مثبت تنقید کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔عامر ہاشم خاکوانی

نئی وفاقی کابینہ پرہونے والے اعتراضات میری سمجھ سے بالاتر ہیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہمارے فیس بکی دانشور، تجزیہ کار نجانے سچ مچ میں اتنے بھولے ہین یا پھر وہ لکھتے وقت زمینی حقائق بھول جاتے ہیں؟ حیرت ہوتی ہے کہ جب ایک چیز نظر آ رہی ہوتی ہے، اس وقت یہ گم صم خاموش رہتے ہیں، جب ہوجائے تو اچانک ہی شور مچانا شروع کر دیتے ہیں۔
اب اسی کابینہ کو دیکھ لیں، سیاسی معاملات میں معمولی سی بھی دلچسپی رکھنے والا جانتا تھا کہ اگر تحریک انصاف کی حکومت بنی تو اس میں شاہ محمود قریشی وزیرخارجہ ہوں گے، ڈاکٹر شیریں مزاری، شفقت محمود، شیخ رشید، فواد چودھری، غلام سرور خان، وغیرہ لازمی وزیر ہوں گے، کیوں؟َ اس لئے کہ یہ تحریک انصاف کے مرکزی لیڈر ہیں اور پچھلے چند برسوں میں لڑی جانے والی سیاسی جنگ میں فرنٹ پر آ کر لڑے ہیں۔ ن لیگ کے تیر انہوں نے سہے، ان کے جواب یہی دیتے رہے۔ شیریں مزاری ، شیخ رشید وغیرہ سے ن لیگ کو بڑی تکلیف رہی، وجہ صاف ظاہر ہے۔ فواد چودھری ن لیگ کے حامیوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا، کیونکہ وہ ان کے حملوں کا جواب دیتا رہا۔ بابر اعوان کو کوئی لاکھ ناپسند کرے، مگر  اب وہ تحریک انصاف کا حصہ ہے اور ن لیگ کا جواب دینے والوں میں سرفہرست۔ پی ٹی آئی کی میڈیا پرجنگ لڑنے والوں میں بابر اعوان شامل ہیں۔ دو تین اور نام شامل تھے، علی محد خان، مراد سعید وغیرہ، اگلے کسی مرحلے میں ممکن ہے وہ بھی وزیر بنائے جائیں ۔ ہر کوئی جانتا تھا کہ اسد عمر ہی تحریک انصاف کی وزارت خزانہ چلائیں گے ، پارٹی کا اکنامک ویژن اسد عمر ہی کا مرہون منت رہا ہے۔ عامر کیانی شمالی پنجاب کے صدر رہے، پارتی کے پرانے ساتھی ہیں، پوٹھوہار میں تحریک انصاف نے کلین سویپ کیا، وہان سے نمائندگی ملنا ہی تھی۔

ایک اعتراض یہ کیا جا رہا ہے کہ نوجوان وزرا نہیں ہیں۔ بھائی سیدھی بات ہے کہ حکومت چلانے کے لئے تجربہ کار لوگ چاہئیں، تحریک انصاف میں دستیاب بہترین لاٹ میں سے یہ لوگ لے لئے گئے تاکہ اہم وزارتیں یہ چلائین اور ڈیلیور کر سکیں۔ نوجوانوں کو لازمی شامل کیا جائے گا، یہ کابینہ کا پہلا مرحلہ ہے، اس سے عمران خان کا مائنڈ سیٹ ظاہر ہوا کہ اس نے ایڈونچر کرنے کے بجائے اچھے، تجربہ کار لوگ لئے ۔ نوجوان بطور وزرا مملکت لئے جائیں گے، اگلے مرحلے پر فیصل آباد کے فرخ حبیب، ڈی جی خان کی زرتاج گل، کے پی سے مراد سعید، لاہور سے حماد اظہر وغیرہ جیسے نوجوانوں مین سے بھی چند ایک کو موقعہ ملے گا، مگر تحریک انصاف کے پاس وقت ضائع نہیں اور وہ تجربات میں اپنا یہ چانس نہیں ضائع کرنا چاہتی۔ یہ درست حکمت عملی ہے۔ خزانہ اسد عمر، خارجہ شاہ محمود قریشی ، داخلہ عمران خود، زیادہ سے زیادہ ایک وزیر مملکت رکھ لے گا، تعلیم شفقت محمود، دفاع پرویز خٹک، اطلاعات فواد چودھری، ریلوے شیخ رشید کو دئیے گئے ، یہ آسانی سے چلا لیں گے ، وقت ضائع کئے بغیر ڈیلیور کر سکتے ہیں ۔ ویسے ابھی پانچ وفاقی وزیر مزید بھی بنانے ہیں، ان کا بھی انتظار کر لینا چاہیے۔ بہاولپور سے فاروق اعظم ملک، رحیم یار خان کے خسرو بختیار، اٹک سے طاہر صادق وغیرہ سے کسی کو لیا جا سکتا ہے۔ گوجرانوالی، سیالکوٹ، سرگودھا سے ان کا ایم این اے ہے ہی نہیں تو کیسے بنائے، ان علاقوں کو صوبائی کابینہ میں نمائندگی مل سکتی ہے ۔

اس کابینہ پر یہ اعتراض کہ اس میں پرویز مشرف کے لوگ شامل ہیں، یہ بات بیکار اور غیر منطقی ہے۔ بھائی لوگو تحریک انصاف کا حقیقی جنم ہی تیس اکتوبر دو ہزار گیارہ کے جلسے کے بعد ہوا۔ اس میں تب میٹر کرنے والے لوگ شامل ہوئے۔ شاہ محمود قریشی ہوں، جہانگیر ترین، غلام سرور خان، شفقت محمود، شیریں مزاری ، خورشید قصوری وغیرہ وغیرہ۔ تحریک انصاف اس سے پہلے تو فین کلب ہی تھا، اگر اس وقت کے پارٹی لیڈرز میں کچھ دم خم ہوتا تو دو ہزار دو میں پارٹی کا ایسا برا حال نہ ہوتا۔ دو ہزار گیارہ کے بعد شامل ہونے والے لوگ ہی تحریک انصاف ہے، یہی پارٹی مئی تیرہ کے انتخابات میں ستر لاکھ ووٹ لے کر جیتی اور اس میں کچھ مزید لوگ شامل ہوئے، جس کے بعد اسی پارٹی ہی نے جولائی کا معرکہ جیتا۔ اسی پارٹی کے لوگ ہی کابینہ میں لئے جائیں گے، خواہ ماضی میں وہ مشرف کے ساتھ تھے یا نواز شریف، ضیا ، بھٹو کے ساتھی تھے ۔ جو لوگ پچھلے پانچ سالہ ن لیگی سیاست کا مقابلہ کرتے رہے، اپنی پارٹی کی جنگ لڑی ، ان کا حق بنتا ہے کہ وہ کابینہ میں لئے جائیں۔ اگر کوئی اعتراض کرنے والا یہ سمجھتا ہے کہ ان لوگوں نے صرف جنگ لڑنا تھی ، پھل کھانے کے لئے کسی خفیہ انقلابی جماعت کے نوجوان آئیں گے تو یہ ان کی سمجھ، دانشمندی اور تجزیے کا قصور ہے، اس کے علاوہ کچھ اور نہیں۔

دوسری بات یہ کہ تحریک انصاف کو الیکشن میں سادہ اکثریت نہیں ملی، وہ سب سے بڑی جماعت تو تھی، مگر سادہ اکثریت لینے کےلئے اسے آزاد امیدواروں کو ساتھ ملانے کے علاوہ پیپلزپارتی، ن لیگ اور ایم ای اےکے سوا دیگر تمام چھوٹی پارٹیوں سے بات کرنا اور اتحادی بنانا پڑا۔ اس کے لئے آسان تھا کہ پیپلزپارٹی سے اتحاد کر لیتی ، ایسی صورت میں اکثریت بھی مستحکم ہوجاتی اور سینیٹ میں بھی آسانی ہوجاتی، مگر عمران خان الیکشن میں اعلان کر چکا تھا کہ وہ ایسا نہیں کرے گا۔ ممکن ہے آگے جا کر ان میں مفاہمت ہوجائے، مگر فوری طور پر عمران خان ایسا کرتا تو ہر ایک نے تنقید کرنا تھی۔ چھوٹی پارٹیوں سے اتحاد کے بعد انہیں وزارتیں دینا مجبوری تھی۔
ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد کر لیا تو کیا انہیں وزارت نہیں دینا تھی؟ جو لوگ آج اس پر تنقید کر رہے ہیں، انہین اس وقت تنقید کرنا چاہیے تھی، جب تحریک انصاف نے ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد کیا۔ اس وقت وہ کوئی متبادل آپشن تجویز کرتے۔ متحدہ کے ساتھ اتحاد کیا تو پھر وزارت تو دینا تھی، جی ڈی اے کے ساتھ اتحاد کیا تو وزارت انہیں ملنا ہی تھی، فہمیدہ مرزا نہ تو کسی اور کو وزیر بناتے، جی ڈی اے کے منتخب ارکان میں سے فہمیدہ مرزا نسبتا اچھی چوائس ہین، اسی طرح بی اے پی کے ساتھ اتحاد کیا تو ظاہر ہے ایک وزارت تو کم از کم دینا تھی، زبیدہ جلال کو اکاموڈیٹ کرنا پڑا۔ تحریک انصاف کے پاس ویسے بھی بلوچستان میں زیادہ نشستیں نہیں، ایک قاسم سوری تھا، اسے ڈپٹی سپیکر بنا دیا۔ اختر مینگل شائد وفاقی وزارت اپنے شایاں شان نہ سمجھیں، وہ وزیراعلیٰ، گورنر کے منصب کا مستحق سمجھتے ہین، ممکن ہے آگے جا کر مینگل صاحب راضی ہوگئے تو انہیں کابینہ میں لے لین۔

ہمارے دوست آصف محمود نے نکتہ اٹھایا کہ قانون کی وزارت فروغ نسیم کو نہ دی جاتی۔ ان کی بات اخلاص پر مبنی ہے کہ بارکونسلر میں وزیر قانون خطاب کرتا ہے تو اسے تحریک انصاف سے ہونا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت تحریک انصاف کے پاس پارلیمنٹ میں اور کوئی مناسب امیدوار نہیں تھا۔ حامد خان ہوتے تو شائد یہ نوبت نہ آتی۔ ویسے فروغ نسیم بطور ایک ٹیکنوکریٹ کے لئے گئے، وہ متحدہ کے اس طرح کے رکن نہین۔ فروغ نسیم کا قانونی موقف پچھلے دو ڈھائی سال سے تحریک انصاف کے موقف سے ہم آہنگ بھی ہے۔ متحدہ کا فیکڑ ہٹا لیں تو یہ بری چوائس نہیں۔
م پرویز مشرف کا دور ہماری تاریخ کا ایک اہم باب ہے، آٹھ نو برس وہ رہے، اس دوران غلطیاں بھی بے پناہ کین، اچھے کام بھی کئے ہوئے، اسمبلی کی موجودہ شکل اسی دور میں بنی، خواتین کو اتنی بھرپور نمائندگی اسی نے دی، مشرف نے کئی اچھے ٹیکنوکریٹ کو ذمہ داریاں دیں، اس میں ان ٹیکنوکریٹس کا کیا قصور جنہیں سول حکومتیں ذمہ داری نہیں دیتیں اور ڈکٹیٹر ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ڈاکٹر عطا الرحمن نے کتنا فعال کردار ادا کیا، مشرف کے بعد دس برسوں میں کسی نے ان سے کام لیا؟ عبدالرزاق دائود ہون، ڈاکٹر عشرت یا اٹارنی جنرل کے لئے انورمنصور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب اچھے انتخاب ہیں۔ عمران خان کو چاہیے کہ ڈاکٹر عطا الرحمن کو بھی ہائر ایجوکیشن کمیشن کا سربراہ بنائے، جس قدر متحرک وہ تھے، ویسا سربراہ اس ادارے کو نہیں ملا۔ اسی طرح دیگر محکموں کے لئے بھی اگر اچھے ٹیکنوکریٹ مل سکیں تو ضرور لین، چاہے وہ مشرف دور کے ہوں یا ضیا دور کے۔ یہ درست ہے کہ اس کابینہ میں دو چار نسبتاً پرو اسٹیبلشمنٹ لوگ شامل ہوئے، مگر یہ حکومت کون سا اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ پہلی بار تو منتخب سول حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں ایک ہی پیج پر ہیں۔ یہ اچھی بات ہے۔ عمران خان یہ سمجھ لیں کہ انیس سو نوے کے نواز شریف ہیں۔ اب یہ معلوم نہیں کہ اپریل ترانوے ان کی زندگی میں آتا ہے یا اس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اتوارکی صبح کئی  جلی کٹی پوسٹیں پڑھنے کے بعد یہ پوسٹ مجبوراً لکھی، اس لئے کہ تناظر درست رہے ۔ تنقید ضرور کی جائے، تحریک انصاف کی نئی حکومت کو مثبت تنقید کی اشد ضرورت ہے، لیکن بلاجواز تنقید کا کوئی فائدہ نہیں، الٹا اس سے منصفانہ ، اصولی تنقید کا دروزہ بند ہوجاتا ہے۔
تحریک انصاف کے حامیوں اور کارکنوں کو سمجھنا چاہیے کہ جو عمران کے مخالف ہیں، انہوں نے اس کے ہر کام میں کیڑے ہی نکالنے ہیں، خواہ وہ کتنا اچھا ہو، انہیں ن لیگیوں اور ایم ایم اے کی ڈس انفارمیشن کمپین میں ٹریپ ہونے کے بجائے اپنے ذہن سے سوچنا اور تجزیہ کرنا چاہیے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply