کیا کرپشن ثابت نہیں ہوسکی؟۔۔۔محمد مشتاق

ماتحت عدالتوں کے فیصلوں پر میں عموماً تبصرے سے گریز کرتا ہوں کیونکہ ایسے فیصلوں کے بعد اپیل در اپیل اور نظرثانی کا مرحلہ ابھی باقی ہوتا ہے۔ تاہم بعض اوقات مجبوراً ایک آدھ نکتے کی وضاحت کےلیے چند سطور لکھنے پڑتے ہیں۔ مجھے ہرگز یہ خوش گمانی نہیں ہے کہ نون لیگی یا ان کے اتحادی قانونی پوزیشن معلوم کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ تاہم عام لوگوں کےلیے اس غلطی کی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے جو بعض دینی دانشوروں کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔

کہا یہ جارہا ہے کہ کرپشن تو احتساب عدالت میں بھی ثابت نہیں کی جاسکی بلکہ اس بات پر سزا دی گئی کہ میاں صاحب وضاحت نہیں کرسکے کہ لندن فلیٹس کہاں سے آئے؟

بھائیو! قانون کی رو سے یہی تو کرپشن کی ایک ثابت شدہ قسم ہے کہ کسی شخص ، بالخصوص سرکاری عہدے پر موجود شخص کے پاس ، ایسے اثاثے ہوں جو اس کے معلوم ذرائع آمدن سے بڑھ کر ہوں اور وہ وضاحت نہ کرسکے کہ یہ اثاثے کیسے وجود میں آئے؟ ایسے امور میں “بارِ ثبوت” اسی شخص پر ہوتا ہے کہ وہ ثابت کرے کہ اس نے کرپشن نہیں کی۔ بہ الفاظِ دیگر قانون کی نظر میں اس کی کرپشن ثابت شدہ ہے جب تک وہ ثابت نہ کردے کہ اس نے کرپشن نہیں کی۔

کہا جاتا ہے کہ ملزم پر بار ثبوت رکھنا عدل کے اصولوں کے خلاف ہے۔ یہ بات عام حالات میں بالکل درست ہے لیکن اس بظاہر کلمۂ حق سے کیسے باطل مفہوم مراد لیا جاتا ہے، اس کےلیے درج ذیل نکات پر غور کریں:

ایک یہ کہ بارِ ثبوت کوئی ایسی چیز نہیں جو حتماً ایک ہی طرف ہو بلکہ کسی بھی مقدمے میں بارِ ثبوت کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر قانونِ شہادت آرڈر میں اصول دیا گیا ہے کہ جس شخص کے بارے میں ثبوت دیا جائے کہ وہ پچھلے تیس سالوں میں زندہ تھا تو قانوناً وہ زندہ ہی فرض کیا جائے گا جب تک اس کی موت کا ثبوت نہ ملے۔ البتہ اگر دوسری جانب سے یہ ثبوت مل جائے کہ پچھلے سات برسوں میں کسی ایسے شخص نے اس کے بارے میں سنا نہیں جو لازماً اس کے بارے میں سنتا اگر یہ زندہ ہوتا تو اب قانون اسے مردہ فرض کرے گا جب تک اس کی زندگی کا ثبوت نہ ملے۔

گویا اس صورت میں پہلے بارِ ثبوت اس فریق پر ہے جو اس کے زندہ ہونے کا مدعی ہے کہ وہ پچھلے تیس برس میں اس کے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کرے۔ ایسا کرچکنے کے بعد دوسرے فریق پر جو اس کی موت کا مدعی ہے بارِ ثبوت آجائے گا کہ وہ یا تو اس کی موت کا ثبوت لے آئے یا کم از کم یہ ثابت کردے کہ پچھلے سات برسوں سے وہ بالکل ہی لاپتہ ہے۔ ایسا کرچکنے کے بعد پھر بارِ ثبوت پہلے فریق پر آجائے گا کہ وہ ثابت کردے کہ اس کے باوجود وہ زندہ ہے۔

کرپشن کے کیس میں بھی ابتدا میں استغاثے پر بارِ ثبوت ہوتا ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ ملزم یا اس کے زیرکفالت افراد کے پاس ایسے اثاثے ہیں جو اس کے معلوم ذرائعِ آمدن سے بڑھ کر ہیں۔ یہ کرچکنے کے بعد اب بارِ ثبوت ملزم پر آجاتا ہے کہ وہ ثابت کرے کہ اس نے یہ اثاثے کرپشن سے نہیں بنائے۔ فلیٹس میاں صاحب کے پاس ہیں۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے۔ کہاں سے آئے؟ بتانا تو ان پر لازم ہے۔ یہی مفہوم ہے اس بات کا کہ بارثبوت ان پر ہےاور جب تک وہ یہ ثابت نہ کردیں کہ یہ فلیٹ قانونی طریقے سے ان کے پاس آئے ہیں ، ان کا کرپٹ ہونا ثابت ہوچکا!

ویسے ڈیڑھ سال قبل سے میں اسی اصول کا حوالہ دے رہا تھا لیکن نون لیگی اور ان کے اتحادی اس پر بحث کےلیے تیار ہی نہیں تھے۔ ہمیشہ بات واقع ہوچکنے کے بعد ہی کیوں بحث یاد آتی ہے؟ یہ ایک الگ معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا! کاش وہ ڈیڑھ سال قبل ہی اس اصول سے نمٹنے کےلیے تیاری شروع کردیتے تو خواجہ حارث انھیں چونا لگانے میں کامیاب نہ ہوتے!

کہا جاتا ہے کہ اگر کسی پر چوری کا الزام ہو تو وہ کیسے ثابت کرے کہ اس نے چوری نہیں کی ؟ عرض ہے کہ ایسی ساری مثالیں مغالطوں پر مبنی ہیں۔ ایک تو اس وجہ سے یہ اصول عام جرائم کےلیے نہیں ہے اور اسی لیے عام جرائم کی مثالیں دینا غلط ہے۔ دوسرے ، اگر زید کا دعوی ہے کہ اس کا موبائل بکر نے چوری کیا ہے تو بار ثبوت زید پر ہے اور بکر کو صفائی دینے کی ضرورت نہیں؛ لیکن اگر زید کا موبائل بکر کے بیگ سے برآمد ہو اور پھر بھی بکر چوری سے انکاری ہے تو کیا محض انکار پر اسے معصوم مان لیا جائے گا؟

نیز پاکستانی قانون میں کئی اور بھی ایسے جرائم ہیں جن میں بارِ ثبوت ملزم پر ہوتا ہے۔ ایک مثال تو انسدادِ منشیات کا قانون ہے جس کی رو سے اس شخص پر لازم ہے جس کے پاس سے منشیات برآمد ہوں کہ وہ اپنی صفائی ثابت کردے ورنہ اس کا جرم ثابت شدہ مانا جائے گا۔ غور کیجیے تو اصل میں یہ قانون ظالمانہ ہے کیونکہ اس کا شکار عموماً غریب اور بے بس قسم کے لوگ بنتے ہیں لیکن ہمارے دینی دانشوروں کو فکر ان ارب پتی سرمایہ داروں کو بچانے کی ہے جنھوں نے تیس سال اقتدار میں رہ کر اثاثوں میں ہوشربا اضافہ کیا ہے اور یہ بتانے کےلیے بھی تیار نہیں کہ یہ اثاثے آئے کہاں سے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

کہا جاتا ہے کہ اس قانون کا مفروضہ یہ ہے کہ ہر سرکاری ملازم فطرتاً کرپٹ ہے۔ عرض ہے کہ مفروضہ یہ نہیں بلکہ یہ ہے کہ سرکاری عہدے پر موجود شخص کے اثاثوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہو اور اس اضافے کی کوئی وضاحت پیش نہ کی جاسکے تو اسے کرپشن ہی مانا جائے گا۔ وھائٹ کالر کرائمز سے نمٹنے کا یہی طریقہ ہے۔1999ء میں جب نیب کا قانون آرڈی نینس کی صورت میں آیا جس میں اصول طے کیا گیا تو اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ یہ اصول دستور میں موجود بنیادی حقوق سے متصادم نہیں ہے ۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی۔ 2013ء میں نون لیگ کی حکومت آئی۔ اگر یہ اصول واقعی خلافِ عدل تھا یا دستور میں موجود بنیادی حقوق سے متصادم تھا تو پیپلز پارٹی یا نون لیگ (اور ان کے جملہ تقدس مآب اتحادیوں ) کے پاس اسے تبدیل کرنے کےلیے پورے دس سال تھے۔

Facebook Comments

محمد مشتاق
قانون کے پروفیسر ہیں اور قانون اسلامی میں دسترس رکھتے ہیں۔ آپ اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے بطور پروفیسر وابستہ ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply