• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • حکومت کون بنائیگا، پی ٹی آئی یا پیپلز پارٹی؟۔۔۔۔۔۔طاہر یسین طاہر

حکومت کون بنائیگا، پی ٹی آئی یا پیپلز پارٹی؟۔۔۔۔۔۔طاہر یسین طاہر

جوں جوں انتخابات کی تاریخ قریب آرہی ہے، سیاست کے نئے امکانات سامنے آرہے ہیں۔ کرپشن کے نام پر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو ٹارگٹ کرنے والے عمران خان کے لئے قومی اسمبلی کی سو سے زیادہ سیٹیں لینے کے امکانات کم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اگر عمران خان چھوٹے چھوٹے اتحادیوں اور آزاد امیدواروں کی مدد سے وفاق میں حکومت تشکیل بھی دے لیتے ہیں تو وہ اس طرح ڈیلیور نہیں کر پائیں گے، جیسا وہ اپنی تقریروں میں ملک کا نظام تبدیل کرتے پائے جاتے ہیں۔ ہماری سماجی روایات بڑی جارحانہ ہیں۔ بدلے کی سیاست نے ملک کو بے شک نقصان پہنچایا۔ روپے پیسے، برادری ازم، دھڑے بندیوں، تھانہ کچہری، پٹوار خانے اور اسی طرح دیگر اکائیوں نے مل کر ایک ایسا نظام تشکیل دے دیا ہے، جس کا باہم خاموش اتحاد ہے۔ یہی خاموش اتحاد عمران خان کے راستے کی بڑی رکاوٹ بھی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب کرپشن اور اقربا پروری کی سیاست کے خلاف عمران خان نے جارحانہ رویہ اختیار کیا تو پیپلز پارٹی اور نون لیگ سے وہ طاقتور دھڑے یا الیکٹ ایبلز اڑان بھر کر پی ٹی آئی میں چلے آئے اور ایسے چلے آئے کہ اپنی اپنی گروپ بندیوں اور روایتی سیاست کی چالبازیوں سے عمران خان کی انتخابی سیاست کی مجبوری بن گئے۔

یوں بادی النظر میں ایسے روایتی الیکٹ ایبلز کے ہوتے ہوئے عمران خان کوئی بڑی تبدیلی نہیں لاسکیں گے۔ اگر وہ وزیراعظم بن بھی گئے تو انہیں پارلیمنٹ کے اندر اپنی ہی جماعت کے کسی طاقتور فارورڈ بلاک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اپنی جماعت کے علاوہ عمران خان کو پیپلز پارٹی، نون لیگ اور مولانا فضل الرحمان کی صورت میں ایک طاقتور اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا۔ زمینی حقائق پی ٹی آئی کے حق میں نظر نہیں آتے، کیونکہ پی ٹی آئی مطلوبہ سادہ اکثریت بھی شاید حاصل نہ کر پائے۔ یوں اگر پی ٹی آئی بر سر اقتدار آتی ہے تو وہ اپنے فارورڈز بلاک اور اتحادیوں کے ناز نخرے اٹھاتے ہی مدت پوری کر دے گی اور کوئی قابل ذکر کام شاید نہ کر پائے۔ یہ پاکستانی سیاسی تاریخ کا مطالعہ ہے، جو آئندہ کا منظر نامہ ترتیب دینے میں مددگار ہے۔ گذشتہ چار سے چھ دنوں کا سیاسی موسم اپنی ہوائوں کا رخ تبدیل کرتا نظر آرہا ہے۔ بلاول بھٹو کا پنجاب کا دورہ، آصفہ بھٹو کا لیاری میں خطاب، عمران خان کا جہلم اور شاہدرہ کا جلسہ اور شہباز شریف کا مظفر گڑھ میں وعدوں و دعووں سے “مزین” روایتی خطاب نئی پیش بندیوں طرف اشارہ کناں ہے۔ نواز شریف اور مریم کی واپسی نے بھی نون لیگ کو پھر سے متحرک کیا ہے۔

پیپلز پارٹی جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ پنجاب سے تو بالکل ہی ختم ہوگئی ہے اور ایک صوبے سندھ تک محدود ہوچکی ہے، اس نے پھر سے انگڑائی لی ہے۔ اس میں کلام نہیں کہ پیپلز پارٹی بی بی کی شہادت کے بعد کمزور ہوئی۔ بدقسمتی سے صدر زرداری کے دور میں پیپلز پارٹی کی حکومت بجلی بحران پر ہی قابو نہ پا سکی، جس کا خمیازہ پارٹی کو بھگتنا پڑا۔ میرا خیال ہے کہ وہ تجزیہ کار بھی غلطی پر ہیں، جو نون لیگ کے خاتمے کی بات کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی قیادت اور قابل ذکر سیاستدانوں پہ کیسز ضرور چلتے رہیں گے، لیکن دونوں جماعتیں اپنے خاموش اتحاد سے پی ٹی آئی کے راستے میں دیوار بنتی رہیں گے اور عمران خان اپنے جارحانہ حملوں سے اس دیوار میں شگاف ڈالنے کی تگ و تاز سے باز نہیں آئیں گے۔ میرا خیال ہے کہ پی ٹی آئی اپنی تمام تر سیاسی جارحیت اور حکمت عملیوں کے باعث 65 سے 75 نشستیں ہی جیت پائے گی۔ اس دوران اگر پی ٹی آئی کی قیادت کوئی غلطی کرتی ہے جیسا کہ عمران سے توقع کی جاتی ہے تو یہ تعداد کم بھی ہوسکتی ہے۔ نون لیگ کو پاناما کی وجہ سے زبردست نقصان پہنچا، اس کے کئی ٹکٹ ہولڈرز نے آخری دن شیر کا انتخابی نشان واپس کرکے “جیپ” کے نشان کا سہارا لیا۔ اس کے باوجود نون لیگ67 سے 73 سیٹیں لے اڑے گی۔

حیرت افروز کارکردگی البتہ پیپلز پارٹی دکھا رہی ہے۔ صرف پنجاب سے پیپلز پارٹی 10 سے 13 سیٹیں لے رہی ہے، راجہ پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی کی دو سے تین سیٹیں، فیصل صالح حیات، کائرہ وغیرہ زبردست مقابلہ کر رہے ہیں۔ راجہ پرویز اشرف کی سیٹ تقریباً کنفرم ہے، جبکہ پورے ملک سے پیپلز پارٹی 57 سے 65 سیٹیں لے اڑے گی۔ 18 سے 22 سیٹیوں والے آزاد امیدواروں کا گروپ ہوا کے رخ پر اڑ جائے گا۔ فیصل صالح حیات کو زرداری نے ٹاسک دیا ہوا ہے کہ پنجاب سے کامیاب ہونے والے آزاد امیدواروں کو پارٹی میں لایا جائے۔ 11 سے 14 سیٹوں والی ایم ایم اے کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی کوشش اور خواہش ہے کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ اتحادی حکومت بنائیں، جس میں ایم ایم اے، ایم کیو ایم، قاف لیگ کی دو سیٹیں، مل ملا کر ایک سادہ اکثریت والی حکومت ہو، کیونکہ مولانا صاحب کے لئے آسان ہے کہ وہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر کام کریں، انہیں ان پارٹیوں کے ساتھ وفاق میں کام کرنے کا تجربہ بھی ہے، جبکہ پی ٹی آئی کے ساتھ مولانا صاحب کے لیے اتحاد کرنا سیاسی موت سے کم نہیں اور عمران خان بھی کسی صورت مولانا فضل الرحمان سے اتحاد نہیں کرنا چاہیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان بظاہر امکانات میں اگر نون لیگ اور پیپلز پارٹی مل کر حکومت بناتی ہیں تو پی ٹی آئی کے پاس آپشنز سوائے جارحانہ اپوزیشن کرنے کے اور کوئی نہیں رہ جاتا اور اگر پی ٹی آئی، اپنے چھوٹے اتحادیوں سے، جیسا کہ عمران خان تیزی سے نئے اتحادی تلاش کر رہے ہیں، ان کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دیتی ہے، یا آزاد امیدوراوں کا سہارا لیا جاتا ہے تو پی ٹی آئی کے لئے مشکل ہو جائے گا کہ وہ روایتی سیاسی حصار کو توڑ کر عوامی مسائل کے حل کی طرف ثمر بار قدم اٹھا سکے۔ سیاسی امکانات ایک بار پھر مفادات، اتحاد اور گروہ بندیوں کی طرف جھکے ہوئے ہیں۔ منشور کے بجائے گروہوں اور خاندانوں کا زور ہے۔ ایک دوسرے پر الزام تراشیوں اور کردار کشی کا رحجان ہے۔ نئی حکومت جو بھی بنائے، کوئی بڑا کام کرنے کے لئے اسے آسمانی حوصلے اور غیر معمولی فیصلوں کی ضرورت ہوگی۔ بالخصوص اگر عمران وزیراعظم بنتے ہیں تو عوامی توقعات ان سے کرپشن کے خاتمے اور بنیادی انسانی ضروریات کی تکمیل کا تقاضا کریں گی۔ اگر نون لیگ اور پیپلز پارٹی اپنے سیاسی مفادات کی خاطر کوئی نیا “میثاق جمہوریت” کرتی ہیں تو اس اتحاد سے موروثی سیاست کی جڑیں مضبوط اور روایتی سیاست کا رحجان پختہ ہوگا۔ فی الحال سیاسی موسم کی حدت کسی بھی پارٹی کو سادہ اکثریت بھی نہیں لینے دے رہی

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply