انتہا پسندی اور رد عمل کی نفسیات (2)

(مضامین کا یہ سلسلہ مغرب کے ساتھ ہمارے پیچیدہ تعلق کے نفسیاتی پہلوؤں کی یافت کی ایک کوشش ہے۔ استعمار کا جبر اور اسکے نتیجے میں تشکیل پاتی ردعمل کی نفسیات کا جائزہ مسلم دنیا بالعموم اور پاکستان کے مخصوص سیاسی اور سماجی حالات کے تناظر میں لینے کی ایک درسی کاوش ہے۔ کل تیرہ اقساط میں یہ سلسلہ مکمل ہو گا۔” مصنف)
مجھے یقین ہے کہ ہر لکھنے والا بالعموم اور مجھ سا مرفوع القلم با لخصوص، تحریر چھپنے کے بعد اسے پڑھ کر اپنی لغزشوں پر پچھتاتا ضرور ہوگا۔ گزشتہ تحریر میں ایک لفظ ”مغرب دشمنی” لکھتے ہوے اس بات کا پورا احساس تھا کہ یہ ترکیب میرے خیال سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اس احساس کا اظھار اور اپنی کوتاہ علمی کا اعتراف بھی اسی وقت کر لیا تھا۔ بعد میں یاد آیا کہ نوآبادیاتی Colonial نظام پر لکھنے والے مفکرین نے ایک انتہائی مؤثر اور موزوں اصطلاح استعمال کی ہے جو شاید میرے خیال کی بہتر ترجمانی کرے۔ اور وہ ہے The Other۔ میری بے بضاعتی ایک مرتبہ پھر رکاوٹ ہے۔ غلط ہی سہی مگر مجھے اجازت دیں کہ میں اس کا ترجمہ ”غیر” کروں ۔ اس اصطلاح کو وجودی فلاسفہ مَثَلاً ژاں پال سارتر Sartre ماہرین اخلاقیات جیسے کہ لیوی ناس Levinas، فرانسیسی ماہر نفسیات ژاک لاکان Lacan اور برطانوی ماہر طب نفسی آر ڈی لینگ R۔ D۔ Laing نے بھرپور طریقے سے استعمال کیا ہے۔ ہمارے مسلمان فقہا، صوفیا ​اور متکلمین نے بھی اس اصطلاح کو استعمال کیا ہے جس کے بیان کا یہ موقع نہیں ہے تاہم غالب کا مصرع دوہرانے میں حرج بھی نہیں ہے۔
“بیٹھے ہیں رہگزر پہ ہم غیر ہمیں اٹھاے کیوں”
“لاکان” (مشہور فلسفی و مصنف) کے بیان کردہ مفہوم کو مفکرین اور مصنفین نے نوآبادیاتی نظام کے نفسیاتی پہلووں کی وضاحت کے لئے استعمال کیا ہے۔ جس سے لاکان کے مفہوم کی وسعت یقیناً متاثر ہوئی ہے۔ تاہم جو کچھ یہ طالب علم عرض کرنا چاہتا تھا، وہ نو آبادیاتی نظام پر لکھی جانے والی تحریروں میں بیان کردہ مفہوم سے قریب ہے۔ نو آبادیاتی نظام کے ناقدین نے ”غیر” کی اصطلاح کو نوآبادیاتی حکمرانوں Colonizers اور ان کی رعایا Colonized کے درمیان موجود ایک پیچیدہ تعلق کو بیان کرنے کے لئے استعمال کیا ہے۔ محبت اور نفرت کے جذبوں میں گندھا یہ تعلق نہ اگلتے بنتا ہے اور نہ نگلتے۔ نہ تو اس “غیر” کے بغیر جیا جاتا ہے اور نہ اس کے ساتھ۔۔۔۔۔۔​
میں دولتمند ممالک کی مالی امداد کی جانب اشارہ نہیں کر رہا بلکہ اس نفسیاتی بندھن کی بات کر رہا ہوں جو ہم نے ایک قوم اور ایک بکھرے ہوے ​منتشر ​معاشرے ​کی حیثیت سے ​چند اقوام کے ساتھ استوار کر لیا ہے۔ ان کی ترقی اور دیگر اوصاف کا حصول ہماری منزل مراد ہے۔ ان کی کامیابیاں نہ صرف ہمیں کچھ کرنے پر اکساتی ہیں بلکہ نشان منزل کا تعیین بھی کرتی ہیں۔ لیکن ان سے روا رکھی جانے والی خصومت و عداوت بھی اپنی بلندیوں پر دیکھی جا سکتی ہے۔ ​کبھی ان کامیابیوں کی نفی ان کو ان کی آزادی کا ​​طعنہ دے کر کی جاتی ہے اور کبھی یہ بتا کر کہ ان ساری کامیابیوں کی بنیاد ہم نے ایک صدی پہلے فراہم کر دی تھی ۔
یہ اقوام تو ایک طرف، اگر وہ کسی ہمارے اپنے ​کی تعریف ​ہی ​کر دیں تو ہمیں وہ بھی صف دشمنان میں دکھائی دہنے لگتا ہے۔ ملالہ یوسف زئی اور شرمین عبید اس کی تازہ مثالیں ہیں۔ ان اقوام سے اقتصادی، معاشرتی، علمی اور عسکری ترقی میں پیچھے رہ جانے کا احساس بھی چین نہیں لینے دیتا لیکن اس ضعف کا احساس اور اعتراف بھی تشنج پیدا کردیتا ہے۔ یہ اقوام ہمارے لیے ایک ایسا ”غیر” بن جاتی ہیں جو لائق تقلید بھی ہیں اورنفرت کی حقدار بھی۔ ہندوستان کے ایک انتہائی قابل احترام ماہر نفسیات اور مفکر جناب “اشیش نندی” نے اپنی کتاب کا نام The Intimate Enemy غالباً اسی تعلق کو بیان کرنے کے لیے تجویز کیا ہوگا۔
​اب ذرا اجازت دیں کہ میں اپنی بات کو دوہراتے ھوے آگے بڑھنے کی کوشش کروں۔۔۔۔ مغرب دشمنی کی اصطلاح کو غیر کی دشمنی سے تبدیل کیجئے۔ یہ “غیر” اصل میں ایسا واقف حال دشمن ہے جو ہمیں ہم سے زیادہ جانتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں تحسین ہماری اچھائی اور بڑائی کا حوالہ بن جاتی ہے۔ اپنے بزرگوں کی شان میں اس ”غیر” کے الفاظ ہمارے بڑوں کی ثقاہت کا ثبوت بن جاتے ہیں۔ لیکن جیسے اس ”غیر” کی نظر ہماری کسی کوتاہی پر پڑتی ہے، یہ غیر اپنا تمام اعتبار کھو بیٹھتا ہے۔ ہماری معاشرتی اقدار، عقائد و افکار، رهن سہن کے طریقے اور تو اور ہماری سرحدیں اس غیر کے ہاتھوں ہر وقت غیر محفوظ رہتی ہیں۔
ہماری نوجوان نسل نے عملاً اس غیر کی اقدار کو ترقی کی ضمانت سمجھ لیا ہے لیکن ذہنی طور ان اقدار کو اختیار کر کے وہ احساس گناہ میں مبتلا رہتا ہے۔ ان اقدار سے جنگ کرتا ہے نتیجتاً ایک تضاد کا شکار ہوتا یہ تضاد تین ممکنہ صورتیں اختیار کرتا ہے۔ اپنی ثقافت اور اقدار سے مکمل لا تعلقی، تضاد کی شکار گھٹن سے آلودہ زندگی، یا پھر انتہا پسندی۔ اعلیٰ تعلیم کے مشہور اداروں کے طلبا کی دہشت گردی اسی احساس گناہ کا شاخسانہ ہے۔ لاوڈ سپیکر اور ٹی وی جیسی ایجادات پر ہمارے اولین روئیے تو اب ماضی کا قصہ ہو گئے، اب تو علم کی تعریف تبدیل ہو گئی ہے۔ صورت حال کی گھمبرتا کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ایک طرف میرے اور غیر کے درمیان فاصلہ بڑھ رہا ہے اور دوسری طرف غیر کی گرفت مجھ پر سخت سے سخت ہو رہی ہے۔ یقین مانیے ایک بے پایاں خوف محسوس کرنے کے لیے فقط یہ احساس ہی کافی ہے۔ یہ خوف ہمیں ہر آن غیر محفوظ ہونے کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ یہ احساس ہمیں مجبور کرتا ہے ہم ماضی کی طرف واپس جائیں جہاں ہم محفوظ تھے۔ ماضی کے نظریات اور کرداروں کے احیا کی بنیادی وجہ آج کے ”غیر” کا خوف ہے۔ ایک غیر محفوظ انسان اور معاشرہ ہر کسی کو خوف بھری نگاہ سے دیکھتا ہے۔ نفسیات کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ خوف زدہ ذہن حالات کا ادراک خوف زدگی کی حالت میں کرتا ہے اور غلطیاں کرتا ہے۔ معاف فرمایے گا اگر دودھ جلے کی مثال یہاں صادق نہ آتی ہو مگر حالت کچھ ایسی ہی ہے بیگانے تو بیگانے ہمیں تو اپنے بھائی بند بھی اپنے دشمن دکھائی دیتے ہیں۔ دشمن تلاشنے اور دشمن تراشنے کی مسلسل اور انتھک کوشش ہماری نفسیات کے خد و خال ترتیب دیتی ہے۔
نوآبادیاتی نظام پر تنقید کے ضمن میں سب سے پہلی توانا آواز “فرانز فینوں” (Franz Fanon) کی تھی۔ ہم اس نابغہ کے خیالات پر آگے چل کر گفتگو کریں گے۔ فینون کی مشہور زمانہ کتاب “افتادگان خاک” پر “ژاں پال سارتر” کا مقدمہ تو ہم سب کو یاد ہے۔ فینوں نے اور بھی کئی مقامات پر ژاں پال سارتر کو نقل کیا ہے۔ اس نے اپنے مضمون “سیاہ فامی کی حقیقت” میں یہودیوں اور یورپ میں ان کے بارے میں موجود تعصب پر ژان پال سارتر کی راے سے استفادہ کیا ہے۔۔ سارتر نے یہودیوں کی اس ذہنی حالت پر تبصرہ کیا ہے جو نفرت انگیز نظریات، رویے اور تعصبات کا سامنا کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوئی تھی۔ ان متعصبانہ الزامات کو غلط ثابت کرنے کے بجاے یہودیوں کا طرز عمل ان الزامات کی تصدیق کا ذریعہ بنتا چلا گیا۔ ایک طرف یہ خوف کہ کہیں یہ الزامات سچ نہ ثابت ہوں، دوسری طرف طرز عمل مسلسل الزامات کی گواہی دے رہا تھا۔ 1946 میں شایع ہونے والے ژان پال سارتر کے مضمون نے جس ذہنی حالت کی نشاندہی کی تھی کیا ہماری صورتحال ایسی ہی ذہنی حالت کی عکاسی نہیں کر رہی؟۔ دنیا بهر میں ہم جن ناموں، کاموں اور رویوں کی وجہ سے بدنام کئیے جاتے ہیں، مثال کے طور پر تشدد اور انتہا پسندی ۔۔۔ کیا ہم نے ان الزامات کو اعزاز سمجھ کر تسلیم کر لیا ہے؟ اگر نہیں تو کیا ہمارا عمل اور ہمارے رویے ان الزامات کی تائید کرتے ہیں یا تصدیق؟ یہ جاننے کے کسی بھی اخبار کی خبریں اور اس میں چھپنے والی تحریروں کا مطالعہ کافی ٹھہرے گا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ سیریز اس سے قبل ہم سب پر بھی شائع ہو چکی ہے۔ ​

Facebook Comments

اختر علی سید
اپ معروف سائکالوجسٹ اور دانشور ہیں۔ آج کل آئر لینڈ میں مقیم اور معروف ماہرِ نفسیات ہیں ۔آپ ذہنو ں کی مسیحائی مسکان، کلام اور قلم سے کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply