ذیابیطس کا عالمی دن اور آگاہی ۔۔۔ چودھری محمد عرفان چھینہ

۱۴ نومبر کو پوری دنیا میں ذیابیطس کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور ذیابیطس کے بارے میں اگاہی کیلئے مختلف پروگرامز ترتیب دئیے جاتے ہیں۔ اسی دن کی مناسبت سے آئیے دیکھتے ہیں کہ ذیابیطس کیا ہے اور اس کے بارے میں آگاہی کتنی ضروری ہے۔

ہم جو خوراک کھاتے ہیں، وہ بعد از ہضم مختلف نیوٹرینٹس کی شکل میں خون میں شامل ہو کر جسم کے ہر ہر حصے میں پہنچتی ہے۔ ان نیوٹرینٹس میں سے گلوکوز کو مسلز تک رسائی کیلئے ایک ہارمون انسولین کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ انسولین ہمارا لبلبہ تیار کرتا ہے۔ انسولین مسلز میں موجود اپنے ریسیپٹرز پر چابی کے طور پر اثر انداز ہوتی ہے اور مسلز میں موجود گلوکوز کے داخلی دروازے کھل جاتے ہیں اور گلوکوز خون سے جسم میں پہنچ جاتا ہے اب اگر انسانی لبلبہ
۱) انسولین کم بنانا شروع کر دے
۲) انسولین بالکل نہیں بنائے
۳) انسولین اپنے ریسیپٹرز پر صیحیح طور پر اثر نہ کر سکے
تو ان وجوہات کی وجہ سے گلوکوز کے لیول خون میں بلند ہو جاتے ہیں اور اس حالت کو ذیابیطس کہتے ہیں ۔

ہر مریض میں ذیابیطس کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں اور اسی وجہ کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر حضرات مختلف طریقہ علاج تجویز کرتے ہیں ۔ ذیابیطس کے مریض کو علاج کے ساتھ ساتھ پرہیز کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔ اور مریض کا یہ چیز سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اس بیماری کا مکمل علاج ابھی تک ممکن نہیں ہے اور اس کی صرف مینجمنٹ کر کے ہی بہتر زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ اکثر ترقی یافتہ ممالک میں شوگر سپیشلسٹ کی معاونت کیلئے ڈائیابٹیز ایجوکیٹر ضرور موجود ہوتا ہے۔ ڈاکٹر مریض کو ادویات تجویز کرتا ہے اور ڈائیابٹیز ایجوکیٹر مریض کو نسخہ، پرہیز، متوازن غذا اور ورزش کے بارے میں مکمل راہنمائی فراہم کرتا ہے۔

پاکستان میں بھی اکثر ڈاکٹر حضرات کے پاس اتنا وافر وقت موجود نہیں ہوتا، اس لیے وہ صرف نسخہ تجویز کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ایک ڈینش ارگنائزیشن "نووو نارڈسک" پاکستان میں "نووو کیئر" کے نام سے ایک پروگرام شروع کر چکی ہے اس رفاہ عامہ کے پروگرام کے تحت سو سے زیادہ ایجوکیٹر مختلف ہسپتالوں میں مریضوں کو مفت ایجوکیٹ کر رہے ہیں اور امید کی جا رہی ہے کہ اس پروگرام کے شروع ہونے سے آنے والے دنوں میں ذیابیطس کے خلاف جنگ میں کافی مدد ملے گی۔ ایسے پروگرامز کی عوامی اور حکومتی دونوں سطح پر پذیرائی ہونی چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اکثر اوقات ذیابیطس کا مریض مختلف قسم کے عطائی ڈاکٹروں کے جھانسے میں آکر اپنا علاج معالجہ چھوڑ دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ مختلف قسم کی پیچیدگیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس کی بیماری کنٹرول کرنا پھر کافی مشکل ہوتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عطائی ڈاکٹروں سے علاج کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی کی جائے۔ نصف سے زیادہ ذیابیطس میں مبتلا ایسے افراد ہیں جو اپنی بیماری کے بارے میں لاعلم ہیں۔ ایسے افراد جن کی فیملی میں کوئی فرد ذیابیطس میں مبتلا ہو یا جن کا وزن ایک مقررہ حد سے زیادہ ہو، ان افراد کو چاہیے کہ گاہے بگاہے اپنے شوگر لیول چیک کرواتے رہیں اور کسی بھی علامت کی صورت میں مستند ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply