جشن ولادت بابا جی سرکار

دن تھا 10 اگست کا اور سن شاید قبل از مسیح یا شاید بعد از مسیح تھا ،کہ سرزمین پاک و ہند پر ایک روشن ستارہ نمودار ہوا۔ سرزمین پاک و ہند اس لئے کہا کہ سن کے بارے میں مورخ اور دانشور دونوں خاموش ہیں۔ سواۓ راوی کے، لیکن تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب جب کسی علاقہ میں ظلم و ستم کا، کاروبار گرم ہوا اور عوام عیاشیوں کے ساتھ ساتھ لہو و لعب کی محافل میں غرق ہوئے، تب تب اس دنیا فانی میں بزرگوں کی آمد ہوئی اور ان میں سے ایک میرے پیر و مرشد بابا جی سرکار بھی ہیں۔ بابا جی کی ولادت اس زمانے کی عزت دار رانگڑ فیملی میں ہوئی اور اسی مناسبت سے نام کے ساتھ رانا لگایا جاتا ہے، بابا جی کے آباؤاجداد کا جدی پشتی کام گھوڑے پالنا اور ہمیشہ جنگی حالت میں رہنا تھا جس کے باعث گھوڑے ہی ان کا اوڑنا بچھونا تھا، کیا گھوڑے کھائے بھی جاتے تھے؟ اس بارے میں کسی قسم کے شواہد موجودہ تاریخ میں اب تک نہیں ملے۔
بابا جی سرکار کے والد محترم ایک قاضی تھے ( جج کا لفظ اس لیے استعمال نہیں کیا کیونکہ اس زمانے میں واٹس ایپ ایجاد نا ہوا تھا) پڑھے لکھے گھرانے میں پیدا ہونے کا فائدہ یہ ہوا کہ سرکار کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے جگہ جگہ خوار نہ ہونا پڑا، ہوش سنبھالنے کے بعد ( ویسے آپس کی بات ہے کہ سرکار ابھی تک ہوش میں نہیں آئے کیونکہ ایک ناہنجار چرواہن نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایسی پلا دی کہ مرشد ابھی تک بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں) پڑھائی لکھائی کے چکروں میں پڑ گئے (یاد رہے چکر پڑھائی کے ہیں) اور جیسے ہی ہاتھ پاؤں نکالے تو دوسرے امیر زادوں کی طرح دنیا کی رنگینیوں میں کھونے لگے (کیونکہ رانگڑوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کے شراب کی بھٹیاں ایسے لگاتے ہیں جیسے لوگ گھروں میں پانی کا سرکاری نل) تو ان کو ایک رات خواب میں بشارت ہوئی (اب اس کو مولانا طاہر القادری والے عالم رویا کی تعلیم مت سمجھ لیجیے گا) کہ تمہیں ایک مقصد کے ساتھ اس زمین پر بھیجا گیا ہے اور تم کن کاموں میں پڑ گئے ہو ۔بابا جی سرکار نے سب چیزیں ایک طرف کر کے سگریٹ کو چنا (سادہ) اور لوگوں کے ساتھ بحث و مباحثہ اور مناظرے شروع کیے اور جلد ہی سولہویں گریڈ کے مفکروں میں شمار ہونے لگا، پڑھنا لکھنا اور بولنا ان کی گھٹی میں شامل تھا اور ایک شعر
“پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے”
اتنا پسند آیا کہ وکیل بننے کا فیصلہ کرلیا، اور لوگوں کے مسائل حل کرنے شروع کر دیے ( شنیدم ہے کہ اس کام میں بھی ہمیشہ خوبصورت خواتین کی ہی دلجوئی کی میرے منہ میں خاک)
اس اثنا میں بزرگی کی منازل بھی طے کرتے گئے اور کچھ ہی عرصہ میں عالم رویا میں تعلیم کا سلسلہ جاری و ساری رہا، ایک دن صبح اٹھے تو اعلان کیا کہ آج سے ایک نئی سلطنت “مکالمہ” کا اعلان کیا جاتا ہے اور باشعور عوام کو اس میں مفت پلاٹ دینے کا اعلان بھی کردیا ۔وہ دن اور آج کا دن ،مرشد بابا جی سرکار اپنی اس سلطنت کی حفاظت کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں، بہت سی قریبی ریاستوں نے اس ریاست پر لشکر کشی کی اور بہت سی بغاوتوں کا سر کچلنے کے لیے بابا جی سرکار نے ف ب کو ہی پرکھوں کا گھوڑا سمجھ کر ایڑھ لگائی اور قریبی ریاستوں پر حملہ کیا۔ اسی تنگ و دو اور مسلسل دبائو کے تحت سر کے تقریبا ًسارے بال اڑ چکے ہیں اور سرکار کی والدہ ماجدہ کو ان کی شادی کا غم ستائے جا رہا ہے، اور بابا جی سرکار کپتان کی طرح اس معاملے میں
“ٹک ٹک دیدم دم نا کشیدم”
اور ہمیں کبھی کبھی ڈر لگتا ہے کسی دن کوئی گوری ان کے میسجز لے کر منظر عام پر نا آ جائے اور اور۔۔۔۔۔
باتیں تو اور بھی بہت سی ہیں لیکن تھوڑے کو بہت جانیں اور “مکالمہ “کے روح رواں انعام رانا کو ان کے جنم دن کی مبارک باد دیں۔

Facebook Comments

حسام دُرانی
A Frozen Flame

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply