• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بلند پایہ قادر الکلام شاعر و خطیب شہید محسن نقوی۔۔ارشاد حسین ناصر

بلند پایہ قادر الکلام شاعر و خطیب شہید محسن نقوی۔۔ارشاد حسین ناصر

یہ ملک تو جیسے لوگوں کو دکھ جھیلنے، صدمات برداشت کرنے اور حادثات سہنے کیلئے ہی بنا تھا۔ کبھی بھی یہاں سکون، سکھ، چین، راحت، آرام اور امن و سلامتی کا زمانہ نہیں دیکھا گیا۔ کبھی کوئی حادثہ کبھی کوئی واقعہ، کبھی کچھ سانحہ، کبھی کوئی سیکینڈل سامنے آتا ہے۔ کبھی کوئی روگ، کبھی کچھ اور غم ناک وقوعہ ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ ایک زمانہ تھا خبریں محدود نشر ہوتی تھیں، جب سے انٹر نیٹ اور ٹیکنالوجی کاا نقلاب آیا ہے، اب کوئی بات بھی چھپنا یا نظروں سے اوجھل ہونا ممکن نہیں رہا۔ اب لگتا ہے کہ ہمارے دکھ بڑھ گئے ہیں۔ اس کی واضح مثال حالیہ سانحہ مری ہے، جس میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے لوگوں نے اس دکھ اور غم کو اپنا دکھ جانا، رہی سہی کسر کرونا وبا نے پوری کر دی کہ جب تعلیم بھی آنلائن ہو رہی ہے تو اینڈرائیڈ موبائل بچوں تک بھی لازمی قرار پائے ہیں، جس سے ہر خبر بچوں تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ بہرحال بات یہ ہو رہی تھی کہ اس ملک پر کچھ ایسا آسیب کا سایہ ہے کہ یہاں کوئی نہ کوئی سکینڈل، کوئی نہ کوئی ایشو ہمیشہ حالت اضطرار کو جنم دیتا رہا ہے۔ ایسا واقعہ اور سانحہ جس میں ایمرجنسی حالات سے دوچار ہوتے ہیں۔

سیاسی حالات ہوں یا انتظامی، امن و سلامتی کا ایشو ہو یا دہشت گردی، ہر ایک میں عوام ہی پستے ہیں اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ طاقتور حلقے کئی ایک بار ایک ایشو کو اوجھل کرنے کیلئے نئے ایشوز کھڑے کر دیتے ہیں۔ دہشت گردی اور فرقہ وارانہ قتل و غارت گری ایک بہت ہی المناک داستان سموئے ہوئے ہے کہ جس میں ہزاروں بے گناہ لوگ مارے گئے۔ ان میں بہت ہی اعلیٰ دماغ بھی تھے، ملک کے خدمت گار اور اس ملت پر احسان کرنے والے بھی کہ انہیں بیرون ممالک ایڈجسٹ ہونے کے مواقع تھے، مگر انہوں نے وطن کے لوگوں کی خدمت کرنے کو ترجیح دی اور ادھر ہی رزق خاک ہوئے۔ دہشت گردی اور فرقہ وارانہ تعصب نے ہم سے ایسے ایسے گوہر نایاب چھین لئے کہ جن کا متبادل کوئی نہیں تھا نہ ملا۔ جیسا کہ کہا گیا کہ ہر طبقہ فکر اور سماج کے لوگ اس کا شکار ہوئے، شہدا ٗ کی فہرست جو کافی طویل ہے، ان چمکتے ستاروں اور وطن کے فرزندان میں علماء بھی ہیں اور عمائدین بھی، ڈاکٹرز بھی ہیں اور وکلا بھی، اعلیٰ آفیسرز بھی ہیں اور خطیب بھی، شاعر بھی ہیں اور ادیب بھی، پروفیسرز بھی ہیں اور انجینئرز بھی، طالبعلم بھی ہیں اور تاجر بھی۔

الغرض اس تعصب و تنگ نظری کا شکار ہر طبقہ فکر اور شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے انتہائی قیمتی اور ملک کے حقیقی خدمت گذار نظر آتے ہیں۔ کس کس کا نام لیں، کس کو روئیں، کس کس کا ماتم کریں، یہ ایک دو دن کی بات نہیں، کم از کم پینتیس برس سے زائد عرصہ کی لہو رنگ داستان ہے، جسے سنانے کیلئے بہت وقت درکار ہے اور لکھنے کیلئے کتابوں کا بار۔ حماد اہلبیت سید محسن نقوی بھی ان چنیدہ شخصیات میں سے ہیں، جو اس تعصب اور تنگ نظری کا شکار ہو کر ہم سے چھین لیے گئے۔ حماد اہلبیت سید محسن نقوی کا اصل نام سید غلام عباس تھا۔ ان کا تعلق جنوبی پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان سے تھا۔ محسن نقوی نے 6 مئی 1947ء کو جنوبی پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خاں میں سید چراغ حسن نقوی کے گھر میں آنکھ کھولی، مگر محسن نقوی نے اپنا مسکن و رہائش لاہور کو پسند فرمایا۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان سے ایم اے اردو کیا تھا۔ اس دوران ان کا پہلا مجموعہ کلام شائع ہوا، جس کے بعد ان کی شہرت و نام کو بام عروج ملا، اسی دوران وہ لاہور منتقل ہوگئے، جہاں 15 جنوری 1996ء کو انہوں نے لاہور کی معروف مون مارکیٹ دبئی چوک میں تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت پائی۔ محسن نقوی نے کیا خوب کہا
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کرکے

سید محسن نقوی کی شخصیت کے کئی حوالے قابل ذکر ہیں۔ انہیں بطور ایک شاعر دیکھیں یا ایک بلند پایہ خطیب کے طور پر سامنے لائیں۔ ان کی شخصیت کو ایک ادیب کے طور پر پیش کیا جائے یا ایک مداح اہلبیت ؑ اور ذاکر امام حسین ؑکے طور پر۔ انہیں ایک قومی رہنماء کے طور پر دیکھا جائے یا ایک سیاستدان کے طور پر، محسن نقوی کئی حوالوں سے منفرد شناخت رکھتے تھے۔ میری نظر میں ان کی شاعری انہیں ان سب حیثیتوں سے ممتاز اور بلند کرتی ہے، وہ شاعر تھے، غزل گو تھے، مگر ان کی نظمیں بھی لافانی ہیں، وہ شاعری میں منفرد حیثیت و مقام کے حامل تھے۔ آپ شہید محسن نقوی کو جب جب پڑھیں گے، ان کے کلام سے نئی ضوفشانیاں پائیں گے۔ وہ ادب کے ہر رنگ اور شاعری کی ہر صنف پر ناصرف خوبصورتی سے پورے اترتے نظر آتے ہیں بلکہ ہر ایک صنف کو اپنا رنگ دیتے دکھائی دینگے۔ ان کی شاعری میں آپ کو مقتل، قتل، مکتب، خون، گواہی، کربلا، ریت، فرات، پیاس، وفا، اشک، صحرا، دشت، لہو، عہد، قبیلہ، نسل، چراغ، خیمہ جیسے الفاظ جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح کربلا اور اس سرزمین پر لکھی گئی ان کے اجداد کی حریت و آزادی کی بے مثال داستان سے ہے، بدرجہ اتم نظر آتا ہے۔

کربلا کے تپتے صحرا پر دین محمد ؐ اسلام کے بقاء کی لکھی گئی داستان کے ہر ورق کو محسن نقوی نے کسی نہ کسی رنگ و آہنگ میں اپنا موضوع بنایا ہے اور انہیں اپنے فکر و فلسفہ سے شاعری کے پیراہن بخشے ہیں۔ اب اس کلام میں ہی دیکھیں کہ کربلا سے درس حریت اور احساس زندگی لینے والا رہ کربلا کا یہ راہی کس طرح حالات حاضرہ دیکھ کر، اس کا احساس کرکے اسے اپنے رنگ میں اجاگر کر رہا ہے۔۔۔
قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ
اپنی پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر
سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ
وقت کا پہیہ اگرچہ مسلسل چل رہا ہے، زندگی آگے بڑھ رہی ہے، مگر اس وطن، اس زمین پر جس آسیب کا سایہ ہے، وہ نحوست کو مزید بڑھا رہا ہے۔ اچھے لوگ اٹھتے جاتے ہیں۔ روز نیا حاثہ، تہذیب و تمدن سے عاری اور اخلاقیات سے ماورا قصے کہانیاں بر سرعام ہیں، جو سماج کو گھن کی طرح کھائے جا رہے ہیں۔

انسانی توقیر و قدر نہیں رہی، احساس مر چکا ہے، عزتین پائمال کی جا رہی ہیں، ہمارے ملک کی ہر شام خون آشامیوں کی تاریک راتوں کیساتھ سامنے آتی ہے۔ محسن نقوی جیسا حساس شاعر ان حالات و واقعات اور حادثات سے بھلا کیسے لاتعلق رہ سکتا تھا، لہذا ان کی شاعری میں قتل، مقتل، بھرے بازار جیسے الفاظ شامل دکھتے ہیں تو یہ ان کے اندر کربلا کی وراثت کا اثر کہا جا سکتا ہے۔ کوئی بھی کربلا کی فکر کو اوڑھنا بچھونا بنانے والا کسی ظلم پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ انسان کو فکر معاش کے ذریعے جس طرح لاتعلق رکھنے کی سازش کی جاتی ہے، وہ ایک باشعور فرد ہونے کے ناطے اس سے آگاہ کر رہے تھے کہ
رزق، ملبوس، مکان، سانس، مرض، قرض، دوا
منقسم ہوگیا انساں انہی افکار کے بیچ
اور پھر محسن نقوی کا دردمند دل یہ کہتا ہے کہ۔۔۔۔
اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا
ابر کی زد میں ستارہ نہیں دیکھا جاتا
اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے جب تک
زیرِ خنجر کوئی پیارا نہیں دیکھا جاتا

اب جو کلام پیش خدمت ہے، اسی میں دیکھیں کہ کتنے استعارے اور الفاظ ایسے ہیں، جن کا تعلق صحرائے کربلا پر لکھی تاریخ کی عظیم ترین داستان عشق سے ہے۔
چاہت کا رنگ تھا نہ وفا کی لکیر تھی
قاتل کے ہاتھ میں تو حنا کی لکیر تھی
خوش ہوں کہ وقت قتل مرا رنگ سرخ تھا
میرے لبوں پہ حرف دعا کی لکیر تھی
میں کارواں کی راہ سمجھتا رہا جسے
صحرا کی ریت پر وہ ہوا کی لکیر تھی
شہید محسن نقوی کو صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔ اگرچہ وہ ایوارڈز اور عہدوں کے حصول اور چاپلوسیانہ طرز عمل سے کوسوں دور تھے۔ ہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کی سیاسی ہمدردیاں پاکستان پیپلز پارٹی کیساتھ تھیں۔ محسن نقوی کی پیپلز پارٹی سے وابستگی کو سراہتے ہوئے نمائندہ جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی رہنماء ذوالفقار علی بھٹو نے مفتی محمود کے مقابلے میں پارٹی ٹکٹ دیا، مگر بدقسمتی سے یہ انتخابات ملتوی ہوگئے۔

جن دنوں ان کے آبائی شہر ڈیرہ غازی خان کے سردار فاروق لغاری بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں صدر پاکستان تھے، وہ ان کی حکومت میں مشیر بھی بنائے گئے جبکہ انہوں نے دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی اسیری اور پہلی حکومت گرائے جانے پر ایک معروف نظم لکھی، جسے ایک عرصہ تک پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے جلسوں میں خاص طرز و ترنم میں پڑھا کرتے تھے، اس نظم کا عنوان: “یااللہ یارسول بے نظیر بے قصور” تھا۔ شہید محسن نقوی اپنے دور کے موثر و قادرالکلام شاعر تھے، مزاحمتی و انقلابی شاعری میں بھی ان کا اپنا ہی انداز تھا، محسن نقوی کے ہر کلام میں ان کا خاص انداز میں دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ فیض احمد فیض اور حبیب جالب کے انداز کے حامل نہیں تھے، مگر ان کا طرز تخاطب اور انداز تحریر زمانہ حال و مستقبل سے ہم آہنگ ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ان کی شاعری کو آج پڑھیں تو ایسا محسوس ہوگا کہ یہ آج کے حالات پر لکھی گئی ہے۔۔۔
منصب بقدر قامت کردار چاہیئے
کٹتے ہوئے سروں کو بھی دستار چاہیئے
اک صبح بے کفن کو ضرورت ہے نوحہ گر
اک شام بے ردا کو عزادار چاہیئے
ہے مدعی کی فکر نہ مجرم سے واسطہ
منصف کو صرف اپنا طرفدار چاہیئے

اگرچہ مقتل اور قتل سے متعلق ان کے بے انتہاء خوبصورت اشعار ملتے ہیں، مگر اس کلام میں جو پیغام ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔۔۔
یہ رونقیں یہ لوگ یہ گھر چھوڑ جاؤں گا
اک دن میں روشنی کا نگر چھوڑ جاؤں گا
اور قاتل مرا نشاں مٹانے پہ ہے بضد
میں بھی سناں کی نوک پہ سر چھوڑ جاؤں گا
اور اسی کلام میں یہ شعر ملاحظہ کریں، کس طرح یہ مرد مجاہد اپنے نہ ہونے کی خبر دیتے ہوئے اپنے افکار کی ترو تازگی کی بات کر رہا ہے۔۔۔
آئندہ نسل مجھے پڑھے گی غزل غزل
میں حرف حرف اپنا ہنر چھوڑ جاؤں گا

اسی طرح انہوں نے ایک اور لافانی کلام بھی لکھا، جسے وہ مجالس میں پڑھا کرتے تھے، اس نظم میں کالعدم تکفیری گروہ کی حقیقت بیان کی گئی تھی، اس کے بول کچھ یوں تھے۔۔۔۔
کل شب کو خواب میں میرے دور پر فتن
دیکھی یزیدیت کے قبیلے کی اک دلہن
آئی صدا اس کے مقابل کرو جہاد
دیکھیں یہ ہے سپاہ صحابہ کی انجمن
محسن نقوی نے قومیات میں بھی اپنا حصہ ڈالا، اسلام آباد کے معروف معرکہ جس میں مفتی جعفر حسین قبلہ کی قیادت میں تاریخی جدوجہد کی گئی، میں وہ سٹیج پر موجود تھے اور اپنے کلام و انداز خطابت سے عوام کو گرما رہے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply