کربلا کے واقعے کے بعد امام زین العابدین علیہ السلام نے فاسد و بدعنوان اموی خاندان کی حقیقت کو بےنقاب اور ثاراللہ علیہ السلام کے مقدس مشن کو صحیح اور سیدھے راستے کے طور پر متعارف کرا کے حسینی مشن کی تکمیل کا اہتمام کیا۔ امام زین العابدینؑ جنہیں اہل سنت اور اہل تشیع دونوں قدر اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، واقعہ کربلا کے اسیروں میں سے تھے۔ واقعہ کربلا کے بعد آپؑ اور اہلبیتؑ کی باقی خواتین کو اسیر بنا کر دمشق لے جایا گیا، یزید بن معاویہ کے سامنے پیش ہونے کے لیے۔
دمشق کی جامع مسجد میں مجمع عام کے سامنے یزید نے اسرائے اہل بیت کی موجودگی میں اپنے ایک درباری خطیب کو حکم دیا کہ علی علیہ السلام اور آل علی علیہم السلام کی مذمت، المیۂ کربلا کی توجیح اور یزید کی تعریف کرے۔ یزید اپنے باطل خیال کے مطابق، وہ اس کام کے ذریعے اہل بیتؑ کو رسوا کرنا چاہتا تھا۔ خطیب منبر پر چڑھ گیا اور خدا کی حمد و ثناء کے بعد امیرالمۆمنین اور امام حسین علیہما السلام کی بدگوئی اور معاویہ اور یزید کی تمجید و تعریف میں مبالغہ کرتے ہوئے ایک طویل خطبہ دیا- یہ ایک طے شدہ منصوبہ تھا، جس کے مطابق خطیب نے ممبر سے یزید بن معاویہ اور اس کے آباء و اجداد کی مدح سرائی کی۔ اس موقع پر امام زین العابدینؑ نے مذکورہ خطیب سے فرمایا:
“وای ہو تم پر! تم نے مخلوق کی خشنودی اور رضایت کو خدا کی خوشنودی پر مقدم کیا اور جہنم میں اپنا ٹھکانا معین کیا“۔
اس کے بعد امام زین العابدینؑ نے یزید کی طرف رخ کر کے تقریر کرنے کی اجازت مانگی، “ناسخ التواریخ” میں آیا ہے کہ یزید نے امام زین العابدینؑ کی درخواست کو رد کیا لیکن شامیوں کے اصرار پریزید نے مجبورا ً امام زین العابدینؑ کی درخواست کو قبول کیا۔ امام زین العابدینؑ نے اس خطبے کے ابتدائی جملوں میں اجمالی طور پر اپنا، اپنے خاندان کا اوراہل بیتؑ کا تعارف کرایا۔ ان جملوں میں اس خاندان کے علم، حلم اور شجاعت کو بیان کرتے ہوئے اس خاندان کے بعض مشہور و معروف شخصیات جیسےسید الشہداء حضرت حمزہؑ اورحضرت جعفر طیارؑ وغیرہ کا نام لیا۔ آپ علیہ السلام نے منبر پر ایسا خطبہ دیا کہ لوگوں کی آنکھیں اشک بار ہوگئیں اور ان کے قلب خوف و وحشت سے بھر گئے- آپؑ نے فرمایا: میں پسرِ زمزم و صفا و مروہ ہوں، میں فرزندِ فاطمہ زھراؑ ہوں، میں اس کا فرزند ہوں جسے پسِ گردن ذبح کیا گیا۔ ۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کا سر نوکِ نیزہ پر بلند کیا گیا۔ہمارے دوست روزِ قیامت سیر و سیراب ہوں گے، اور ہمارے دشمن روزِ قیامت بد بختی میں ہوں گے۔ آپؑ نے مزید فرمایا: میں مسلمانوں کی ناموس کے محافظ و پاسدار کا بیٹا ہوں، میں اس کا بیٹا ہوں جو مارقین (جنگ نہروان میں خوارج)، ناکثین (پیمان شکنوں اور اہل جمل) اور قاسطین (صفین میں معاویہ اور اس کے انصار) کے خلاف لڑا اور اپنے دشمنوں کے خلاف جہاد کیا- میں تمام قریش کے بہترین فرد کا بیٹا ہو، میں اولین مؤمن کا بیٹا ہوں جس نے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت پر لبیک کہا اور سابقین میں سب سے اول، متجاوزین اور جارحین کو توڑ کر رکھنے والا، مشرکین کو نیست و نابود کرنے والا تھا، منافقین کے لئے خدا کے تیروں میں سے ایک تیر کی مانند تھا، خدا کے بندوں کے لئے زبان حکمت، دین خدا کی مدد کرنے والا، اس کے امور کا ولی، حکمت خدا کا بوستان اور علم الہی کا حامل تھا- امام زین العابدینؑ نے اس خطبے میں اپنے والد گرامی کی مظلومانہ پر بھی کسی حد تک گفتگو فرمائی۔
شام میں بنی امیہ کے ہاتھوں امیرالمؤمنین حضرت علی بن ابی طالبؑ کی شخصیت اس حد تک تخریب ہو چکی تھی کہ امام زین العابدینؑ کو اس خطبے میں زیادہ تر حضرت علی بن ابی طالبؑ کا تعارف کرانا پڑا اور یہ بہترین موقع تھا کہ امام زین العابدینؑ بنی امیہ کے ہاتھوں چالیس سال تک تخریب شدہ حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کی حقیقت کو لوگوں کے سامنے بیان کریں۔ امام زین العابدینؑ کے دوٹوک اور روشنگرانہ خطبے نے حکومت یزید کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ آپؑ کے خطبے سے مسجد میں موجود لوگ بہت متأثر ہوئے۔ امام زین العابدینؑ نے اپنا تعارف کراتے ہوئے اس قدر “انا انا” فرمایا کہ حاضرین دھاڑیں مار مار اور فریادیں کرتے ہوئے رونے لگے اور یزید شدید خوف و ہراس کا شکار ہوا کہ کہیں لوگ اس کے خلاف بغاوت نہ کریں پس اس نے مؤذن کو حکم دیا کہ جلدی سے اذان دے اور اس طرح اس نے امام (؏) کا کلام قطع کردیا۔ موزن نے اذان دی اور جب موزن ” أشهد أن محمدا لرسول الله” پر پہنچا تو امام زین العابدینؑ نے سر سے عمامہ اتارا اور مؤذن سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے مؤذن! تمہیں اسی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا واسطہ، یہیں رک جاؤ لمحہ بھر، تا کہ میں ایک بات کہہ دوں؛ اور پھر منبر کے اوپر سے یزید سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: اے یزید! کیا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میرے نانا ہیں یا تمہارے؟ اگر کہو گے کہ تمہارے نانا ہیں تو جھوٹ بولوگے اور کافر ہوجاؤ گے، اور اگر سمجھتے ہو کہ آپ ﷺ میرے نانا ہیں تو بتاؤ کہ تم نے ان کی عترت اور خاندان کو قتل کیوں کیا؟ اور تم نے میرے والد کو قتل کیا اور ان کے اور میرے خاندان کو اسیر کیوں کیا؟ اس کے بعد مؤذن نے اذان مکمل کرلی اور بعد ازاں نماز ظہر ادا ہوئی۔ بعض مورخین کے نزدیک جب امام نے یزید سے سوال کیا کہ کیوں تو نے ان (رسول ﷺ) کے اہل بیتؑ کو شہید کیا؟۔ یہ سن کر یزید یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ مجھے نماز سے کوئی واسطہ نہیں”۔
امام زین العابدینؑ کے خطبے کے بعد محفل میں موجود ایک یہودی نے یزید بن معاویہ کو برا بھلا کہا اور اپنے پیغمبر ﷺ کی بیٹی کی اولاد کو اس طرح مظلومانہ طور پر شہید کرنے پر اس کی یوں مذمت اور سرزنش کی:
”خدا کی قسم اگر ہمارے نبی موسی ابن عمرانؑ کی کوئی اولاد ہمارے پاس ہوتی تو ہمارا یہ گمان ہے کہ ہم ان کی پرستش کی حد تک احترام کرتے۔ لیکن تم لوگ! تمہارا نبی کل اس دنیا سے چلا گیا ہے اور آج ان کی اولاد پر حملہ آور ہوئے ہو اور اسے تہ تیغ کر ڈالے ہو؟ افسوس ہو تم لوگوں پر!
حوالہ جات:
(1) بحارالانوار، جلد45، صفحہ174۔
(2) عوالم، جلد17، صفحہ409۔
(3) حیاۃ الحسین، صفحہ386۔
(4) ناسخ التواریخ، جلد2، صفحہ 167۔
(5) مفضل خوارزمی، جلد2، صفحہ69۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں