• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفرنامہ روس /آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک (حصّہ پنجم)۔۔سیّد مہدی بخاری

سفرنامہ روس /آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک (حصّہ پنجم)۔۔سیّد مہدی بخاری

جہاں میں ٹھنڈے فرش پر بیٹھا تھا وہاں درجن بھر پاکستانی تھے۔ یہ ایک عارضی قید خانہ تھا جو ہوائی اڈے کی بیسمنٹ میں واقع تھا۔ اس وسیع ہال کے وسط میں چند کرسیاں تھیں جن پر سیاہ فام مرد قابض تھے۔ ایک ٹوٹا پھوٹا میز تھا جس پر پینے کے واسطے پانی کی گیلن دھری تھی مگر گلاس نہیں تھے۔ ہال کی صفائی ستھرائی کا کوئی انتظام نہ ہونے کے سبب جگہ جگہ کچرا بکھرا نظر آتا تھا۔ ایک کونے پر سیاہ فاموں نے قبضہ جما رکھا تھا۔ ہال کے اسی کونے میں بجلی کی کچھ ساکٹس تھیں مگر وہ ہر وقت انہی کے قبضے میں رہا کرتیں۔ موبائل چارج کرنا ہو تو ان کے پاس جانا پڑتا اور ان کی منت سماجت کرنا ہوتی۔
ایک کونے میں کچھ عراقی و عرب ممالک کے باشندے تھے۔ یہ آپس میں ہی گروپ بنا کر رہتے اور کسی سے میل جول نہ رکھتے تھے۔ جہاں میں تھا وہاں سب پاکستانی تھی۔ پانچ لوگوں کا تعلق بلوچستان سے تھا۔ تین مہمند ایجنسی سے تھے۔ تین پنجابی تھی اور چوتھا میں تھا۔ رات کے بارہ بج رہے تھے۔ ہال میں زیادہ تر لوگ سو چکے تھے مگر پھر بھی شور کافی تھا۔ سیاہ فام اپنے کونے میں کچھ کھیل رہے تھے۔ ان کی خواتین زمین پر لیٹے اونگھ رہی تھیں۔ جو نوجوان غزل گنگنا رہا تھا وہ چپ ہوا۔ جیسے ہی چپ ہوا اس نے مجھے آواز دے کر مخاطب کیا۔
“تہانوں کیوں ایتھے بھیج دتا نیں ؟ تسی وی اگے نکلن واسطے آئی سی ؟ ” ۔ اس نے سوال بڑے سنجیدہ لہجے میں پوچھا تھا۔
“نہیں۔ میں یہاں بس کچھ دن گھومنے کے ارادے سے آیا تھا۔ پھر مجھے واپس پاکستان جانا تھا۔”
” اچھا۔۔۔ میرا ناں اجمل اے۔ میں جہلم دے لاگے اک پنڈ دا آں۔ تسی کتھوں دے او ؟ ”
“اجمل صاحب میں لاہور سے ہوں”۔ میں نے اسے مختصر جواب دیا۔
وہ پانچ بلوچوں کا گروپ اٹھا اور الگ ہو کر دور جا کر سونے کو فرش پر دراز ہونے لگا۔ ان کے اٹھتے ہی باقی سب بھی اپنی اپنی جگہ لیٹنے لگے۔ میں نے بھی کمر سیدھی کرنے کی غرض سے کیمرا بیگ سر تلے رکھنا چاہا مگر بیگ کی اونچائی کافی تھی جس کے سبب اس پر سر ٹکانا خود کو مزید تھکانے کے مترادف تھا۔ اپنے بازوں کا سرہانہ بنایا اور اس پر سر ٹکا کر لیٹ گیا۔ سخت اور ٹھنڈے فرش پر کروٹ بدلتے دو تین گھنٹے بیت گئے۔ ہال میں خاموشی طاری ہو چکی تھی۔
میرے برابر ایک شخص لیٹا ہوا تھا۔ یہ اب تلک ایک لفظ نہ بولا تھا۔ جب میں اس ہال میں داخل ہوا تھا اس نے مجھے بس گھور کے دیکھا تھا۔ یہ میرا ہم عمر لگ رہا تھا۔ چہرے پر گھنی داڑھی، نظر کی عینک، بکھرے بال ، دبلا جسم۔ مجھے محسوس ہوا جیسے برابر سے سسکیوں کی آواز آ رہی ہے۔ میں نے کروٹ بدلی اور اس شخص کی جانب دھیان کیا۔ ہال کی ساری بتیاں گل نہیں ہوئیں تھیں، ہلکی روشنی میں اس کا چہرہ نظر آ رہا تھا۔ جیسے ہی اسی احساس ہوا کہ میں اس کی طرف متوجہ ہوں تو اس نے انگلیوں سے آنسو پونچھے۔
“یہاں میری آج چوتھی رات ہے۔ مجھے اپنی فیملی یاد آ رہی تھی۔ پتا نہیں میں کیوں اس چکر میں پڑا تھا۔ ساری عمر کی جمع پونچھی بھی ضائع گئی اور یہاں سے واپس جانے کی کوئی خبر بھی نہیں”۔ اس نے بولنا شروع کیا اور بولتے بولتے اس کی آواز ہچکیوں میں دبتی رہی۔ میں یہ سن کر اٹھ بیٹھا تو وہ بھی اٹھ بیٹھا۔ اسے تسلی دینے کو میں نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔
“بھائی اللہ بہتر کرے گا۔ فیملی تو سب کی ہے۔ میری بھی ہے۔ یہاں سب ہی پریشان ہیں کون خوشی سے یہاں آیا ہے۔ اللہ بہتر کرے گا۔ آپ حوصلہ کریں”۔ مجھے اب یاد نہیں کہ میں اسے کیا کیا کہہ گیا تھا۔ سچی بات تو یہ تھی کہ اسے یوں روتا دیکھ کر اور یہ سن کر کہ وہ یہاں چوتھی رات بسر کر رہا ہے مجھے خود گھبراہٹ ہونے لگی تھی۔ آس پاس قریب ہی باقی لوگ سوئے تھے۔ میں نے اسے کہا کہ یہاں سے اٹھ کر الگ ہو کر بیٹھتے ہیں۔ آ جاو۔
ہم دونوں اٹھے اور کچھ دور دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ اس نے بیٹھتے ہی مجھ سے میرا نام پوچھا۔
“شاہ جی آپ سید ہیں آپ دعا کریں میں یہاں سے نکل کر واپس نارووال چلا جاوں۔” یہ کہتے اس نے میرا ہاتھ تھام لیا۔
“ارے یار ! میں خود تمہارے ساتھ ہوں۔میری دعا میں اثر ہوتا تو یہاں ہوتا ؟ میں بھی تو یہاں ہوں۔”
“نہیں شاہ جی، آپ پھر بھی دعا کریں۔ یہ آپ کا امتحان ہو گا مگر میں نے تو خود جانتے بوجھتے پیسے لگا کر یہ رسک لیا تھا”۔
“اچھا دعا کروں گا ضرور۔ تم یہاں کیا کرنے آئے ہو اور یہاں کیوں ہو ؟ تم کو امیگریشن والوں نے کچھ بتایا ہے؟ ”
“شاہ جی۔ بس زندگی سے تنگ آ کر سوچا تھا کہ یورپ جاوں۔ ایک واقف کار ایجنٹ تھا جو بہت بندے بھیج چکا ہے۔ اس نے اکیس لاکھ میں ڈیل کی تھی۔ اس نے مجھے یہاں سے فن لینڈ بھجوانا تھا مگر میں ائیرپورٹ پر ہی روک لیا گیا۔”
“تم کو کس نے کہا تھا کہ یہ رسک لو ؟ کیا تم نے خود ریسرچ نہیں کی کہ اس روٹ سے یورپ یا فن لینڈ پہنچنا ناممکن ہو چکا ہے ؟ تم نے اکیس لاکھ دیئے ہیں ؟ پیسے بھی گئے ؟ “۔
“ہاں شاہ جی پیسے آدھے دے دیئے تھے باقی پہنچ کر دینے تھے۔ میرے پاس واپسی کی ٹکٹ بھی نہیں ہے۔ ایک ڈمی ٹکٹ تھی وہ امیگریشن والوں نے مانگی۔ ان کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ ڈمی ٹکٹ ہے۔ میں نے تو پلان کے مطابق آگے جانا تھا واپس نہیں جانا تھا۔ میرے پاس واپسی کی ٹکٹ کے پیسے بھی نہیں۔ گھر سے یہاں پیسے کیسے منگوا سکتا ہوں۔ ” یہ کہہ کر وہ پھر آبدیدہ ہو گیا۔
“اچھا چلو واپسی کی ٹکٹ کا کچھ ہو جائے گا۔ تم دعا کرو کہ یہ چھوڑ دیں یا ڈی پورٹ کر دیں۔ اگر یہ ٹکٹ کے پیسے مانگیں تو میں دے دوں گا۔ تم یہاں سے واپس پہنچ کر میرے اکاونٹ میں جمع کروا دینا”۔ اس وقت مجھے یہی سوجھا تھا تو میں نے اسے کہہ دیا۔ جس صورتحال کا ہم شکار ہو چکے تھے اس میں پیسے معنی ہی نہیں رکھتے۔ ان سے کچھ نہیں خریدا جا سکتا تھا۔ اس نے میری بات سن کر پنجابی میں شکریہ ادا کیا اور وعدہ کرنے لگا کہ اگر وہ یہاں سے واپس گیا تو جاتے ہی پیسے لوٹا دے گا۔ اس کا نام دلشاد تھا۔ دلشاد بھلا مانس آدمی تھا بس بیوی بچوں کے اچھے مستقبل کی خاطر غلط رستہ اختیار کر بیٹھا تھا۔
“دلشاد ، مجھے انٹرنیٹ چاہیئے۔ یہاں کسی کے پاس انٹرنیٹ ہے کیا ؟ ہے تو اگر وہ ہاٹ سپاٹ آن کر دے تو میں کسی سے رابطہ کروں اور اپنے تعلقات کو صورتحال سے مطلع کروں”۔
“ہاں۔ وہاں ایک کالا ہے۔ اس کے پاس روسی سم ہے۔ وہ اس پر کوڈ منگوا کر دیتا ہے مگر پچاس ڈالر لیتا ہے۔ اگر آپ کے پاس پچاس ڈالرز ہیں تو وہ کوڈ منگوا دے گا”۔ اس نے سیاہ فام لوگوں کی جانب اشارہ کیا جہاں سب فرش پر اوندھے پڑے سو رہے تھے۔ ہم دونوں اپنی جگہ سے اٹھے اور یہ دیکھنے کو ان کی جانب چل دیئے کہ شاید وہ شخص جاگ رہا ہو جو پیسے لے کر کوڈ دیتا ہے۔
فرش پر پڑے مردوں میں سے چند جاگ رہے تھے جو اپنے موبائل سے ہیڈفون لگائے لیٹے تھے۔ ان میں سے ایک نے انگریزی میں پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے ؟ مسئلہ جان کر اس نے ایک لڑکے کی جانب اشارہ کر دیا جو کرسی پر بیٹھا تھا۔ ہم اس کے پاس پہنچے۔ مدعا بیان کیا۔ اس نے پچاس ڈالرز طلب کیئے۔ میں نے کمر سے بندھا اپنا چھوٹا سا بیگ کھولا۔ میرے پاس سو ڈالرز کے نوٹ تھے۔ اسے سو ڈالر دیا تو اس نے کہا کہ اس کے پاس بقیہ پچاس ڈالر کا نوٹ نہیں لہذا وہ بقیہ پیسے نہیں لوٹا سکتا۔
“تم سو ڈالر ہی رکھو مجھے وائی فائی چاہیئے”۔ میں نے اکتائے ہوئے اسے جواب دیا۔ اس نے میرے موبائل میں اپنی روسی سم کا نمبر ڈالا۔ اس سم پر کوڈ ایس ایم ایس میں آیا اور بلآخر میرا وائی فائی کنیکٹ ہو گیا۔
یہ ہوائی اڈے کا وائی فائی تھا۔ بیسمنٹ میں اس کے سگنلز پورے نہیں آتے تھے۔ کبھی تو یکدم ہی چل پڑتا اور کبھی جام ہو جاتا۔ جیسے ہی انٹرنیٹ ملا میں نے اپنے تمام اعلی عہدوں پر براجمان عزیزوں، دوستوں اور مہربانوں کو اپنی صورتحال سے متعلق تفصیلی وائس نوٹ واٹس ایپ کرنا شروع کر دیئے۔ یہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ وہ افراد تھے جن سے میرا کسی نہ کسی حوالے سے تعلق ہے۔ فارن آفس پاکستان ، دو تین ممالک کے ایمبیسڈر صاحبان، کچھ اعلی فوجی افسران، کچھ سول افسران اور کچھ نامور جرنلسٹ و اینکرز دوست۔ الغرض آج تلک ان سب کے ہوتے ہوئے کبھی کسی سے اپنا ذاتی کام نہیں کہا تھا مگر اب ان کو بتانا پڑ رہا تھا کہ میرے ساتھ یہ صورتحال پیش آ چکی ہے اور میں روس میں قید کیا جا چکا ہوں۔
واٹس ایپ سے فارغ ہو کر اپنے ہیڈ آفس اقوام متحدہ نیویارک اور پاکستان کے آفس ایک ای میل لکھی۔ وہی ای میل ورلڈ بینک پاکستان مشن کے آفس بھی بھیج دی۔ دلشاد میرے ساتھ جڑا بیٹھا خاموشی سے مجھے تکتا رہا۔ ایک دو بار اٹھا اور میرے لئے کہیں سے گلاس ڈھونڈ کر پانی لایا۔ میں وہیں دیوار سے ٹیک لگائے موبائل میں مصروف رہا۔ وقت دیکھا تو صبح کے چار بج رہے تھے۔
“شاہ جی۔ آپ نے اتنے لوگوں کو میسج کیئے ہیں امید ہے کچھ اچھا ہو جائے گا۔ ابھی تو پاکستان میں سب سوئے ہوں گے”۔
“ہاں۔ ابھی تو سب سوئے ہوں گے۔” میں نے موبائل جیب میں رکھتے جواب دیا۔ “چلو اب کچھ دیر ہم بھی کمر سیدھی کر لیں۔”۔ واپس اپنی جگہ پہنچ کر بازو پر سر ٹکا کر لیٹا تو شاید کچھ ذہنی سکون کی وجہ سے نیند آ گئی۔
آنکھ شور سے کھلی۔ سیاہ فاموں نے انتہا درجے کا شور مچا رکھا تھا ایسے جیسے کوئی لڑائی ہو رہی ہو۔ میں اس شور سے گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ صبح کے نو بج رہے تھے۔ معاملہ یہ تھا کہ سیکیورٹی سٹاف ہال کے دروازے پر تین چار کاٹن رکھ گیا تھا جن کے اندر سینڈوچ کے باکسز تھے اور سیاہ فام ان پر کاٹنز پر قبضہ جمائے ان کو لوٹنے میں لگے تھے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے ازلوں کے بھوکے انسانوں کے آگے کوئی روٹی کا ٹکرا ڈال گیا ہو۔ اس قدر ہنگامہ برپا تھا کہ دل یہ منظر دیکھ کر گھبرانے لگا تھا۔
کچھ منٹوں میں ادھڑے ہوئے کاٹنز فرش پر بکھرے رہ گئے۔ پاکستانیوں اور عراقیوں کے حصے میں کچھ نہ آیا۔ وہ آگے بڑھے بھی نہیں تھے۔
“شاہ جی۔ روز یہی کچھ ہوتا ہے۔ میں نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا”۔ دلشاد میرے قریب آ کر پاس بیٹھتے ہوئے بولا۔
“او مولوی۔ میں نے کونسا کچھ کھایا ہے؟ “۔ جہلم کے اجمل نے دلشاد کو مخاطب کرتے کہا۔ وہ شاید اس کی گھنی داڑھی کے سبب اسے مولوی کہتا تھا۔
“اجمل ۔ تم یہاں کیوں ہو ؟ تمہارا کیا مسئلہ ہے ؟ “۔ میں نے اسے مخاطب کیا
” شاہ جی۔۔۔ ایتھے سارے اوہی نیں جنہاں نے اگے نکلنا سی۔ اے بلوچستان والے پنج تے او فاٹا والے۔ دلشاد تے میں۔ تے او پائین فاروق تواڈے لاہور دے۔ “۔ یہ کہتے اجمل نے قہقہہ لگایا
“اچھا !!! اس کا مطلب تم سب کو روسیوں نے صحیح پہچان لیا ہے۔ تم سب ایک ہی ایجنٹ کے ذریعہ یہاں تک آئے ہو یا سب الگ الگ ہو ؟ ” میں نے حیرت سے پوچھا
“سارے وکھو وکھی نیں۔ ایتھے آ کے ہی سارے پہلی واری ملے آں۔ مینوں میرے ایجنٹ پ چ نے آکھیا سی کہ توں ایتھوں جاویں گا روس۔ اوتھوں بیلا روس۔ بیلا روس توں پولینڈ۔ پولینڈ توں جرمنی۔ ساری لین سیٹ اے توں بس ائیرپورٹ توں نکل کے گڈی تے بینا اے۔ بندہ اگے کھلوتا ہووے گا”۔ اجمل نے ایجنٹ کو گندی گالیاں بکنا شروع کیں۔
“تم نے کتنے پیسے دیئے اجمل ؟ “۔
“او نئیں شاہ جی اسی پنڈ دے لوگ اینے کچے نئیں۔ ڈن بیس تے گیم سی۔ میں جرمنی پہنچدا تے فیر ایجنٹ نوں ابے نے پیسے دینے سن۔ میرا ککھ نئیں لگا بس شاہ جی ایتھے ڈنگ نہیں ٹپایا جاندا۔ میں واپس پنڈ جانا اے تے مڑ کدی یورپ دا سوچنا وی نئیں”۔ اجمل یہ کہتے اداس ہو گیا تھا۔ شاید اسے گاوں یاد آ گیا تھا۔
باتوں کے دوران بلوچستان گروپ پاس آ کر بیٹھ گیا۔ یہ پشتون مرد تھے۔ شلوار قمیض پہنے تھے۔
“آپ پانچوں ایک ساتھ ہو ؟ یہاں کیا کرنے آئے تھے ؟ “۔ میں نے بلوچستان گروپ سے پوچھا۔
“ام تو یاں گھومنے پھرنے آیا تھا یارا۔۔ “۔ ایمل خان نے سگریٹ کا کش مارتے جواب دیا۔
“او نئیں بھائی جان۔ ہم بھی آگے نکلنے آیا تھا۔ یہ ایمل خان تو پاگل ہے۔ گھومنے پھرنے آیا تھا کا بچہ “۔ دوسرے پشتون نے ایمل خان کی نقل اتارتے کہا اور پھر سب پشتون مل کر ایمل خان پر ہنسنے لگے۔ ایمل نے پشتو میں ان کو کچھ مغلظات سے نوازا۔
“تم بتاو۔ تم کدھر جانے کو آیا تھا ؟ “۔ ایمل خان جب اپنے ساتھیوں کو کوس چکا تو مجھ سے مخاطب ہوا۔
“خان صاحب میں سچ میں گھومنے پھرنے آیا تھا اور پھر تین ہفتوں بعد واپس پاکستان چلا جاتا “۔
“ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا۔ گھومنے پھرنے آیا تھا۔۔ او ماڑا سچی سچی بولو ناں”۔ ایمل خان اور باقی پشتون ہنسنے لگے
“میں ایکدم سچ کہہ رہا ہوں۔ یہ دیکھو میرے پرانے پاسپورٹ۔ یہ دیکھو شینجن ویزا۔ یہ دیکھو انٹری و ایگزٹ کی مہریں۔ اگر مجھے یورپ نکلنا ہوتا تو یورپ جانے میں مجھے کیا مسئلہ تھا ؟ میں یہاں کیوں آتا ؟ “۔ میں نے انتہائی سنجیدہ جواب دیا اور پرانے دو پاسپورٹ ان کے سامنے رکھ دیئے۔
” یہ بات تو سئی اے۔۔۔ تو تم کو کیوں ادھر لایا ؟ “۔ ایک اور پشتون نے سوال کیا
“یہی تو مجھے نہیں سمجھ آ رہی کہ مجھے کیوں ادھر لایا۔ شاید اسی لئے لایا کہ تم سب بارہ کے بارہ لوگ یہاں سے آگے نکلنے کو آیا تھا شاید ان کو لگا ہو کہ میں بھی تمہارا ساتھی ہوں”۔ اب کے میں نے قدرے مسکراتے جواب دیا۔
ہم سب بھوکے تھے۔ وقت گزاری کو باتوں کے سوا کیا تھا ؟ سب گروپ بنا کر اک دوجے سے باتیں کرتے رہے۔ دلشاد اور اجمل میرے ساتھ بیٹھے رہے۔لاہور والا فاروق بھی آ گیا۔ یہ سب اچھے لوگ تھے۔ یہ سب بس حالات سے مجبور ہو کر یورپ کی چاہ میں آئے تھے۔ ان کو کسی نے سہانے سپنے دکھا کر لوٹا تھا۔ عمر بھر کی کمائی ایجنٹوں پر لٹا کر اب نہتے و پریشان تھے۔ یہ سب بال بچوں والے تھے۔ سب کی آنکھیں گھر کی یاد میں بھیگیں تھیں۔ ان سب کی ایک مکمل کہانی تھی جو میں ان کی زبانی ان سے سنتا رہا تھا۔ یہ سب ایک مکمل داستان تھے۔
واٹس ایپ پر کافی سارے جوابی میسجز آئے ہوئے تھے جن کو پڑھ کر مجھے تسلی ہو چکی تھی کہ آج ماسکو میں واقع پاکستان ایمبیسی اپروچ کر لے گی۔ روس کے سفیر شفقت علی خان صاحب کا واٹس ایپ بھی موصول ہو چکا تھا۔ انہوں نے وائس نوٹ بھیج رکھا تھا اور کہا تھا کہ آج آپ کو لینے ایمبیسی سٹاف آ جائے گا۔ میں مطمئن تھا مگر سوچ رہا تھا۔
سوچ رہا تھا کہ میں آج شاید نکل جاوں۔ مگر ان پاکستانیوں کا کیا ؟ اجمل کا کیا ہو گا ، دلشاد کدھر جائے گا اور فاروق ؟ اور یہ بلوچی ؟ اور وہ فاٹا والے ؟ ان کے بال بچے ان کے گھر بار والوں کا کیا ؟ یہ صرف اس لئے یہاں چار دنوں سے ہیں اور رہائی کی کوئی خبر بھی نہیں کہ ان کا والی وارث کوئی نہیں ؟ ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں؟ ہمارا سفارت خانہ ان سے قطعی طور پر لاعلم ہے۔ یہ سب مجھ سے امید لگا بیٹھے تھے۔ ان کو دلشاد نے بتایا تھا کہ میں نے پاکستان میں فلاں منسٹر اور فلاں آفیسر اور فلاں جرنل سے بات کی ہے۔ شاید دلشاد سے یہ خوشی قابو نہ رہ سکی تھی۔ اس نے سب کو امیدیں دلا دی تھیں اور سب باتوں باتوں میں مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ آپ کیا کرتے ہیں ؟ اور میں ان کو اپنے بارے کچھ نہیں بتا رہا تھا بس یہ کہہ دیا تھا کہ میں بس ایک فوٹوگرافر ہوں۔
میرے اندر ایک بے چینی لگی ہوئی تھی۔ ان سب کی شکلیں نظروں کے سامنے پھر رہی تھیں۔ میں اک عجب کیفیت کا شکار تھا۔ خود نکل جاوں ؟ ان سب کو اور اس ہال کو بھول جاوں؟ ان کی کہانیوں کو بھول جاوں جو انہوں نے مجھے سنائی تھیں ؟ یا ان کے پیچھے خود بھی یہیں لٹکا رہ جاوں اور ایمبیسی سٹاف کو کہوں کہ بارہ پاکستانی اور بھی ہیں۔ وہ مجھے کہیں کہ تو ایسا کر تو ان کا لیڈر بن جا اور یہیں رہ۔ ہمیں اور بھی کام ہیں ۔۔۔ !!!
سچ پوچھیں تو میں بہت اپ سیٹ ہو چکا تھا۔گھڑی پر دوپہر کا ایک بج رہا تھا۔ ایک سیکیورٹی اہلکار آیا۔ اس نے میرا نام پکارا اور کہا کہ اپنا ہینڈ کیری لے کر اس کے ساتھ چلوں۔ یہ سنتے ہی سارے پاکستانی میرے اطراف جمع ہو گئے۔ ان کو لگا کہ میں یہاں سے جا رہا ہوں۔ میری رہائی ہو رہی ہے۔ مجھے بھی یہی لگ رہا تھا کہ شاید اب ان سے دوبارہ ملاقات ممکن نہ ہو۔ سب مجھے باری باری گلے ملے۔
“مبارک ہو شاہ جی۔ چلو آپ تو اپنی منزل پر پہنچیں”۔ فاروق نے گلے ملتے کہا تھا۔
“شاہ جی۔ نمبر آپ کے پاس ہے رابطے میں رہنا۔ بھول نہ جانا۔” اجمل نے پنجابی میں گلے ملتے کہا تھا۔
“امارے لئے بھی دعا کرنا شاہ جی ام بھی یہاں سے نکل کر گھر جائے”۔ ایمل خان اور اس کے گروپ نے باری باری گلے لگا کر اسی نوعیت کے جملے دہرائے تھے۔
آخر میں ملا تھا دلشاد۔ اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی۔ میں نے وجہ جان لی تھی۔ میرے جانے سے وہ اداس تھا سو تھا مگر شاید اس کو یہ پریشانی تھی کہ اس کی واپسی کی ٹکٹ کا کیا ہو گا۔ میں نے اس کی کلائی تھام کر اسے سائیڈ پر کیا۔ بیگ سے پانچ سو ڈالرز نکالے اور اسے تھماتے کہا ” دلشاد یہ تمہاری ٹکٹ ہے۔ یہ ڈی پورٹ کرنے لگیں گے تو تم سے ائیرلائن ٹکٹ کے پیسے مانگیں گے۔ ماسکو سے لاہور کی ون وے ٹکٹ 60 سے 70 ہزار میں آتی ہے قطر ائیرلائن کی۔ جب تم نکل جاو تو بتا دینا۔ واٹس ایپ پر رابطہ رہے گا۔ “۔
“اس نے مجھے گلے سے لگایا اور رونے لگا۔ ایسی جذباتی صورتحال میں مضبوط دل انسان بھی ہل جاتا ہے۔ اس سے قبل کہ میں جذباتی ہو جاتا اسے پیچھے ہٹایا اور کہا کہ حوصلہ رکھو تم جلد گھر پہنچ جاو گے۔ پھر ہال کا دروازہ بند ہوا۔
چیف امیگریشن آفیسر کے کمرے میں داخل ہوا۔ سامنے ایک ہینڈسم شخص بیٹھا تھا۔ اس نے مجھ سے مصافحہ کرتے کہا ” بخاری صاحب۔ میں انصر شاہ۔ فرسٹ سیکرٹری پاکستان ایمبیسی ماسکو”۔
“شکریہ انصر صاحب۔ آپ تشریف لے آئے”۔ میں نے کرسی پر بیٹھتے کہا۔
“بخاری صاحب۔ آپ پریشان نہ ہوں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔” انصر صاحب نے چہرے پر مسکان سجائے مجھے تسلی دی۔
“جی۔ امید ہے”۔
“بخاری صاحب آپ کیا کرتے ہیں ؟ ایمبیسڈر صاحب کو آپ کے متعلق اتنی کالز آ چکی ہیں کہ یہ دیکھیں پاکستان ایمبیسی کے لیٹرہیڈ پر آپ کے نام کے ساتھ آپ کو پاکستان ایمبیسی کا مہمان لکھا ہے اور ایمبیسڈر صاحب کے سائن ہیں”۔ انہوں نے مجھے لیٹرہیڈ تھماتے ہوئے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ میں نے لیٹرہیڈ پڑھا اس پر لکھا تھا کہ مسٹر سید مہدی بخاری پاسپورٹ نمبر فلاں، پاکستان کا آرٹسٹ ہے اور یہ ہمارا ماسکو ایمبیسی کا مہمان ہے۔ اسے ایمبیسی سٹاف فرسٹ آفیسر کے ساتھ رخصت کر دیا جائے۔ ان کی رہائش ایمبیسی میں رہے گی۔ جب آپ کہیں گے ان کو آپ کے پاس کسی بھی قسم کی تفتیش کے لئے حاضر کر دیا جائے گا۔ جب تک آپ یہ فیصلہ نہیں کر لیتے کہ انہیں انٹری دینی ہے یا ڈی پورٹ کرنا ہے یہ ایمبیسی کی حدود کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے۔
“انصر صاحب اس میں لکھا ہے کہ میں پاکستان کا ایک آرٹسٹ ہوں۔ ٹھیک لکھا ہے۔ ” میں نے مسکراتے ہوئے ان کو اپنا تعارف کروا دیا۔
“بخاری صاحب، مسئلہ یہ ہے کہ میں ایک گھنٹے سے یہاں موجود ہوں۔ یہ چیف امیگریشن آفیسر ہیں۔ یہ مجھے آپ کے بارے کچھ نہیں بتا رہے۔ صرف یہ بتایا گیا ہے کہ آپ کی کوئی انکوائری ہو رہی ہے اور جب تک انکوائری مکمل نہیں ہو جاتی یہ آپ کو میرے ساتھ بھی نہیں جانے دے رہے۔ میں نے ان کو کہا ہے کہ یہ حکومت پاکستان کا لیٹرہیڈ ہے جس کے مطابق ایمبیسی ان کی ضمانت دیتی ہے مگر یہ نہیں مان رہے۔ اگر مناسب سمجھیں تو ہم الگ ہو کر بات کر لیں ؟ ”
یہ سن کر مجھے پھر سے پریشانی لاحق ہو گئی۔ میں نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔ میں پوچھنا چاہتا تھا کہ کیسی انکوائری ؟ کونسی انکوائری ؟ آخر میرے پر شک کیا ہے ؟۔ انہوں نے میرا پریشان چہرہ دیکھا تو روسی زبان میں چیف کو کچھ کہا۔ پھر اٹھے اور مجھے بولے ” کمرے سے باہر چلیں”۔ میں کمرے سے باہر نکلا۔ ایک نکڑ پر لے جا کر بولے۔
“آپ جاب کیا کرتے ہیں ؟ ان کو اقوام متحدہ کا بتایا ہے ؟ یہ مجھے بتا چکے ہیں کہ ان کے کچھ تحفظات ہیں۔ آپ چیچنیا جانا چاہتے ہیں ؟ بخاری صاحب آپ کو یو این کا ذکر نہیں کرنا تھا اور چیچنیا جا کر آپ نے کرنا کیا تھا ؟ آپ کو معلوم ہے کہ چیچنیا ان کے لئے حساس علاقہ ہے ؟ “۔
“میں نے وہاں جھیل کے لئے جانا تھا۔ فوٹوگرافی کرنا تھی اور کیا کرنا تھا مجھے سر ؟ ان کو کہیں کہ میں نہیں جا رہا۔ مجھے یہاں سے واپس پاکستان بھیج دیں۔ پاکستان تو بھیج سکتے ہیں ناں ؟ ڈی پورٹ کی ریکوئسٹ ہی کر دیں”۔
“کہا ہے۔ اب بات سنیں۔ قانونی طور پر امیگریشن آفیسر کے پاس اختیار ہے کہ وہ کسی کو بھی 72 گھنٹے بند رکھ سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارا وکیل بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ ہاں اگر 72 گھنٹے سے زیادہ رکھیں تو پھر قانونی کاروائی ممکن ہے۔ مگر یقین کریں یہ بنا چارج لگائے یا بنا کسی ٹھوس ثبوت کے تین دن سے زیادہ نہیں رکھتے۔ یہ آپ کو ڈی پورٹ کر دیں گے یا ماسکو میں انٹری دے دیں گے۔ اب آپ کو کچھ صبر کرنا ہو گا”۔ یہ کہتے انہوں نے میرے کاندھے پر ہاتھ سے تھپکی دی
“اچھا۔ سمجھ گیا۔ شاہ صاحب نیچے مجھ سمیت کل بارہ پاکستانی قید ہیں۔ ایک کو آج پانچواں دن ہو گیا ہے۔ کسی کو چار کسی کو تین دن ہو چکے ہیں۔ ان کا کیا ؟ قانون کی رو سے امیگریشن تو 72 گھنٹے سے زیادہ نہیں رکھ سکتی ناں ؟ آپ کو ان کے معلومات ہیں کیا ؟ ان کو ہی نکلوا لیں۔ ان کا کیا قصور ہے ؟ وہ تو 72 گھنٹے کاٹ چکے ان کو کس جرم میں رکھا ہے ڈی پورٹ کیوں نہیں کر چکے ؟ “۔ میں نے سپاٹ لہجے میں کہہ دیا۔
” ہمارے پاس کوئی معلومات نہیں۔ آپ نے کہا کل بارہ پاکستانی ہیں ؟ مجھے فوری طور پر ان کے ناموں کی لسٹ بمعہ ان کے پاسپورٹ نمبر بھیجیں۔ میرا واٹس ایپ نوٹ کریں۔ ابھی جا کر بھجوائیں مجھے میں یہ مسئلہ ان کے سامنے اٹھاوں”۔ شاہ صاحب نے حیران ہوتے جواب دیا
“اچھا۔ میں بھیجتا ہوں لسٹ۔ آپ ان کا کچھ کر دیں میں 72 گھنٹے کاٹ لوں گا۔ سمجھ چکا ہوں کہ کچھ نہیں ہو سکتا”۔
ملاقات اختتام کو پہنچی۔ بھاری قدموں چلتے واپس ہال میں پہنچا تو سارے پاکستانی مجھے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ قریب آئے اور استفسار کرنے لگے کہ کیا ہوا ؟ تم واپس کیوں آ گئے ؟
” میں تین دن ادھر ہی ہوں۔ جو جو 72 گھنٹے سے زائد یہاں گزار چکا ہے وہ مجھے اپنا نام اور پاسپورٹ نمبر نوٹ کروائے۔ باقی بات بعد میں بتاتا ہوں کہ کیا ہوا”۔
سات لوگ تین دن سے زائد گزار چکے تھے۔ ان کی لسٹ بنائی اور فرسٹ سیکرٹری کو بھیج دی۔ اس کام سے فارغ ہو کر بیٹھا تو ساری کتھا سنا دی۔ شام ڈھلتی گئی۔ بھوک و پریشانی بڑھتی گئی۔ وہی فرش تھا اور بازوؤں کا سرہانہ تھا۔ اس رات دلشاد کے ساتھ فاروق بھی رویا تھا۔ ایمل خان نے ان کو چپ کروایا تھا اور پھر خان کے دو موٹے موٹے آنسو ٹپک کر فرش کی ٹائل کو دھونے لگے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply