• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بلاول بھٹو ! آپ لیاقت آباد کس منہ سے جا رہے ہیں ؟۔۔۔سید عارف مصطفٰی

بلاول بھٹو ! آپ لیاقت آباد کس منہ سے جا رہے ہیں ؟۔۔۔سید عارف مصطفٰی

 زور و شور سے اعلانات ہو رہے ہیں کہ  بلاول بھٹو کل یعنی اتوار 29 اپریل کو لیاقت آباد میں ایک جلسہ عام سے خطاب کریں گے۔۔۔ اس سے قبل ان کے  نانا یعنی وزیراعظم ذوالفقار  علی  بھٹو 1976 میں  یہاں بڑے طنطنے سے پہنچے تھے کہ جب وہ یہاں لیاقت آباد سپر مارکیٹ کا افتتاح کرنے آئے تھے اور جیسے ہی ان کے منہ سے یہ طعنے بھرے الفاظ نکلے تھے کہ  ” کچھ لوگ کہتے تھے کہ مجھے کبھی لیاقت آباد نہیں آنے دیں گے ۔۔۔ لیکن دیکھ لو آج میں یہاں کھڑا ہوں ۔۔” تو یکایک ان پہ جوتوں کی برسات شروع ہوگئی تھی اور وہ تقریر ادھوری چھوڑ کے بھاگ نکلے تھے ۔۔۔۔ میں چونکہ خود  اس جلسے کی دوسری صف میں موجود تھا لہٰذا اس جوتاباری کا عینی شاہد ہوں ۔۔۔ اس کے بعد پھر کبھی مڑ کے بھی انہوں نے سرفروشوں کی اس بستی کا رخ کرنے کی ہمت نہیں کی تھی ۔۔۔ حتٰی کہ ان کی صاحبزادی یعنی بینظیر جنہیں ان کے مداح جرات اور بہادری کی علامت قرار دیتے نہیں تھکتے تو دو مرتبہ اقتدار میں آنے کے باوجود ان کی بھی کبھی یہاں کسی جلسے کے انعقاد کی ہمت نہیں ہوسکی تھی ۔۔۔ لیکن خیر اب جبکہ پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہ گیا ہے، تو بعضے بھٹو پرستوں کا یہ سمجھنا ہے کہ اب فضا بدل چکی ہے اور پہلے والا لیاقت آباد  اب ویسا نہیں رہا ۔۔۔

لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے ۔۔ میرا خیال ہے کہ لیاقت آباد ایسا بھی تبدیل نہیں ہوا کہ 10 نمبر لیاقت آباد کے موڑ پہ واقع مسجد کے احاطے میں مدفون ان شہداء کی قبروں ہی کو بھول جائے کہ جو شہدائے اردو کہلاتے ہیں اورجو 7 جولائی 1972 کے بدنام زمانہ لسانی بل کے خلاف احتجاج کرنے کی پاداش میں وحشی و متعصب پویس کی گولیوں سے بھون دیئے گئے تھے اور اسی طرح کی چند قبریں ضلع ملیر میں کھوکھرا پار کالونی اور سعودآباد کی درمیانی چورنگی پہ آج بھی موجود ہیں – یہ لسانی بل اردو کو یکسر ہٹاکے سندھی کو سرکاری زبان کے طور پہ مسلط کردینے کی وہ  سیاہ کاری بلکہ سیاسی کارو کاری تھی کہ  جس کے ردعمل میں رئیس امروہوی کی وہ شہکار نظم وجود میں آئی تھی کہ اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔۔۔

درحقیقت یہ طرز عمل بھٹو کی اس نفرت کا کھلا مظہر تھا جو کہ وہ اردو بولنے والوں کے خلاف اپنے دل میں رکھتا تھا اور اسی لیے  اس نے اپنے دور اقتدار میں اردو بولنے والے طبقے سے تعلق رکھنے والے بیورو کریٹس کو بڑی رحمی سے نکالنے کی پالیسی اپنائے رکھی- 1972 میں لسانی بل کے خلاف شدید عوامی احتجاج کے بعد گو کہنے کی حد تک ایک ترمیمی دولسانی بل پیش ضرور کردیا گیا تھا لیکن عملاً بھٹو حکومت نے اس معمولی سی پسپائی کا بدلہ بھی اس بھیانک انداز میں لیا تھا کہ  اگلے ہی برس نئے آئین میں سندھ میں کوٹا سسٹم نافذ کردیا تھا کہ جس سے سندھ کی شہری آبادی کو اچھوت بناکے رکھ دیا گیا تھا اورپھر انہیں ہر سرکاری شعبے میں بری طرح سے نظرانداز کردیا گیا تھا اور شہری کوٹے پہ بھی پچھلے دروازے سے نسلی سندھیوں ہی کو مسلط کرنے کی اندھی مچادی گئی تھی جو کہ آج اس سے بھی زیادہ زور و شور سے جاری و ساری ہے اور اسی عمل کے تسلسل کی وجہ سے سندھ میں سرکاری ملازمتوں میں اردو بولنے والوں کا تناسب شرمناک حد تک کم کردیا گیا ہے اور نوبت یہ ہے کہ کراچی کے قلب میں واقع سندھ سیکریٹر یٹ میں اردو وال طبقے کے لوگ بس اتنے ہی دکھائی دیتے ہیں جتنے کہ کسی بڑی جنج یا دھوم دھام کی بارات میں چند بینڈ باجےوالے ۔۔۔۔

پیپلز پارٹی کی اردو بولنے   والوں کی بیزاری تاریخ محض انہی چند باتوں تک محدود نہیں بلکہ اس کے ہر دور اقتدار میں ان کے ساتھ شدید نفرت کی داستان بہت سے نکات اور واقعات سے لبریز ہے ۔ اس ضمن میں ایک خونچکاں باب سانحہء پکا قلعہ حیدرآباد کا بھی ہے کہ جب بے نظیر کے پہلے دور حکومت میں مئی 1990 میں اس طقے کی ایک بڑی بستی کے خلاف ایک خونی آپریشن کیا تھا اور پہلے تو یہ وحشت ناک ظلم ڈھایا گیا تھا کہ  پولیس کی ایگل  سکواڈ کی درجنوں موبائلوں‌نے اس علاقے کو اپنے محاصرے میں لے لیا تھا اور کئی روز تک پانی بجلی اور اشیائے خوردو نوش کی سپلائی منقطع کرکے محبوس مکینوں‌ کو بھوکا پیاسا مارا گیا تھا اور پھر جب سر پہ قرآن رکھے ، خواتین ، بچوں اور بزرگوں کی ایک بڑی تعداد احتجاج کرنے کے لیے  باہر سڑک پہ آنے پہ مجبور ہوگئی تو 27 مئی کی خونی دوپہر انہیں گولیوں سے بھون ڈالا گیا اور کتنے ہی بےگناہ افراد خاک و خون میں تڑپا تڑپاکے مار دیئے گئے تھے۔

چونکہ ان اردو بولنے والوں کا لہو دراصل خون خاک نشیناں تھا سو رزق خاک ہوا اور اٹھائیس برس گزر جانے کے باوجود آج تک جی ہاں آج تک اس ننگی بربریت کی چھان بین نہیں کی گئی اورکبھی کسی قسم کا کوئی تفتیشی ٹریبونل قائم کرنے کا تکلف بھی روا نہیں رکھا گیا ۔۔۔ آج جب میں چار برس قبل سانحہء ماڈل ٹاؤن لاہور کے 14 مقتولین پہ سیاسی لوگوں کو بلبلاتے اور شور مچاتے دیکھتا ہوں تو یہ سوچنے پہ مجبور ہوجاتا ہوں کہ کیا پکا قلعہ کے یہ شہداء انسان نہیں تھے اور آخر ان کے اس وحشیانہ قتل پہ ہماری سیاسی قیادتوں کی پاکستانیت بلکہ انسانیت کیوں نہیں جاگتی؟ کیونکہ انکے سیاسی قاتلوں کے ساتھ ہمارے آج کے سیاسی گرو بڑے طمراق سے کھڑے ہوتے ہیں اور انہیں جھپیاں ڈالتے ذرا نہیں شرماتے بلکہ انہیں سر آنکھوں پہ بٹھاتے ہیں ۔

میرا سوال اس عدلیہ سے بھی ہے کہ اس نے آخر اب تک شہری آبادی پہ ڈھائی اس وحشت و بربریت کا اب تک کوئی نوٹس کیوں نہیں لیا اور اس کے نزدیک بھی صرف ماڈل ٹاؤن کے مقتولین ہی انسان مسلمان اور پاکستانی تھے ۔۔۔؟ یہ جو   چند نکات میں نے یہاں بیان کیے  ہیں یہ کسی افسانے سے نہیں لیے گئے بلکہ وہ تاریخی سچائیاں ہیں کہ جنہیں کبھی جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔۔۔ لیکن بعد میں بھی پیپلز پارٹی کی یہ مہاجر دشمنی ختم نہیں ہوئی بلکہ یوں کہنا چاہیے  کہ کسی تادیب اور سزا نہ ہونے سے اس کے منہ کو خون لگ چکا ہے اور اب تو اس کے تازہ صوبائی دور حکومت میں صرف اردو بولنے والے ہی نہیں تمام شہری آبادی ہی کو دیوار سے لگادیا گیا ہے ان کے لیے  سرکاری ملازمتیں اور سندھ کے اندرونی شہروں میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ان کے داخلے عملاً ناممکن بنادیئے گئے ہیں ۔۔

لہٰذا جب تک اس طبقے کے ساتھ یہ گھناؤنا طرز عمل جاری ہے اور اب اتنے بڑے شہر کراچی کے لیے  صرف دس بسوں کی فراہمی سے تو یہ بالکل واضح طور پہ ثابت ہوچکا ہے کہ اس شہر سے اس کی نفرت اور بیزاری کا کیا عالم ہے اس شرمناک صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی نسل پرستی کی پالیسی میں کوئی بڑی کایا کلپ واقع ہوچکی ہے۔۔ایسے میں سرکاری مشینری کی وحشیانہ طاقت کے بل پہ کسی شہری علاقے میں وہ اگر اندرون سندھ اور لیاری و ملیر سے اپنے نسل پرست حامیوں یا خود فریبی کا شکار چند اردو وال افراد کو اکٹھا کرکے بلاول کا کوئی جلسہ کرنے میں بھلے کامیاب ہو بھی جائیں لیکن انہیں اس طبقے کا حقیقی التفات اس وقت تک نہیں میسر آسکتا کہ  جب تک وہ اپنی نسل پرستی کی پالیسی ترک کرکے ان کے زخم زخم دلوں‌پہ محبت اور ہمدردی کا حقیقی مرہم نہیں رکھتے اور وہ اور ان کے بابا اپنے حواریوں کے ہاتھوں اس شہر کو وسائل لوٹنے کی جگہ اس شہر کے لیے  تعمیر و ترقی کا دور شروع نہیں کرتی اور یہاں کے رہنے والوں کے لیے  بڑے ہرپیمانے پہ روزگار اور تعلیم کے دروازے نہیں کھولتے   اور جب تک ایسا نہیں ہوتا تو میں ان کی خدمت میں اہل کراچی کی جانب سے یہی شعر پیش کرسکتا ہوں کہ ”

” ہم بدلے نہ تم بدلے نہ دل کی آرزو بدلی 

Advertisements
julia rana solicitors

میں کیسے اعتبارِ انقلابِ آسماں کرلوں”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply