محبت کو جینا ہے۔۔۔ثوبیہ چوہدری/آخری قسط

یہ دنیا تب ہی کیوں جاگتی ھے جب کسی کے درد کو دوا ملنے لگے ۔جب خوشیاں اس کے دروازے پر خود آکر دستک دیں ۔کہیں باس زدہ کمرے میں تازہ ہوا آنے لگے ۔؟
کیوں اس دنیا کو اسی وقت ساری معاشرتی پابندیاں ، اخلاقیات ، سماجی حدیں ، خاندان اور روایات یاد آجاتی ہیں ؟
اس وقت کہاں سوئے ہوتے ہیں یہ معاشرے کے ٹھکیدار جب ایک اکیلی طلاق یافتہ عورت جینے کے لیے دھکےکھاتی ہے ؟۔ کیسی کیسی باتیں نہیں سنتی ۔ حرص بھری نظریں جن سے رال ٹپکتی رہتی ھے وہ ہر وقت اپنے جسم پر محسوس کرتی ہے ۔۔ہر کوئی نوچنے کو تیار بیٹھا ہے .کسی سے ہنس کر بات کر لے تو وہ ہاتھ پکڑنے سے لیکر بستر تک کے خواب دیکھ لیتا ہے ؟
اور اگر غصے سے ہر وقت بات کرے تو یہ الزام لگائے جاتے ہیں کہ اتنی شریف ہو تو گھر میں بیٹھو ۔ لیکن مجبوری سے اس کا گھر سے نکلنا اس بات کا سرٹیفکیٹ بن جاتا ھے کہ وہ اب شریف نہیں رہی ۔ اس لیے ایک پبلک پراپرٹی بن گئی ہے جس پر ہر کوئی قبضہ چاہتا ہے ۔۔۔۔
کیا سچ میں عورت کے جسم وجان پر قبضہ کیا جا سکتا ہے ۔؟
مرد کتنے گھاٹے کا سودا کرتا ہے وہ اس کے جسم کی طلب میں اس کے احساسات کے مزے سے محروم رہ جاتا ہے اور پھر بھٹکتا ہی رہتا ہے یک متلاشی روح کی طرح ۔اور اس کی تلاش پھر کھبی ختم نہیں ہوتی ۔۔۔

عورت کی اصل خوبصورتی اور طاقت اس کے جزبات ہیں ۔اور حیرت کی بات ہے مرد اس سے جس چیز کا تقاضا سب سے زیادہ کرتا ہے وہ سب سے کم قیمت ہے ۔جسم تو مرد کو ایک طوائف کا بھی مل جاتا ہے لیکن وہ جزبات نہیں ملتے ۔وہ جزبات اور احساس جس میں وہ اس کے لیے پل پل مرتی ہے ، سے یاد کرتی ہے ۔ اس کے لیے بنتی سنورتی ہے ، اس کے لیے ہنستی ہے اس کے لیے روتی ہے ۔اس کا ہر پل ساتھ چاہتی ہے ۔ہر سوچ اور ہر دعا اسی سے شروع اسی پہ ختم ہوتی ہے ۔ اس کا انتظار کرتی ہے ۔ اسے اتنا پیار دیتی ہے کہ اسے کسی اورشے کی طلب نہ ہو ۔وہ جسم جس کا وہ سب سے زیادہ طلب گار ہوتا ہے وہ خود اس پر نچھاورکر دیتی ہے ۔وہ سب سے چھپنے لگتی کہ اسے اور کوئی نہ دیکھے نہ اسے کویئ سوچے , اور نہ ہی اسے کوئی اور سراہے۔

زارا اس کیفیت سے گزر رہی تھی ۔شاہ میر اس کا سب کچھ بن چکا تھا ۔ وہ ہر وقت سوچتی تھی کہ وہ اتنی خوش قسمت تھی کہ اسے شاہ میر جیسا انسان ملا ۔وہ اس کا بے انتہا خیال رکھتا تھا ۔وہ اس کی سوچ سے بھی بڑھ کر محبت کرنے والا پرخلوص انسان تھا ۔اسے زارا کے اور زارا کو اس کے ماضی سے کوئی غرض نہیں تھی وہ دونوں اپنے حال میں جینا چاہتے تھے اور مستقبل کی انہیں فکر نہیں تھی ۔
زارا اپنے حال کو اس طرح جینا چاہتی تھی کہ اس کا ہر لمحہ زندگی سے بھرپور ہو ۔شاہ میر کے ساتھ جو پل بھی گزرتے بس وہی زندگی ہوتے ۔وہ سنورنے لگی تھی ۔اس کی خوبصورتی اب اور نکھرنے لگی تھی ۔
جیسے دور پہاڑوں پر بادلوں نے سایہ کیا ہو اور پھر اچانک سے سورج نکل آنے پر پوری وادی کا حسن کھل کر سامنے آجائے ۔
جیسے آسمان پر کوئی روشنی نہ ہو اچانک سے چاند اپنا جلوہ دکھائے اور ہر طرف روشنی ہو جائے ۔
کافی دنوں سے موسم بھی بہت حسین ہو رہا تھا وہ ارم کی طرف کافی دیر سے آئی ہوئی تھی اور کمرے کے ٹیرس کے بعد کھڑی ٹھنڈی ہوا اور موسم کے مزے لے رہی تھی کہ اچانک بارش تیز ہوگئی وہ واپس کمرے میں جانے لگی کہ اس کی نظر شاہ میر کے پاؤں کی طرف پڑی وہ کچھ دیر کو ساکت کھڑی رہی ۔مخروطی انگلیوں والے خوبصورت سفید پاؤں ، کالی چپل کی قید میں تھے ۔ سفید شلوار قمیض میں اس کا دراز قد بہت نمایاں لگ رہا تھا ۔ وہ اتنے انہماک سے اسے دیکھ رہی تھی کہ احساس ہی نہ ہوا کب شاہ میر نے پاس آکر اس کا ہاتھ پکڑ لیا ہے ۔زارا ایک دم چونکی ۔

“اتنا خوبصورت لگ رہا ہوں کیا ؟ “شاہ میر نے پوچھا ۔۔۔
ہا:ں لگ رہے ہو کیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔؟ :زارا نے شرارت سے جواب دیا ۔۔۔
کیونکہ ۔۔۔۔۔۔ کیا ؟
“کیونکہ میری آنکھوں کو اچھے لگتے ہو اور میری آنکھوں میں تمہارے لیے ،، وہ ایک دم شرما گئی
شاہ میر نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا ۔۔۔۔

ہاں ،، بولو کیا ھے آنکھوں میں ؟ وہ شاہ میر کی بانہوں میں تھی اور بارش ان کو آہستہ آہستہ بھگو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔

اسے اپنے قسمت پر رشک آ رہا تھا کہ قدرت اس کے صبر کا اتنا خوبصورت انعام دے گی ۔اس نے اپنے آپ کو دنیا کی حیوانیت سے کتنا بچا کر رکھا تھا ۔ کتنے ہی موقعے ملے اسے دوبارہ سے نئی زندگی شروع کرنے کے ، لیکن وہ یہ فیصلہ بہت پہلے کر چکی تھی کہ اب اسے کسی کا ساتھ نہیں چائیے ۔۔۔۔۔

مرد کی فطرت ھے کہ جب وہ کسی راز کو پا لیتا ہے تو اسکی جستجو نہیں کرتا …..
عورت کی اپنے آپ کو عیاں کرنے کی خواہش اسے خود ہی بے وقعت کر دیتی ہے ۔ جیسے ہی ایک عورت اپنے جزبات ، اپنی پسندیدگی، اپنی سوچ کو مرد پر ظاہر کرتی ہے تو پھر مرد شانت ہو جاتا ہے ۔۔کیونکہ مرد کو صرف تسخیر کرنا ہے وہ پھر وہ فتح کے نشے میں مدہوش ہی رہتا ہے تو پھر کیا سمجھنا اور سمجھانا ؟
عورت کو تو اتنا پیچیدہ ہونا چاہے کہ مرد اسے سمجھ ہی نہ سکے اور ہمیشہ اس کی جستجو میں ہی لگا رہے ۔۔۔۔اس طرح عورت کی چاہے جانے کی خواہش اور مرد کی حاصل کرنے کی جستجو دونوں ہی فطرت کے مطابق چلتی رہے گی اور دونوں ہی خوش رہیں گے ۔۔۔۔۔۔

رضا نے بھی تو اسے محبت کے نام پر زلیل ہی کیا تھا کہ اسے محبت کے نام سے ہی نفرت ہو گئ تھی ۔اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے اپنے ایک ایک جزبات کو امانت کی طرح رضا کو سونپا ۔ وہ اس کو پوجتی تھی ۔ وہ ہنستا تھا تو وہ ہنستی تھی اس کے ماتھے کے ایک شکن بھی اسے گھنٹوں پریشان رکھتی ۔ اس کی ہر خواہش کو پورا کرنا عبادت سمجھتی تھی ۔اتنی محبت میں اندھی تھی کہ کئ دفعہ رضا کا سرد رویہ بھی اسے محسوس نہیں ہوتا تھا ۔ بلکہ کئی دفعہ وہ اس کی جنونی محبت سے ہی تنگ آجاتا تھا تو زارا کو لگتا تھا کہیں تو جھول ہے ۔ کیوں اس کی محبت کا جواب وہ ویسے نہیں دیتا تھا ۔لیکن محبت بھیک میں تھوڑی ملتی ہے ؟۔۔۔۔
سو اسے بھی بے انتہا محبت کا جواب کبھی بھیک کی شکل میں بھی نہ ملا۔
شاہ میر نے ایک فلیٹ لے لیا تھا ۔ زارا سے ایک پل کی دوری بھی اسے گوارہ نہیں ہوتی تھی ۔ وہ ارم کے گھر ملتے تو تھے لیکن کچھ دیر کے لیے کچھ ججھک کے ساتھ ۔۔کہ بہرحال وہ شاہ میر کی کزن بھی تو تھی ۔۔

ایک دن اچانک شاہ میر کی کال آئی ۔ وہ بہت پریشان تھا ۔
“میں چاہتا ہوں تم ہر پل میرے ساتھ ہو ۔ہر لمحہ تمیں محسوس کرنا چاہتا ہوں ۔ میں ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جاتا ہوں پھر سنبھلتا ہوں پھر تمہیں دیکھ نہیں پاتا پھر ٹوٹتا ہوں ۔ میرا وجود راکھ میں دبی چنگاری کی طرح سلگتا رہتا ہے ۔ میرے جزبات مدوجزر کی طرح کبھی ابلتے ہیں کھبی شانت ہو جاتے ہیں ۔”
زارا سنتی رہی اور وہ دل کھول کر سناتا رہا ۔۔۔۔۔۔
“اچھا میں آ جاونگی ۔ہم اکٹھے کھانا کھائیں گے اور خوب باتیں کریں گے ”
اگلے دن زارا نے شاہ میر کا لایا ہوا ڈریس پہنا ۔۔وہ بلیک اور پنک کلر کے سوٹ میں بہت کھلی ہوئی لگ رہی تھی ۔ خوب صورت تو وہ تھی ہی لیکن شاہ میر کے پیار نے اسے اور حسین بنا دیا تھا ۔شاہ میر کا دیا ہوا فیورٹ پرفیوم اس نے چھڑکا ۔ آج وہ بہت اہتمام سے تیار ہو رہی تھی ۔ شاہ میر کو کانوں میں بالے ، ہاتھوں میں چوڑیاں سب بہت پسند تھا ۔زارا نے وہ سب پہنا جو اسے اچھا لگتا تھا ۔
آئینہ میں اپنا آپ وہ خود دیکھ کر حیران رہ گئ ۔ یہ کیسا محبت کا نشہ تھا جو وجود کے ہر حصے سے جھلک رہا تھا ۔؟
وہ مقررہ جگہ پر پہنچی ۔ جہاں شاہ میر گاڑی میں اس کا منتظر تھا ۔ وہ جیسے ہی دروازہ کھول کر اندر بیٹھی وہ اسے دیکھ کر ساکت ہو گیا ۔ جب کافی دیر وہ اسے دیکھتا رہا تو زارا نے پوچھا ۔۔۔۔۔۔۔
کیا میں اچھی نہیں لگ رہی ؟
شاہ میر نے آگے بڑھ کر اسے کے ماتھے پر اپنے لبوں کی مہر سے سند دی کہ وہ کتنی خوبصورت لگ رہی ہے ۔۔۔۔
فلیٹ بہت ہی خوبصورت تھا ۔ کچھ فرنیچر تھا اور باقی اس نے زارا کو کہا کہ وہ اپنی مرضی سے ڈیکوریٹ کرے ۔۔۔
وہ باتیں کرتے ہوئے اس کے قریب آگیا ۔ زارا کچھ گبھرا کر دیوار کے ساتھ لگ گئی ۔شاہ میر نے اپنی بازوں کے گھیرے میں اسے جکڑ لیا ۔ اور کہنے لگا
“اب میں کہیں نہیں جانے دوں گا ۔جتنے دکھ ، تکلیفیں ، آنسو تم کو اب تک ملیں وہ تو میرے اختیار سے باہر تھا کہ ان سب کو تمہاری زندگی میں نہ آنے دیتا لیکن آج سے یہ وعدہ ہے تم صرف مسکراؤ گی ۔ اب ہم صرف محبت کو جیں گے اور محبت میں جیں گے ۔ زارا کو اس کی آنکھوں میں صرف سچائی نظر آرہی تھی وہ
شاہ میر کے گلے لگ گئی ۔
اس کے چھونے سے قطرہ قطرہ نشہ اتر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔

اس کی پلکوں پہ آئے آنسو شاہ میر نے اپنے لبوں سے چنے ۔۔۔۔۔
کائنات جیسے تھم سی گئی

صرف ان دونوں کی دل کی دھڑکنوں کی آواز ۔
ان کی سانسوں کی تپش ۔۔۔۔
ان کے لرزتے وجود ۔۔۔۔۔
کانوں میں سرگوشیاں ….۔
کچھ بے ترتیب سلوٹیں ….
کچھ دبی دبی سی سسکیاں ۔۔۔۔
اور چند ٹوٹی ہوئی چوڑیاں ۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ پل جب گزرے تو وہ ، کائنات ، ارد گرد کا سب کچھ بدل گیا تھا ۔ نہ کچھ اس سے پہلے یاد تھا نہ آنے والے وقت کی پروا ۔۔۔۔۔
سوائے اس کے کہ وہ آج مکمل ہو گئی ہو ۔۔۔۔
۔ وہ اسے کئی بار بتا چکی تھی کہ جس دنیا نے سواۓ تکلیف اور الزامات کے کچھ نہیں دیا وہ اس کی اب پروا نہیں کرے گی ۔ اسے کوئی غرض نہیں کون کیا کہے گا اور کیا سنے گا ۔ وہ جانتی تھی کہ وہ اسے اولاد کی نعمت نہیں دے سکتی تو کیوں اس کے ساتھ ایسے رشتے میں بندھے جو اسے قید کردے ۔ خدا نے شاہ میر کو اولاد کی نعمت سے نوازا ہوا تھا ۔ زارا نے شاہ میر کو پہلے ہی اچھی طرح واضح کر دیا تھا کہ وہ اس کی شادی شدہ زندگی کو ڈسڑب نہیں کرے گی ۔ وہ اکیلے رہ کر سب سہنے کی عادی ہے ۔اسے صرف شاہ میر کا ساتھ اور پیار چائیے ۔وہ اس کی روح میں بس گیا تھا ۔ شاہ میر کی محبت اس کی طاقت بن گئی تھی ۔۔۔
کچھ ہی دنوں کے بعد وہ خالہ کے گھر سے شاہ میر کے فلیٹ پر شفٹ ہو گئی ۔۔۔۔۔
کیونکہ ۔۔۔اسے اب محبت نہیں کرنی ، محبت کو جینا ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply