کام کرتی ہے۔جذبات اور احساسات کا براہ راست اظہار کیا جاتا ہے۔بناوٹ تصنع اور مبالغہ آرائی سے اسکا دامن صاف ہے۔جہاں تک نئی نسل کا اس طرف راغب ہونا ہے تو یہ صاف طور پر نظر آتا ہے کہ غزل کا حسن آج بھی باقی ہے مگر اب اس کے ساتھ ساتھ غیر روایتی اصناف تیزی سے قبولیت کا درجہ پا رہی ہے اور آنے والے دنوں میں
اس طرف مزید کام ہوگا۔میں نثری نظم کو اردو ادب کی ترقی و ترویج میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے دیکھ رہی ہوں اور اس کے روشن مستقبل کے لیے دعا گو ہوں۔
احمد رضوان:اپنی کسی پسندیدہ نثری نظم کو قارئین کے ساتھ شئیر کرنا چاہیں گی؟
جواب: مجھے اپنی بہت سی نظمیں اچھی لگتی ہیں ۔۔ کیوں کہ کئی دفعہ مجھے یہ خیال ہو تا ہے کہ یہ میں نے لکھی نہیں بلکہ مجھ سے لکھوا دی گئی ہے ۔الہامی کیفیت کی نظمیں ۔۔ جب بعد میں پڑھتی ہوں تو زیادہ لطف اندوز ہو تی ہوں ۔ان میں سے ایک یہ ہے
باغی پر ندے
مندروں کی گھنٹیاں شور پیدا کرتی ہیں
سات پھیرے یا تین دفعہ سر کا ہلانا
مسجدوں ،مندروں میں سناٹا بڑھا دیتا ہے
گرجا گھر وں کے اندر ایک ودسرے میں پیوست ہو نٹ
شہر کی تاریکی کو بڑھا دیتے ہیں
آسمان پر بکھری دھنک چوری ہو جاتی ہے
دل کولبھانے والے رنگ بارش میں چُھپ جا تے ہیں
دو نام کاغذ کی سطح پر گھل کر تمام عمر کے لئے کُند ہو جاتے ہیں
مگر وہ آزاد پرندے جن کا رشتہ کسی کاغذ پر نہیں بنا
جو ایک ہی وقت میں ایک دوسرے کی پناہ گاہ بھی ہیں
اور پناہ کے متلاشی مہاجر بھی
ایسے بے شناخت پرندے جلد ہی بچھڑ جاتے ہیں
مندروں کی گھنٹیاں شور پیدا کر تی ہیں
اور دلوں کو خالی کر جاتی ہیں
گرجا گھر کی مدہم روشنی ،آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے
مسجد کی مقدس خاموشی دلوں میں ہیجان پیدا کر دیتی ہے
جب کاغذ کے رشتے جیت جاتے ہیں
توکاغذ کا بوجھ نہ اٹھانے والے مر جاتے ہیں
سرد اکڑی ہو ئی موت ۔۔
احمدرضوان : واہ واہ بہت اچھے ۔۔ آپ کا بہت شکریہ ۔

Facebook Comments

احمد رضوان
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمار رسوم قیود تھا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply