میاں صاحب!بھٹو بننا آسان نہیں۔۔۔۔کاشف بلوچ

اس کے اندر ایک قبیح بدبو دار چھپا ہوا تھا۔یہ تو بھلا ہو ضیا کا کہ اس نے ساری بدنامی اپنے سر لے لی ورنہ بھٹو سے وہ تمام سیاہ کاریاں مرتکب ہونے والی تھیں جو ضیا نے اپنے گیارہ سالہ دور میں کیں۔

بے نظیر طاقت کی بھوکی تھی۔

وہ کبھی دل سے سوشلسٹ نہیں رہی بلکہ اس نے تو اپنا تخت بچانے کے لیے جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ تک کیا۔

زرداری، مسٹر ٹین پرسنٹ، پیپلز پارٹی کے نام پر ایک بدنما دھبہ۔

اس نے اسٹیبلشمنٹ کےجوتے چاٹنے شروع کر دیے اور سندھ میں حکومت بنانے کے لیے وڈیرہ شاہی نظام کے در پر سر جھکا دیا۔‘

آپ ان تینوں ’بد عنوان‘ سیاست دانوں کو کوئی بھی طعنہ دے سکتے ہیں لیکن بزدل نہیں کہہ سکتے۔

ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت

بھٹو نے اپنے لیے تختہ دار منتخب کیا اور بی بی نے دہشت گردوں کو اپنا سر پیش کیا۔

آصف زرداری ، گیارہ سال جیل رہا لیکن معافی کے لیے گڑگڑایا نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے ’کنورٹڈ نظریاتی‘ لیڈر میاں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ گنوا کر ان لوگوں کی بہت یاد آئی۔

میاں صاحب خود کو بھٹو، مریم خود کو بی بی اور کپتان صفدر خود کو زرداری سے بڑا انقلابی سمجھنے لگے۔

میں یہ نہیں کہہ رہا کہ انقلاب بھٹو خاندان کی ذاتی ملکیت ہے اوریہ کہ نظریے کی فرنچائز صرف بلاول کے ذاتی استعمال کے لیے مختص کر دینی چاہیے۔

سچ بتاؤں تو کل کا فیصلہ سن کر میرا دل تھوڑی دیر کے لیے دھڑکنا بھول گیا۔

میں نے خود سے پوچھا کہ کیا میں اس نواز شریف کے لیے افسردہ ہو رہا ہوں جس نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اس ملک میں نظریاتی سیاست کا قتل کیا تھا؟

جواب آیا ، نہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری سیاست کبھی نظریاتی یا اخلاقی رہی ہی نہیں تھی۔یہ اقتتدار کی جنگ تھی اور اقتتدار ہی کی لڑائی ہے۔

لیکن اس جنگ میں ٹوٹے پھوٹے انقلاب کا جو نعرہ میاں صاحب نے لگایا اس پر یقین کرنے کے علاوہ میرے پاس کوئی چارہ نہیں۔

ادھر ملک میں انصاف کے نام پر کی جانے والی کھلی بدمعاشی ہے، مذہب کے نام پر پھیلائی جانے والی جنونیت ہے، وطن پرستی کے نام پر عام کی جاتی ہوئی نفرت ہے اور اُدھر نواز شریف کا ایک کمزور، متزلزل اور کپکپاتا ہوا نعرہ ہے۔

’جمہوریت۔‘

میرے پاس اس نعرے پر یقین کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ۔۔۔

اور اب یہ کہتا ہوں کہ کیا نواز شریف کے پاس اپنے کمزور، متزلزل اور کپکپاتے ہوئے نعرے پر یقین رکھنے کے علاوہ کوئی آپشن ہے؟!

میاں صاحب کو بہت شوق تھا بھٹو بننے کا ۔۔۔

مریم بی بی نے تو دوپٹہ بھی بے نظیر کی طرح اوڑھنا شروع کر دیا تھا۔۔۔

شہباز شریف نے کئی تقریروں میں بھٹو کی طرح مائک الٹ دیے۔

لیکن ’بھٹو فیشن‘ کپڑوں اور نعروں سے پورا نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے تھوڑی بہادری بھی دکھانا پڑتی ہے۔

میرے خیال میں تاریخ نے نواز شریف کو موقع دیا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ انہیں اپنی ’سرمایہ دارانہ شناخت‘ عزیز ہے یا کہ وہ نظریہ کہ جس کا دم وہ پچھلے کچھ ماہ سے بھر رہے ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ میاں صاحب کی جدوجہد کے پیچھے اس ’پنجابی ایلیٹ‘ کے مفادات ہیں جسے اب اسٹیبلشمنٹ سے بڑا بننے کا شوق ستا رہا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس لڑائی میں اگر جیت نواز شریف کی ہوتی ہے تو اس کا بہرحال کچھ نہ کچھ فائدہ عام لوگوں کو بھی پہنچے گا۔

نواز شریف نے اپنی واپسی کو اپنی علیل بیگم کے ہوش میں آنے کے ساتھ مشروط کر دیا ہے۔خدا کلثوم بیگم کو جلد صحت یاب کرے لیکن حقیقت احوال یہ ہے کہ یہاں حالات کسی ایک شخص کی صحت اور زندگی سے زیادہ اہم ہو چکے ہیں۔

اگر خدانخواستہ، بیگم کلثوم کو عام انتخابات سے پہلے ہوش نہیں آتا اور نواز شریف انہیں خدا حافظ کہہ کر وطن لوٹنے کا انتظار ہی کرتے رہ جاتے ہیں تو یہاں نہ صرف ن لیگ کی سیاست ختم ہو جائے گی بلکہ شاید یہ فیصلہ کن مرحلہ بھی غیر معینہ مدت کے لیے موخر ہو جائے گا۔

نواز شریف کو سمجھنا چاہیے کہ یہ صورت انتخابات میں ان کی ہار اور گرفتاری سے بھی زیادہ سنگین ہو گی۔

مجھے یاد ہے کہ کچھ سال پہلے میرے ایک دشمن نما دوست نے مجھ سے مذاق مذاق میں یہ سوال کیا تھا کہ پاکستان میں ہر گھر سے بھٹو ہی کیوں نکلتا ہے؟

میں نے اسے کوئی جواب نہیں دیا تھا لیکن اس کے طنز کی کاٹ نے مجھے کافی دنوں تک پریشان ضرور رکھا تھا۔

سیاست میں ’پیر پرستی‘ (خواہ وہ بھٹو خاندان ہی کی کیوں نہ ہو) کسی ظلم سے کم نہیں۔

میں نواز شریف سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا میں اپنے دوست کو یہ جواب دے دوں کہ اب ہر گھر سے بھٹو ہی نہیں بلکہ نواز شریف بھی نکلے گا؟

میاں صاحب ذرا جلدی بتائیے گا! پلیز

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ سجاگ!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply