بلاک۔۔۔۔طارق احمد

ہماری بلا سے بھائی جان ، قدر دان ، مہربان ۔ میں کوئی گھر تیار کردہ آنکھ کا سرمہ ، جلاب کی گولیاں ، ہاضمے کی پھکی بیچنے اس دیوار کے سائے میں یہ بھیڑ لگا کر نہیں بیٹھا۔  کچھ عرض کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر اچھا لگے تو تالی بجا دینا۔ کچھ اضافہ کر دینا  ورنہ اپنے اپنے گھر چلے جانا۔ اور ہاں سامنے والے بیٹھ جائیں تاکہ پچھلے والے بھی سن سکیں اور دیکھ سکیں۔ یہ افراد کی اقسام کا معاملہ  ہے۔ تماشہ نہیں،  جو کچھ اس طرح  ہے۔
چند افراد ذاتی اظہار محبت میں اتنےمہذب اور با تمیز ہوتے ہیں   کہ کچی دیوار ان کی شائستگی اور شستہ پن کا بوجھ اٹھانے سے جواب دے جاتی ہے۔ چنانچہ  صحت ، ذاتی سکون اور  دیوار کی سلامتی کے لیے ایسے باادب افراد کو فی الفور بلاک کر دینا ضروری ہو جاتا  ہے۔
کچھ افراد اپنی شائستگی اور مہذب پن کے حوالے سے کنفیوز ہوتے ہیں  اور ان کا اصرار ہوتا  ہے۔ وہ تو دلیل سے کام لے رہے  ہیں۔ یہ وہ افراد ہیں  جنہیں اپنے غیر مہذب الفاظ سے زیادہ خود کے مہذب ہونے پر یقین ہوتا  ہے۔ انہیں ایک دو مواقع فراہم کیے جاتے ہیں تاکہ اپنے الفاظ کے چناو پر غور کر لیں۔
چند افراد جان بوجھ کر چیزہ لیتے ہیں ۔ ان کے جواب میں بطور وارننگ خاموشی اختیار کی جاتی  ہے۔ بعض نہ آنے پر  ان فرینڈ کیے جاتے ہیں  اور آخر میں بلاک کرکے ثواب دارین کمایا جاتا ہے۔
کچھ افراد اپنی عقل و دانش اور تصور کو لے کر خوش فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں  اور دوستوں کی دیواروں پر محض اس اعلی تصور کے ساتھ جاتے ہیں کہ ان کی راہنمائی فرما سکیں ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بڑے بڑے کیڑے نکالتے ہیں۔ اور مخولیہ تنقید کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ مزاحیہ کردار ہوتے ہیں۔ انہیں دوستوں کے منورنجن کے لیے دیوار پر رکھنا ضروری  ہے۔
اچھا کچھ ستم ظریف مہذب الفاظ میں بے عزتی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ رعایت لفظی کے ماہر ہیں  اور ادب میں بے ادب واقع ہوتے ہیں۔ انہیں ادب کے ساتھ بتانا ہوتا  ہے کہ آپ ایک بدتمیز شخص ہیں۔
چند افراد ہنسی مذاق میں سنجیدہ  بے عزتی  کر جاتے ہیں ۔ آپ بھی دل کھول کر قہقہہ لگائیں   اور پھر اپنی دیوار ان پر بند کر دیں ۔
مخالف نقطہ نظر کے کچھ سلیقہ مند احباب بہت ضروری ہیں تاکہ مخالف مورچوں کی بابت معلوم ہوتا ر ہے۔
معصوم اور ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کے زیر اثر افراد پر کبھی محبت اور کبھی غصہ آنا لازمی  ہے۔ انہیں وقت کے حوالے کر دینا چاہیے۔
اپنے طور پر ڈکلیرڈ بہت بڑے مسلمان اور محب وطن بھی معصومیت کی اسی کیٹیگری میں آتے ہیں  لیکن اگر وہ مسلمانی اور حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹنے شروع کر دیں  تو فوری طور پر بلاک کرنا ہی آپشن رہ  جاتا  ہے۔
قریبی ذاتی دوستوں اور رشتہ داروں کو بلاک رکھنے میں ہی عافیت ہے ۔ ورنہ خاموشی اختیار کی جائے۔
یاد رکھیں   یہاں کچھ ایسے افراد بھی ہیں   جو علم کے سمندر میں چھلانگ لگاتے ہیں  اور جب باہر نکلتے ہیں تو خشک ہوتے ہیں۔
نوٹ۔ بحث سے بچنا اتنا ہی ضروری  ہے  جتنا ادھار دینے سے۔ وہاں رقم اور دوست دونوں کا نقصان ہوتا ہے۔ بحث میں دلیل اور دوست دونوں ضائع ہوتے ہیں۔ یاد رکھیں   جو شخص آپ سے بحث یا مکالمہ کرتا  ہے  وہ قائل ہونے کی بجائے آپ کو قائل کرنے کے چکر میں ہوتا ہے  اور آپ نے قائل ہونا نہیں ۔۔ پھر فائدہ ؟ہاں اگر آپ ویلے ہیں ، بحث خورے ہیں، مغز کھانا پسند کرتے ہیں  تو پھر ٹھیک  ہے  ورنہ اپنے پسند کے لوگوں سے دوستیاں کریں اور امن اور چین کی زندگی گزاریں ۔ دوستی کی فلاسفی بھی یہی ہے ۔ اچھا دوست وہ  ہے  جو تنہائی میں خوشامد نہیں کرتا اور پبلک میں برائی نہیں کرتا۔ جبکہ احمق دوست مذاق اور تنقید کو لے کر تنہائی اور پبلک میں فرق نہیں رکھتا۔ بغیر مفاد کے دوستی صرف محبت اور باہمی عزت سے ہی قائم رہ سکتی  ہے۔  جو آج آپ کا دوست نہیں وہ کل بھی آپ کا دوست نہیں تھا  اور آخری بات ۔۔ دوستی ، محبت اور لحاظ کی بھی عمر ہوتی  ہے۔ یہ رشتے ، یہ ناطے ، یہ دوستیاں ، یہ محبتیں اپنی اپنی عمر مکمل کرکے ختم ہو جاتے ہیں ۔ جب یہ ہوں تو انہیں اتنی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں   اور جب ختم ہو جائیں تو پھر ہلکی سی سنجیدگی کی بھی ضرورت نہیں۔ رشتے وہ جو  ملتے رہیں اور رشتے تبھی  ملتے ہیں جب آپ زندگی میں کچھ بن جاتے ہیں۔ ورنہ شکوے شکائتیں ، احساس شکست اور بگڑی اور اکڑی ہوئی  انا رہ  جاتی  ہے۔ ناکام شخص کو ماضی کی  ہر یاد بھالے کی مانند دل میں کھبتی  ہے۔ جبکہ کامیاب شخص اپنے حال میں مست مستقبل پر نظر رکھتا  ہے۔  زندگی ایک ٹرین کی مانند  ہے۔ لوگ چڑھتے ہیں ۔ کچھ دیر آپ کے ساتھ بیٹھتے ہیں گپ شپ لگاتے ہیں  اور پھر اپنے اسٹیشن پر اتر جاتے ہیں۔ آخری اسٹیشن پر آپ کو خود ہی جانا  ہے۔

Facebook Comments

طارق احمد
طارق احمد ماہر تعلیم اور سینیئر کالم نویس ہیں۔ آپ آجکل برطانیہ میں مقیم ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply