حضرت خدیجہ: پیغمبرِ اسلام کی پہلی بیوی۔۔گُل بخشوی

مارگریٹا راڈریگیز(بی بی سی منڈو) نے اپنے ایک کالم میں لکھا کہ برطانیہ کے شہر مانچسٹر کے ایک امام اسد زمان کہتے ہیں کہ حضرت خدیجہ جو سنہ 555 میں اس علاقے میں پیدا ہوئیں جو آج سعودی عرب ہے۔انھیں معاشرے میں ایک باعزت مقام حاصل تھا، وہ بہت امیر اور بااثر خاتون تھیں جو کئی امرا کی جانب سے شادی کی پیشکش ٹھکرا چکی تھیں۔ان کی دو شادیاں ہو چکی تھیں۔ ایک شوہر کا انتقال جبکہ دوسرے شوہر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت خدیجہ نے خود ان سے علیحدگی اختیار کر لی تھی انہوں نے طے کر لیا تھا کہ اب شادی نہیں کریں گی لیکن ان کا یہ ارادہ اس وقت بدل گیا جب وہ اس شخصیت سے ملیں جو ان کے تیسرے شوہر بنے۔ ا ±س شخصیت میں ایسی شاندار خصوصیات دیکھیں کہ شادی کے بارے میں ان کا ذہن تبدیل ہو گیاصل میں حضرت خدیجہ نے پیغمبرِ اسلام کو منتخب کیا اور شادی کی پیشکش کی۔ حضرت خدیجہ کی عمر 40 سال جبکہ پیغمبرِ اسلام 25 سال کے تھے۔ حضرت خدیجہ نے پیغمبرِ اسلام سے اس وقت شادی کی جب انھوں نے اپنی نبوت کا اعلان نہیں کیا تھا۔یہ صرف ان دونوں کے رشتے کی کہانی نہیں ہے بلکہ یہیں سے ایک ایسے مذہب نے جنم لیا جس کے پیروکار آج اپنی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں۔
نیویارک یونیورسٹی میں قدیم مشرقِ وسطی کی تاریخ کے پروفیسر رابرٹ ہوئےلینڈ کہتے ہیں کہ حضرت خدیجہ کی شخصیت کی تفصیلی تصویر پیش کرنا مشکل ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا گیا وہ ان کے انتقال کے کافی سال بعد لکھا گیا تاہم زیادہ تر تاریخی ذرائع کے مطابق وہ آزادانہ فیصلے کرنے اور بہت مضبوط ارادوں والی خاتون تھیں۔’مثال کے طور پر انھوں نے اپنے کزن کے ساتھ شادی سے انکار کر دیا تھا جبکہ ان کا خاندان روایتی طور پر اس رشتے کی حمایت کرتا رہا۔ لیکن وہ اپنے شوہر کا انتخاب خود کرنا چاہتی تھیں۔ حضرت خدیجہ ایک ایسے کامیاب تاجر کی بیٹی تھیں جس نے اپنے خاندانی کاروبار کو ایک وسیع کاروباری سلطنت میں تبدیل کر دیا تھا۔والد کی جنگ میں ہلاکت کے بعد حضرت خدیجہ نے کاروبار سنبھال لیا۔ ‘حقیقت میں ان کی کاروباری ذہانت نے ہی انھیں اس راستے پر ڈالا جس نے آگے چل کر دنیا کی تاریخ بدل دی۔’حضرت خدیجہ مکہ سے جو کاروبار کرتی تھیں اس کے لیے مشرقِ وسطیٰ کے بڑے شہروں میں ان کے تجارتی قافلے سفر کرتے تھے۔ یہ تجارتی قافلے طویل سفر طے کر کے جنوبی یمن اور شمالی شام جیسے شہروں تک جایا کرتے تھے۔یونیورسٹی آف لیڈز میں اسلامی تاریخ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر فوزیہ بورا کے مطابق ان کی دولت کا ایک بڑا حصہ انھیں وراثت میں ملا تھا لیکن خود ان کی کوششوں سے ان کا کاروبار بہت وسیع ہوا تھا۔’وہ خود انفرادی طور پر بھی ایک کامیاب کاروباری خاتون تھیں جن میں بہت خود اعتمادی تھی۔’ وہ اپنے کاروبار کے مختلف کاموں کے لیے لوگوں کی خدمات حاصل کرتی تھیں پھر انھیں ایک ایسے شخص کے متعلق معلوم ہوا جس کے بارے میں لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ بہت ایماندار اور محنتی ہے۔حضرت خدیجہ نے اس شخص سے رابطہ کیا اور ان سے اپنے ایک تجارتی قافلے کی سربراہی کرنے کا کہا۔ جلد ہی وہ اس شخص کی مداح ہو گئیں۔حضرت خدیجہ پیغمبرِ اسلام سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ انھوں نے ان سے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ حضرت خدیجہ سے شادی کے بعد پیغمبرِ اسلام کو اپنے مقصد کے لیے زبردست استحکام اور معاشی مدد ملی۔کہا جاتا ہے کہ پیغمبرِ اسلام اور حضرت خدیجہ کے ہاں چار اولادیں ہوئیں لیکن ان میں سے صرف ایک بیٹی ہی زندہ رہیں۔
مسلم انسٹیٹیوٹ آف لندن کی پروفیسر رانیہ حافظ کہتی ہیں ‘سماجی تناظر میں اگر دیکھیں تو آپ کو اس وقت کے حالات کو بھی ذہن میں رکھنا ہو گا۔ وہ ایک کثرتِ ازدواج والا معاشرہ تھا۔ اس زمانے میں زیادہ تر مردوں کی کئی بیویاں ہوا کرتی تھی لیکن جب تک حضرت خدیجہ زندہ رہیں، پیغیمرِ اسلام نے دوسری شادی نہیں
کی۔‘حضرت خدیجہ کی طرح پیغمبرِ اسلام بھی قریش قبیلے میں پیدا ہوئے اور پروان چڑھے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب اس علاقے میں اکثر لوگ کئی خداوں کیعبادت کرتے تھے۔جب پیغمبرِ اسلام کو روحانی تجربات کا سلسلہ شروع ہوا اور وہ مکہ کے قریب پہاڑوں پر جا کر مراقبہ کرنے لگے تو ان کی شادی کو کئی برس ہو چکے تھے۔اس کے بعد انھیں فرشتے حضرت جبرائیل کے ذریعے اللہ کی جانب سے وحی آنے لگی۔پیغمبرِ اسلام نے فیصلہ کیا کہ وہ جس کیفیت سے گزر رہے ہیں اس کے بارے میں کسی کو بتائیں۔ وہ حضرت خدیجہ پر بے انتہا اعتماد کرتے تھے۔ حضرت خدیجہ نے ان کی بات سنی اور انھیں دلاسا دیا کیونکہ ان کے دل نے کہا کہ یہ کوئی عظیم اور انتہائی مقدس تجربہ ہے۔امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کی اسلامک اسکالر لیلیٰ احمد کہتی ہیں ‘جب پیغمبرِ اسلام پر قرآنی آیات اترنا شروع ہوئیں تو انھیں اس تجربے کو سمجھنے میں مشکل کا سامنا تھا۔ اس موقع پر حضرت خدیجہ نے ان کا ساتھ دیا۔’کئی مورخین کی نظر میں پیغمبرِ اسلام پر اترنے والی آیات کو سب سے پہلے حضرت خدیجہ نے سنا تھا اس لیے وہ تاریخ کی پہلی مسلمان خاتون بن گئیں اور اسلام قبول کرنے والی پہلی شخصیت بھی۔پروفیسر فوزیہ بورا کہتی ہیں ‘انھوں نے اس پیغام کو یقین اور دل سے قبول کیا برطانیہ کی یونیورسٹی آف لیڈز میں اسلامی تاریخ پڑھانے والی پروفیسر فوزیہ بورا کے خیال میں حضرت خدیجہ نے اپنے شوہر اور اسلام کی حمایت اور مدد کے لیے وہ سب کچھ کیا جو ان کے بس میں تھامورخ بیٹنی ہیوز کا کہنا ہے ‘میرے خیال میں حضرت خدیجہ کی حمایت سے پیغمبرِ اسلام کو اپنا پیغام عام کرنے اور اپنے قبیلے کی اشرافیہ کی مخالفت کا مقابلہ کرنے میں بہت مدد ملی۔’ جب پیغمبرِ اسلام نے تبلیغ شروع کی تو مکہ کے معاشرے میں ان کی بہت مخالفت ہوئی کیونکہ مختلف خداو ¿ں کی عبادت کرنے والے معاشرے میں وہ ایک خدا کو ماننے کا پیغام دے رہے تھے۔اس موقعے پر حضرت خدیجہ نے وہ حمایت اور تحفظ فراہم کیا جس کی پیغمبرِ اسلام کو اشد ضرورت تھی۔ بیٹنی ہیوز کہتی ہیں کہ اگلے 10 سال تک حضرت خدیجہ نے اپنے خاندانی تعلقات اور اپنی دولت کے ذریعے اپنے شوہر کی بھرپور مدد کی۔’سنہ 619 میں وہ بیمار ہو گئیں اور ان کا انتقال ہو گیا۔اس وقت پیغمبرِ اسلام اور ان کی رفاقت کو 25 سال ہو چکے تھے اور حضرت خدیجہ کا بچھڑنا ان کے لیے ایک بڑا صدمہ تھا۔
پروفیسر رابرٹ ہوئےلینڈ کے مطابق مورخین نے حضرت خدیجہ کا جس طرح ذکر کیا ہے، وہ بہت متاثر کن ہے اور انھیں پیغمبرِ اسلام کی بہترین رفیق قرار دیا گیا ہے پروفیسر فوزیہ بورا سمجھتی ہیں کہ حضرت خدیجہ کی تاریخ کو جاننا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ یہ اس تصور کو غلط ثابت کرتی ہے کہ اسلام کے ابتدائی دنوں میں مسلمان عورتوں کو گھروں تک محدود رکھا جاتا تھا۔پیغمبرِ اسلام نے حضرت خدیجہ کو ان کی پسند کے کام کرنے سے کبھی نہیں روکا تھا۔ تاریخ دانوں کے مطابق اس زمانے کے لحاظ سے اسلام نے عورتوں کو زیادہ حقوق اور اہمیت دی۔ایک مورخ اور ایک مسلمان کی حیثیت سے میں سمجھتی ہوں کہ خدیجہ ایک متاثر کن شخصیت تھیں، اسی طرح پیغمبرِ اسلام کی بیٹی حضرت فاطمہ اور دوسری بیوی حضرت عائشہ بھی ایسی ہی شخصیات میں شامل ہیں۔ یہ دانشور خواتین تھیں جو سیاسی طور پر متحرک تھیں اور جنھوں نے اسلام کے ترویج اور اسلامی معاشرے کے قیام میں بہت اہم کردار ادا کیا۔’ یہ ان کے لیے بہت خوشی اور دلچسپی کا باعث ہے کہ وہ اپنے طالبِ علموں کو ان خواتین کے بارے میں بتائیں۔
پروفیسر ہوئے لینڈ کہتے ہیں کہ جب وہ پڑھانے کے غرض سے پاکستان آئے تو اس دوران انھوں نے حضرت خدیجہ کی ایک رول ماڈل کی حیثیت سے تعریف ہوتے دیکھی۔ ‘دو طالبات نے مجھ سے رابطہ کیا کیونکہ وہ حضرت خدیجہ کے بارے میں مزید سوالات پوچھنا چاہتی تھیں۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ خدیجہ ان کی ہیرو ہیں، ایک ایسی خاتون جو اپنا بزنس خود سنبھالتی تھیں۔۔مورخ بیٹنی ہیوز کہتی ہیں آج اسلام میں خواتین کی حیثیت کے موضوع پر بہت گرما گرم بحث ہوتی ہے اور کئی لوگ اسے خواتین کے استحصال سے جوڑتے ہیں۔
بیٹنی ہیوز نے سکالر میرین فرانسوا سیرہ سے سوال کیا ‘اگر آپ حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ جیسی عظیم خواتین کے بارے میں سوچیں تو آپ کے خیال میں یہ خواتین آج 21ویں صدی میں اسلام کی جو صورت ہے، اس کے بارے میں کیا کہتیں؟’میرین فرانسوا سیرہ نے جواب دیا ‘آج جس طرح اسلام پر ایک مخصوص طریقے سے عمل کیا جا رہا ہے، میرا نہیں خیال کہ یہ خواتین اسے اسلام کی روح گردانتیں اور مجھے یقین ہے کہ حضرت عائشہ اگر آج ہوتیں اور انھیں کہا جاتا کہکمرے سے باہر نہ نکلیں اور اپنی رائے کا اظہار نہ کریں تو وہ ایسی صورتحال سے خوش نہ ہوتیں۔ وہ مردوں کو سکھاتی تھیں اور انھیں تعلیم دیتی تھیں۔ اگر انھیں کچھ کہنا ہوتا تھا تو وہ کہہ گزرتی تھیں ’میرا نہیں خیال کہ آج اگر حضرت خدیجہ کو ایک مخصوص پیرائے میں محدود کر دیا جاتا، ان کی آواز کو دبایا جاتا اور ان کے حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی تو وہ یہ سب قبول کر لیتیں۔’ان خواتین کی کہانیاں اسلام میں خواتین کے کردار کے بارے میں بہت سے لوگوں کے تصورات کو چیلنج کرتی ہیں۔
بیٹنی ہیوز کہتی ہیں کہ یہ بہت افسوس ناک بات ہے کہ غیر مسلم دنیا میں بہت ہی کم لوگوں نے ان خواتین کے نام سنے ہیں یا وہ انھیں جانتے ہیں۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply