• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کورونا وائرس! ہم اور عالمِ اسباب۔۔ محمد اسلم خان کھچی

کورونا وائرس! ہم اور عالمِ اسباب۔۔ محمد اسلم خان کھچی

ہم کورونا وائرس کے پہلے فیز سے نکل کے سیکنڈ فیز میں داخل ہو چکے ہیں ۔اللہ کے کرم اور ریاست کی بہترین حکمت عملی سے ہم ابھی تک اس خوفناک وبا کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہےہیں ۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ آئندہ آنے والے خوفناک فیز سے ہم سب کو محفوظ رکھے۔ لیکن اگر قوم کے رویے پہ نظر ڈالی جائے تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس سنگین موقع پر بھی قوم کا اجتماعی رویہ مایوس کُن رہا۔ لاک ڈاؤن کے باوجود بھی اس مصیبت کی sensitivity کو نہیں سمجھ   پا رہے۔ اس موقع پہ پاکستانی میڈیا کا رویہ بھی بہت افسوس ناک ہے بلکہ کبھی کبھی میڈیا کا رویہ دیکھ کے یوں لگتا ہے کہ ان کو اس بات پہ تکلیف ہو رہی ہے کہ پاکستان میں یہ وائرس پھیل کیوں نہیں رہا۔ میڈیا ۔۔” کچھ دکھے گا تو بکے گا”  کی پالیسی پر  گامزن ہے ۔پتہ نہیں ہم کیوں یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ یہ وائرس زید کو پکڑ لے گا لیکن مجھے کچھ نہیں ہو گا۔

اگر ہم تھوڑا سا اٹلی کے حالات پہ نظر ڈالیں تو دل گھبرانے لگتا ہے کہ انسان کو دفنانا تو دور کی بات جلانے کیلئے بھی وسائل ختم ہوتے جارہے ہیں۔ امریکہ جیسی سپر پاور اس وقت بے بس ہو کے اللہ رب العزت کی طرف دیکھ رہی ہے کہ کوئی معجزہ ہو جائے۔۔۔ لیکن بحیثیت قوم ہم ابھی تک اسکی سنگینی کو سمجھنے سے عاری ہیں۔ریاست کے احکامات کی پابندی ہم سب پہ لازم ہے لیکن ہم اس وقت بھی سیاسی دھڑے بندیوں کا شکار ہیں۔ کوئی عمران خان کو بُرا کہہ  رہا ہے۔ کوئی بزدار صاحب کو بُرا کہہ رہا ہے لیکن اگر اس وقت سیاست سے ہٹ کے ایماندارانہ تجزیہ کیا جائے تو اس وقت پوری دنیا میں پاکستان ایک واحد ریاست ہے جو وائرس کے ریپڈ پھیلاؤ کو روکنے میں کامیاب رہی ہے۔۔ آگے کیا ہوتا ہے یہ اللہ رب العزت کی ذات جانتی ہے لیکن اس وقت تک حکومت کی کارکردگی بہترین ہے۔۔

اب اس وائرس کا سیکنڈ فیز شروع ہو گیا ہے جو کہ کافی تباہ کن بھی ہو سکتا ہے ۔اور اس فیز میں آپ کو بے حد احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔۔ میرا مقصد آپ کو ڈرانا نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ آپ کی زندگی آپ کے بچوں کیلئے بہت قیمتی ہے ۔۔۔ اگر آپ نے احتیاط نہ کی تو یہ فیز آپ کیلئے موت کا پیغام لا سکتا ہے کیونکہ وائرس کا ان کوبیشن پیریڈ مکمل ہو چکا ہے اور یہ اب پوری طاقت کے ساتھ ابھر کے سامنے آئے گا اور ہمیں بھی پوری طاقت کے ساتھ اس سے جنگ کرنی ہوگی۔۔۔ لیکن ہم اس کے سامنے آکے اس سے جنگ نہیں کر سکتے کیونکہ یہ وہ دشمن ہے جو نظر نہیں آ رہا۔ ہم بس دفاع کی پوزیشن لے سکتے ہیں۔ بس ہمیں اسکے وار سے بچنا ہے۔۔ اور ہم صرف ایک ہی صورت میں کامیاب ہو سکتے ہیں کہ اگر ہم خود کو گھر میں محفوظ کر لیں۔

اب موجودہ حالات پہ نظر ڈال لیتے ہیں۔ آجکل ملک میں ایک عجیب سی بحث چل نکلی ہے۔ مولانا حضرات اس بات پہ بضد ہیں کہ مسجدوں میں باجماعت نماز ہو گی۔ جمعہ کے اجتماعات ہوں گے۔ ریاست کوشش کر رہی ہے کہ اجتماعات سے اجتناب برتا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری قوم بھی بضد ہے کہ ہم کورونا وائرس کے ڈر سے گھروں میں نہیں رہیں گے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ہمارا ایمان کمزور ہو جائے گا۔جبکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ یہ دنیا کی تیز ترین پھیلنے والی وبا ہے جو ایک انسان سے دوسرے انسان  میں  منتقل ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے لوگ کندھے اچکا کے کہتے”اللہ پہ بھروسہ رکھو، کچھ نہیں ہوتا”یہ کہنے والوں سے بس میری اتنی التجا ہے کہ اگر آپکو اتنا کامل یقین ہے تو اللہ کے واسطے آپ ہسپتالوں میں جائیے اور لاچار مریضوں کی خدمت کیجیے، جن کا اس وقت کوئی پُرسان حال نہیں۔ سوائے ڈاکٹرز اور نرسز کے انکے پاس کوئی نہیں ہوتا،ان کی خدمت کیجیے، اللہ آپ کو جزا دے گا۔

میں کوئی اتنا مذہبی آدمی نہیں اور نہ ہی مذہب کے بارے میں زیادہ جانتا ہوں۔بس لاکھوں مسلمانوں کی طرح ایک عام سا مسلمان ہوں اور نہ ہی میرا مقصد کسی شخصیت کی تضحیک ہے۔ کچھ اسلامی حالات و واقعات کی روشنی میں اس پہ کچھ کہنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ ہمیں اس وقت کسی روحانی معجزے کی بجائے توبہ, معافی, اللہ کی پناہ اور اللہ کے احکامات کے مطابق اسباب کی ضرورت ہے۔
ہم تمام انسان عالم اسباب میں رہتے ہیں۔ اور عالم اسباب میں اسباب کے بغیر انسان بے سبب ہو جاتا ہے۔

آج سبب کے ساتھ کچھ تاریخ پہ بھی لکھنے کو دل چاہ رہا ہے۔ مضمون کی طوالت پہ پیشگی معذرت خواہ ہوں۔۔
دمشق نبئ کریم ﷺ کے وصال کے تین سال بعد 635 عیسوی میں فتح ہوا ۔شہر میں دنیا کی قدیم ترین شاہراہ” صراط مستقیم” کے قریب زمین کا ایک مقدس قطعہ تھا ۔یہ قطعہ زمانہ قدیم سے متبرک چلا آرہا تھا۔ رومیوں نے اپنے دور میں یہاں ایک عبادت گاہ بنائی اور صدیوں تک عبادت کرتے رہے۔ عیسائیوں کا دور آیا تو یہ جگہ انکے قبضے میں چلی گئی ۔ پادریوں کا خیال تھا کہ حضرت عیسیٰ  علیہ السلام جب دنیا میں آئیں گے تو وہ اس مقام پہ اتریں گے۔ پادریوں نے مقام کی نشان دہی کیلئے وہاں ایک چبوترہ بنا دیا ۔شام جب مسلمانوں کے قبضے میں آیا تو یہ جگہ ان کیلئے بھی متبرک رہی۔ یہ جگہ تمام مذاہب کیلئے مقدس رہی۔ خلیفہ ولید بن عبدالملک کا دور آیا تو وہاں دنیا کی عظیم ترین مسجد بنانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن پادری یہ جگہ خالی کرنے کیلئے تیار نہ تھے۔ مذاکرات ہوئے۔ بادشاہ نے دمشق میں شاندار چرچ اور زمینوں کے بدلے پادریوں کو راضی کر لیا۔ ولید بن عبدالملک کو جگہ مل گئی مگر عیسائیوں نے یہ شرط رکھی کہ مسلمان حضرت عیسٰی علیہ السلام کے مقام واپسی کو نہیں چھیڑیں گے۔ خلیفہ نے شرط مان لی اور زمین حاصل کرنے کے بعد وہاں شاندار مسجد تعمیر کرائی۔ تعمیر پہ دس سال لگے اور گیارہ ملین سونے کے سکے خرچ ہوئے۔ یہ مسجد”جامعہ امیہ”کہلاتی ہے۔ عالم اسلام کیلئے ایک متبرک مقام ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک بھی”جامعہ امیہ”  میں دفن ہے۔

مسجد کے تین مینار ہیں اور تینوں میناروں کی ساخت ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ خلیفہ ولید بن عبدالملک نے مسجد کا ایک مینار عین اس جگہ بنوایا جہاں حضرت عیسٰی علیہ السلام اتریں گے۔ یہ مینار سفید رنگ کا ہے اور لوگ اسے مینار عیسی علیہ السلام بھی کہتے ہیں۔ عیسائیوں اور ہمارے مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق دجال شام پر حملہ کرے گا۔ تب حضرت امام مہدی علیہ السلام دمشق تشریف لے آئیں گے مسلمان دجال سے مقابلے کیلئے اکٹھے ہوں گے۔
عصر کا وقت ہو گا۔
بعض روایات کے مطابق فجر کا وقت ہو گا لوگ نماز کیلئے کھڑے ہوں گے۔ صفیں درست ہو رہی ہوں گی۔
اچانک حضرت عیسٰی علیہ السلام دو فرشتوں کے کندھوں پہ ہاتھ رکھے سفید مینار پہ اتریں گے۔ وہ زرد رنگ کی دو چادروں میں ملبوس ہوں گے۔ انکے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوں گے۔
یہ مسلمانوں اور عیسائیوں کا مشترکہ عقیدہ ہے لیکن یہ عقیدہ میرا موضوع نہیں۔
میرا موضوع حضرت عیسٰی علیہ السلام کا دنیا میں تشریف لانے کے بعد عام لوگوں سے پہلا مکالمہ ہے۔
حضرت عیسٰی علیہ السلام۔۔۔ جامعیہ امیہ۔۔۔ میں موجود لوگوں کو حکم فرمائیں گے کہ سیڑھی کا بندوبست کیا جائے۔میں مینار سے نیچے اترنا چاہتا ہوں۔
لوگ یہ مطالبہ سن کر مسکرا دیں گے اور عرض کریں گے
حضور آپ آسمان سے زمین پر تشریف لے آئے لیکن آپ کو مینار سے اترنے کیلئے سیڑھی کی ضرورت ہے۔ کیا یہ عجیب بات نہیں ؟
حضرت عیسٰی علیہ السلام جواب دیں گے
“میں اس وقت عالم اسباب میں کھڑا ہوں اور عالم اسباب میں آپ ہوں یا میں۔۔۔ ہم اسباب کے محتاج ہیں ”
لوگ یہ سن کر سبحان اللہ سبحان اللہ کہیں گے اور حضرت عیسٰی علیہ السلام سیڑھی کے ذریعے زمیں پہ قدم رنجہ فرمائیں گے۔
حضرت عیسٰی علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ یہ عالم اسباب ہے۔ کتابوں میں جب یہ واقعہ پڑھا تو عالم اسباب کی ساری تھیوری سمجھ میں آ گئی۔
یقین کیجیے۔۔
ہم مسلمان خوفناک حد تک ذہنی , نفسیاتی , اور روحانی مغالطے کا شکار ہیں۔ ہم پوری زندگی روحانی معجزوں کا انتظار کرتے ہیں اور اس انتظار میں یہ تک فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ   علیہ السلام اپنے عصا سے سمندر کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے تھے لیکن وہ بھی اپنی امت کیلئے عالم اسباب کے تقاضے نرم نہ کر سکے۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام مردوں کو زندہ کر دیتے تھے لیکن وہ بھی رومن ایمپائر کے اسباب کا مقابلہ نہ کر سکے۔

اب ہم نبئ اکرم ﷺ کی زندگی پہ نظر ڈال لیتے ہیں۔
آپﷺ اللہ تعالی ٰ کے آخری اور محبوب ترین نبی  ہیں۔
لیکن آپ ﷺ   کو بھی عالم اسباب میں تلوار, گھوڑے, زرہ بکتر , اونٹ , پانی, خوراک , لباس کا بندوبست کرنا پڑا۔
اپنا دفاع کرتے رہے۔ جنگیں لڑتے رہے اور پیٹ پر دو دو پتھر بھی باندھتے رہے۔ آپ کو بھی دوستوں, ساتھیوں اور معاہدوں کی ضرورت پڑتی رہی۔ تجارت بھی فرماتے رہے۔ اپنے حسب نسب پہ فخر کرتے رہے اور اپنے گھر آباد کرتے رہے۔

آپ کسی دن فرقے اور مسلک کی عینک اتار کر سیرت النبی کا مطالعہ کریں۔
آپ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ ہمارے نبی  کریم ﷺ  نے کبھی زندگی میں کوئی Sub-Slandered چیز استعمال نہیں کی،دوست بنائے تو شاندار لوگوں کا انتخاب کیا
غلام, خادم چُنے تو تہذیب, شائستگی اور مروت کے شاہکار پسند آئے۔
آپ ﷺ  نے پوری زندگی کمزور تلوار نہیں خریدی۔نہ ہی کمزور گھوڑے اور لاغر اونٹ پہ سفر کیا،ہمیشہ صاف ستھرا اور بے داغ لباس پہنا،اور شہر بھی معتدل, پُر فضا اور مرکزی پسند کیا۔
آپ ﷺ  نے عالم اسباب میں اسباب کا پورا خیال رکھا۔ اچھا کھانا کھایا ۔اچھے لوگ پسند کیے اور اس دور کی شاندار ٹیکنالوجی استعمال کی۔
آپ غور کیجیے۔۔
عرب لوگ حملہ آوروں سے مقابلے کیلئے دور نہیں جاتے تھے لیکن آپ ﷺ  جنگ بدر کے موقع پر مدینہ سے 156 کلومیٹر دور بدر کے میدان میں خیمہ زن ہوئے۔غزوۂ احد کے موقع پہ اُحد پہاڑ پہ گئے۔عربوں کی تاریخ میں پہلی بار مدینہ کے گرد خندق کھدوائی۔

یہ سب کیا تھا؟۔عالم اسباب میں اسباب کی بہترین مثالیں تھیں ۔ چاہتے تو عرب کے تمام پہاڑ سونے میں تبدیل ہو جاتے۔لیکن نہیں۔۔۔ اسباب کا خیال ضروری تھا۔
دندان مبارک شہید ہوئے۔ طائف میں زخمی بھی ہوئے۔ بیمار بھی ہوئے۔ جادو بھی ہوتا رہا ۔ زہر کا اثر بھی ہوا , جادو کے اثر سے نکلنے کا بندوبست بھی کرتے رہے۔ بیماری سے پناہ بھی مانگی اور اپنی امت کیلئے غربت, بیماری اور آفات , وباؤں سے خدا کے حضور رو رو کے التجائیں کرتے رہے۔ پناہ مانگتے رہے۔
آپ ﷺ  نے اسباب کی بہترین مثال پیش کی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ عالم اسباب کے وہ سبب ہیں جن سے کوئی ذی روح آزاد نہیں۔ ہم عالم اسباب کے محتاج ہیں۔ ہمیں لڑنے کیلئے اچھی تلواروں, اچھے گھوڑوں, ٹرینڈ فوج کی ضرورت بھی پڑے گی ہمیں پھر شفاف پانی, اچھی خوراک, طاقتور قانون, تیز رفتار انصاف ,ماہر ڈاکٹرز ,معیاری تعلیم, رواں سڑک اور شاندار لائف سٹائل کی ضرورت بھی ہو گی۔ آپ کو سردی, گرمی, بیماری, وبا کا بھی بندوبست کرنا پڑے گا۔
ہمیں کورونا وائرس سے بچنے کیلئے بھی اسباب پہ انحصار کرنا پڑے گا۔اور وباؤں سے بچنے کا طریقہ ہمیں آپ ﷺ  کی زندگی سے ملتا ہے کہ ایک تیز بارش ہوتی ہے تو حکم آ جاتا ہے کہ نماز گھر میں پڑھو لیکن یہاں تو خوفناک وبا پھن پھیلائے کھڑی ہے اور ہمارے مذہی رہنما بضد ہیں کہ نماز مسجد میں ہی ادا کی جائے گی۔
آپ ﷺ تو حکم فرماتے ہیں۔”اگر آپ کے علاقے میں وبا  پھوٹ پڑے تو علاقہ چھوڑ کے مت جاؤ۔ ۔وبائی مریض کے پاس سے بھی نہ گزرو۔خود کو محفوظ رکھو اور اللہ سے معافی مانگ کے اللہ کی پناہ میں چلے جاؤ۔
بس میرے نبئﷺ  نے صدیوں پہلے بتا دیا۔ کورونا وائرس ہو یا طاؤن ،کچھ بھی ہو، آپ کو کچھ بھی نہیں ہوگا، اگر آپ ﷺ  کے احکامات پہ عمل کریں گے۔
اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو اور آپ کو اور آپ کے بچوں کو اس وبا سے محفوظ رکھے۔
آمین!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply