شفاف الیکشن کا خواب۔۔۔ٹی ایچ بلوچ

نگراں وزیراعلیٰ پنجاب ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا ہے کہ نگراں حکومت صاف اور شفاف الیکشن کرانے کے لیے آخری حد تک جائے گی، پر امن اور شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن وسائل بروئے کار لائے جائیں گے، غیرجانبدارانہ الیکشن کو یقینی بنانا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔عام انتخابات کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع فراہم کریں گے۔ چند رروز قبل نگران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ شفاف انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی بھرپور مدد کریں گے، شفاف اور آزادانہ الیکشن کا انعقاد ہماری ذمے داری اور منتخب حکومت کو اقتدار کی منتقلی مینڈیٹ ہے اور پاکستان کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بروقت اور شفاف انتخابات جمہوریت اور ریاست کے استحکام کے لیے انتہائی ضروری ہیں، اس لیے تمام سیاسی جماعتوں اور قومی اداروں کو ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا چاہیے۔ یہ امر کسی قدر باعثِ مسرت ہے کہ سبھی سیاسی جماعتیں انتخابی مہم چلا رہی ہیں اور فضا کو گرمائے ہوئے ہیں۔ یہ امر بھی حوصلہ افزا ہے کہ چیف جسٹس یہ کہہ چکے ہیں کہ آئین میں کسی مارشل لا کی گنجائش ہے نہ ہم کسی مارشل لا کو جواز فراہم کریں گے۔ اسی طرح آرمی چیف کی یہ یقین دہانی بڑی اطمینان بخش ہے کہ ملک میں بروقت اور شفاف انتخابات ہوں گے اور عوام کی رائے کا پورا پورا اِحترام کیا جائے گا۔ اب ایک طرف الفاظ میں تیقن ہے اور دوسری طرف ایسے حالات ہیں جو شفاف انتخابات پر سوالیہ نشان اُٹھا رہے ہیں۔ جیسا کہ نون لیگ اور انکے ہم خیالوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں وزیراعلیٰ کی اچانک تبدیلی اور سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ نے بہت بدگمانیاں پیدا کی ہیں۔ اِس نازک مرحلے میں اہلِ دانش کو شفاف انتخابات کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے منظم جدوجہد کرنا ہو گی۔

سیاسی افق پر انتخابات کے یقینی انعقاد کے آثار نمایاں ہوتے جارہے ہیں۔ رفتہ رفتہ سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی الیکشن مہم کے تمام انتظامات کو حتمی شکل دیدی ہے، بادی النظر میں تناؤ اور بعض سیاسی ایشوز پر اختلافات کی گونج سنائی دیتی ہے، تاہم جمہوری عمل اور اقتدار کی شفاف طریقے سے آئین وقانون کے مطابق منتقلی سیاسی بصیرت کا بڑا امتحان ہوگا، وقت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ جمہوری اسپرٹ کے ساتھ انتخابی تیاریاں مکمل کی گئیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک میں انتخابات کے وقت مقررہ پر انعقاد کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو، ملک بھر میں جلسے ہورہے ہیں اور باضابطہ انتخابی مہم بھی جلد شروع ہوجائے گی۔ الیکشن کمیشن نے اپنی تیاریوں کو حتمی شکل دینا شروع کر دی ہے اور انتخابی نتائج جمع کرنے کے لیے منصوبہ بندی بھی کر لی ہے۔ پولنگ اسٹیشنز سے ریٹرننگ افسران اورالیکشن کمیشن تک نتائج ارسال کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی۔ الیکشن کمیشن 60 روز کے اندر انتخابات کرانے کا پابند ہے۔ بلاشبہ ہر الیکشن جمہوری عمل اور منتخب حکومت کی ختم ہونے والی مدت کے بعد قوم کے حق رائے دہندگی کا شاندار اور تاریخی مرحلہ ہوتا ہے، جس میں ووٹر تمام تر تحفظات اور امید و خدشات کے ساتھ پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کرتے ہیں، ان کے ووٹ کا تقدس جمہوریت کے ماتھے کا جھومر ہوتا ہے، اور یوں بھی آیندہ اعصاب شکن اور فیصلہ کن انتخابات سے پہلے ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ سیاسی ڈکشن کا حصہ بنا ہے، آج کا ووٹر باشعور ہے، اسے ملکی سیاسی اور انتخابی نظام میں اپنے ووٹ کی اہمیت کا بھی علم ہے۔ پاکستان جس نازک موڑ پر کھڑا ہے اس میں ووٹ کاسٹنگ ضمیر اور طرز حکمرانی میں تبدیلیوں کی نوید لانے کے لیے سب سے بڑی آزمائش ہوگی۔

ووٹرز کی تربیت سیاسی جماعتوں کا بنیادی فرض ہے، تمام سیاسی جماعتیں اب اپنی توانائیاں آیندہ انتخابات کے لیے وقف کردیں، ضابطہ اخلاق کی پابندی کریں، انتخابی مہم شفاف اور شائستگی کا اعلیٰ معیار پیش کرے، رواداری ، تحمل اور منصفانہ و آزادانہ الیکشن کی امنگ پولنگ کے دن قومی امنگوں سے مشروط ہونی چاہیے۔ اس بات کا ادنیٰ سا اشارہ بھی کہیں سے ابھرنا نہیں چاہیے کہ انتخابات میں دھاندلی ہونے کا کوئی خدشہ ہے، یہی وہ مقام ہے جہاں الیکشن کمیشن کی اتھارٹی، اس کے دائرہ کار اور شفاف الیکشن کے انتظامات سے ملک کی جمہوری ساکھ مستحکم ہوگی، اس کے پارلیمانی وقار اور سیاسی جماعتوں کی اجتماعی بصیرت اور فکری و اخلاقی استقامت و بلوغت کا ایک غیر معمولی منظر نامہ سامنے آئیگا۔ 2018 کے عام انتخابات میں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران ماتحت عدلیہ کے جوڈیشل افسران سے کی جائے گی۔ ملک میں ایک سو چار ملین (10 کروڑ 40 لاکھ) رجسٹرڈ ووٹر ہیں، مرد ووٹر پانچ کروڑ، خواتین چار کروڑ اٹھاون لاکھ ہیں۔ 2013ء کے انتخابات پر سوالیہ نشان آج بھی ہے، چاہتے ہیں کہ الیکشن شفاف اور سیاہی اوربیلٹ پیپر کے مسائل اس دفعہ نہ ہوں۔ ادھر مسلم لیگ کی حکومت نے اقتدار نگراں حکومت کے حوالے کرنے سے قبل چھٹی مردم شماری کے نتائج کا باضابطہ اعلان کرنیکا فیصلہ کرلیا، میڈیا رپورٹس میں اعلی حکومتی عہدیدار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس مئی میں ہونے والی چھٹی مردم شماری کے نتائج کا اعلان کرنے کی حتمی منظوری مشترکہ مفادات کونسل سی سی ائی کے اجلاس میں دی جائے گی، اس لیے انتخابات کے انعقاد سے پہلے شفافیت اور آئینی حوالوں سے بعد از پولنگ کسی قسم کے قانونی تنازعات کے زیرو امکان پر الیکشن کمیشن قوم کو یقین دلائے کہ الیکشن نہ صرف آزادانہ ہونگے بلکہ ان کی شفافیت پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکے گا۔

پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں شاید ہی پہلے کبھی ایسا اتفاق ہوا ہو، عدلیہ کے چار جج صاحبان اِس وقت مُلک کی تقدیر کے مالک بن گئے ہیں۔ پاکستان کا محفوظ مستقبل اُن کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ چاروں کونے بڑی اہمیت رکھتے ہیں، انہی میں سے کسی کونے کے ذریعے نقب لگائی جاتی رہی ہے۔ اب ہر کونے پر ایک مضبوط اور مستعد دربان بیٹھا ہے۔ ہر راستہ محفوظ بنا دیا گیا ہے، اب کوئی نہیں کہے گا کہ راتوں رات نقب لگ گئی، انتخابات پر شب خون مارا گیا، نتائج تبدیل کئے گئے، ایسا تو اب شاید ممکن ہی نہ رہے۔ عدلیہ نے کافی حد تک یہ ذمہ داری پوری کی ہے۔ الیکشن کی تیاریوں کے سلسلے میں ایک کام حکومتوں کی جانب سے پارٹی لیڈروں کی تشہیر ہے، مختلف چھوٹے بڑے منصوبوں کے اشتہارات اس طرح چھاپے اور چلائے جاتے ہیں کہ جیسے یہ پیسہ سیاستدان اپنی جیب سے خرچ کر رہے ہوں، یہ کام کونسلر کی سطح سے وزیراعظم تک سب کرتے ہیں۔ اسی لیے مارچ کے مہینے میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دئیے کہ اشتہارات کی مہم پر لگنے والا پیسہ سرکاری خزانے کا ہے، عوامی پیسوں سےسیاسی مہم کی اجازت نہیں دیں گے، اشتہار دینا ہے تو اپنی جیب سے دیں۔ چاروں کا ہدف شفاف انتخابات ہیں، چاروں اپنے اختیارات اور ذمہ داریوں سے واقف ہیں، چاروں سرد و گرم چشیدہ ہیں، چاروں اِس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ مُلک میں شفاف انتخابات نہ ہوئے تو بہت بڑے بحران کا خطرہ ہے۔ چاروں کو یہ بھی علم ہے کہ بروقت انتخابات مُلک کے لئے کتنے ضروری ہیں، چاروں یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ اگر نہ چاہیں تو کوئی انتخابات کو آگے نہیں لے جا سکتا، سو اِس لئے سب کچھ بہت محفوظ ہاتھوں میں ہے۔

مُلک کے نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصر الملک کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ نام ونمود سے دور رہ کر کام کرنے والے انسان ہیں۔ اس کا اندزہ اس بات سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے حلف اُٹھانے سے پیشتر میڈیا سے بات کرنا گوارا نہیں کیا۔ وہ مُلک کے ایک بہت بڑے منصب پر فائز رہ چکے ہیں اور نیک نامی کے ساتھ ریٹائر ہوئے ہیں۔ وہ یقیناًیہ نہیں چاہیں گے کہ عمر بھر کی ریاضت کو چند دِنوں کی حکمرانی کے لئے ضائع کر دیں، سو اُن کی اول و آخر کوشش یہی ہو گی کہ جس مقصد کے لئے انہیں نگران وزیراعظم بنایا گیا ہے، اُسے پورا کر سکیں۔ اُن پر سب جماعتوں نے اعتماد کیا ہے، جو اس امر کی دلیل ہے کہ وہ انتہائی قابلِ اعتماد آدمی ہیں، جن پر قوم بھروسہ کر سکتی ہے، جہاں تک چیف الیکشن کمشنر سردار احمد رضا کا تعلق ہے تو انہوں نے خود کو اب تک بڑی حد تک غیر جانبدار ثابت کیا ہے۔ انہوں نے جس بھرپور انداز سے عام انتخابات کی وقت سے پہلے تیاری مکمل کی ہے، وہ اُن کی لگن اور جذبے کو ثابت کرتی ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ وہ ایک فول پروف انداز میں شفاف اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنائیں گے، انہیں عدلیہ اور حکومت کی مکمل سپورٹ حاصل ہو گی۔ ہمارے لئے انتخابات ایک بہت گنجلک مسئلہ ہوتے ہیں۔ پہلے تو اُن کے بروقت انعقاد پر شکوک و شبہات منڈلاتے ہیں، پھر اُن کی شفافیت پر انگلیاں اٹھتی ہیں اور سب سے آخر میں نتائج کا اعلان ہوتا ہے تو دھاندلی کا شور مچ جاتا ہے، اِس لئے یہاں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں اب جمہوریت تسلسل کی طرف گامزن ہے، چوتھی مرتبہ مسلسل انتخابات ہو رہے ہیں، گویا ہم ایک سنگِ میل تو پہلے ہی عبور کر چکے ہیں، اب ہمیں شفافیت کو یقینی بنانا ہے، جو ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہی ہے۔

پورے مُلک میں عدلیہ کے جج حضرات ریٹرننگ افسران بنا دیئے گئے ہیں۔ اُن کی ذمہ داری تو چیف جسٹس ثاقب نثار نے پہلے ہی اٹھا لی ہے کہ عدلیہ شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے گی۔ پولیس اسٹیشنوں پر امن و امان کے لئے سب فوج کی تعیناتی کا مطالبہ کر رہے ہیں، امید ہے یہ مطالبہ بھی مان لیا جائے گا۔ یوں پولنگ اسٹیشن تک آنے اور ووٹ ڈالنے کے مرحلے کو ریٹرننگ افسران یقینی بنائیں گے۔اِس بات کو یقینی بنایا جانا چاہئے کہ پریذائیڈنگ افسران اپنے پولنگ اسٹیشن کا مصدقہ نتیجہ لازماً سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹوں کو دیں تاکہ ریٹرننگ افسران کے نتائج کا کاؤنٹر چیک ہو سکے۔ 2018ء کے انتخابات عدلیہ کی ساکھ کے لئے ایک چیلنج بن گئے ہیں۔ قوم کی نظریں اب عدلیہ سے تعلق ر کھنے والے چار بڑوں پر لگی ہوئی ہیں۔ گویا قوم نے انہیں اپنا سارا اختیار سونپ دیا ہے۔ اس بار یہ انتخابات اِس لئے بھی ایک بڑا چیلنج ہیں کہ پانچ برس تک برسر اقتدار رہے والی جماعت ابھی سے یہ خدشات ظاہر کر رہی ہے کہ اُسے آزادانہ انتخابات میں حصہ نہیں لینے دیا جائے گا۔ اُس کے امیدواروں کو مختلف ہتھکنڈوں سے خوفزدہ کر کے انتخابی مہم نہیں چلانے دی جائے گی۔ پولنگ والے دن بھی اُن کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی۔ یہ مسلم لیگ(ن) کی حکمتِ عملی کا حصہ ہو سکتا ہے کہ ایسا ماحول بنا دیا جائے کہ اگر شکست ہو تو اُسے دھاندلی کے الزام تلے دبایا جا سکے۔

حالات کس قدر حساس ہیں، اس کا اندازہ اِس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے چند روز پہلے پنجاب میں کام کرنے والے افسران کو اعلیٰ کارکردگی پر ایوارڈ اور کیش انعامات دیئے تو اُسے بھی سیاسی حریفوں نے پری پول رگنگ قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اب یہی افسران مختلف عہدوں پر تعینات ہو کر انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کریں گے۔ بادی النظر میں یہ الزام مضحکہ خیز نظر آتا ہے، مگر الزام تو ہے۔ اُدھر وزیراعظم نے جب وفاقی ملازمین کو تین اضافی تنخواہیں دینے کا اعلان کیا تو اپوزیشن اُس کے پیچھے ہی پڑ گئی، بالآخر وزارتِ خزانہ کو وضاحت کرنا پڑی کہ یہ تنخواہیں صرف بجٹ بنانے والے سرکاری افسران کو دی جائیں گی۔ سو حالات جب اس حد تک چلے جائیں، آپ کی چھوٹی چھوٹی باتوں پربھی نظر رکھی جا رہی ہو تو شفاف انتخابات کا بھرم قائم رکھنا ایک بہت بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔ تاہم امید کی جانی چاہئے کہ حاضر اور ریٹائرڈ چار ججوں کی موجودگی میں دو بنیادی اہداف ضرور حاصل ہوں گے۔ اول یہ کہ انتخابات کی ایسی شفافیت جو سب کو نظر بھی آئے اور دوم یہ کہ انتخابات کا بروقت پُرامن انعقاد۔۔۔ یہ دو ٹاسک مکمل ہو گئے تو سمجھو پاکستان ہر قسم کے بحرانوں سے محفوظ ہو گیا۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں، بس عزم و ارادہ اور نیک نیتی چاہئے اور قوم یہ سمجھتی ہے کہ جن شخصیات کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے وہ ان خوبیوں سے مالا مال ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply