“گمنام “کی تقریبِ رونمائی میں شرکت کا احوال

یہ گزشتہ شب کی بات ہے جب میں ایک ادبی تقریب اور ایک کتاب (گمنام آدمی کا بیان) کی رونمائی میں شرکت کے لئے بیچ لگژری ہوٹل گیا ، اس کتاب کے مصنف فاضل جمیلی ہیں جو ایک معروف شاعراور صحافی بھی ہیں اور یہ ان کاپہلے شعری مجموعہ ہے،اس تقریب کے مہمان خصوصی سندھ کے وزیر اعلیٰ سیّد مراد علی شاہ تھے اور مقررین پیپلز پارٹی کی شرمیلا فاروقی اور سندھ کے وزیر تعلیم نثار کھوڑو تھے، میں تقریب کے مقررہ وقت پر ہی وہاں پہنچ چکا تھا البتہ دیگر مہمان دیر سے آئے تھے اور تقریب بھی اپنے مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوئی، تو وقت گزاری کے لئے میں نے اپنے بستے میں رکھی کتاب “زنگار” کا مطالعہ شروع کر دیا ، اس کتاب کے مصنف “ایم عامر ہاشم خاکوانی ” ہیں اور میری زندگی کے سب سے پہلے مصنف ہیں جنہوں نے مجھے اپنی کتاب تحفے میں پیش کی، جو کہ میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں، ہال میں بیٹھے زنگار کو پڑھتے ہوئے ابھی میرے دس صفحے بھی مکمل نہ ہوئے ہونگے کہ میری اگلی اور سب سے پہلی نشت پر ایک خاتون آ بیٹھیں، میں اس ہال کی دوسری نشت پر بیٹھا تھا، اور میری عموماً یہی کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی ادبی یا سیاسی تقریب میں پہلی یا دوسری نشست پر بیٹھوں ، مجھ سے اگلی نشست پر بیٹھنے والی خاتون شرمیلا فاروقی تھیں، اگر سچ کہوں تو میرا اس تقریب میں شرکت کا مقصد بھی یہی تھا کہ ایسی شخصیات سے ملاقات ہو سکے اور میں اپنے ساتھ ساتھ اپنی پوری بنگالی برادری پر نادرا کی جانب سے کیے گئے امتیازی سلوک سے آگاہ کر سکوں کہ کس طرح لوگ اپنی شناخت کے لئے نادرا کے چکر لگا لگا کر اپنے ایڑیاں گھسا چکے ہیں اور نا جانے کتنے ہی لوگ شناخت نا ہونے کے باعث بے روزگار ہیں، اور کئی خود کشی کر بیٹھے، کچھ جرائم پیشہ ورانہ گروہ کے ہتھے چڑھ گئے اور ہزاروں طالب علم اب بھی اپنی تعلیم سے محروم ہیں۔ادبی محفل میں سیاسی گفتگو کیو نکہ بے ادبی خیال ہوتی ہے اس لیے میں نے ایک صفحے پر تمام حالِ دل تحریر کیا اور ان کی خدمت میں پیش کر دیا ،انہو ں نےفوراً پڑھا اور میری طرف متوجہ ہوئیں اور پوچھا کہ ۔۔۔کہیے شاہد صاحب کیا مسئلہ ہے؟۔۔میں نے بنگالی برادری کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کو تفصیل سے ان کے گوش گزار کیا ۔بیس منٹ کی طویل گفتگوں کے بعد انہوں نے اپنے پی اے کو آواز دے کر بلایا اور کہا کہ وہ اس مسئلہ پر ضرور غور کریں گی اور اپنے پی اے سے کہہ کر میرا نمبر بھی محفوظ کیا اور اپنے پی اے کا نمبر مجھے دیا۔
ابھی پروگرام کا آغاز ہونے میں کچھ ہی وقت باقی تھا کافی مہمان آ چکے تھے، بس مہمان خصوصی کا انتظار کیا جا رہا تھا۔ میں واپس اپنی نشست پر آ ن بیٹھا اور کتاب پڑھنے لگا۔ کچھ ہی دیر بعد سندھ کے وزیرِ تعلیم اور وزیر اعلی ٰ تقریب میں تشریف لائے اور اس کے بعد تقریب کا باقائدہ آغاز کیا گیا۔تقریب پر موجود تمام مقررین نے اس کتاب اور مصنف کے بارے اپنےخیالات کا اظہار کیا اور آخر میں مہمان خصوصی کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی، جس کے بعد تقریب اپنے اختتام کو پہنچی،تقریب کے اختتام پر ہزار کوشش کے باوجود مرا د علی شاہ سے تو ملاقات نہ ہو سکی لیکن نثار کھوڑو تک میں نے کاغذ پر لکھا اپنا مدعا ضرور پہنچا دیا ،جسے انہوں نے گھر جا کر پڑھنے کے وعدے کے ساتھ اپنے پاس رکھ لیا ۔۔اب دیکھنا یہ ہے کہ نثار کھوڑو اس قوم کے بچوں کے مستقبل کے بارے میں کچھ سوچتے ہیں یا نہیں اور جو مسائل بےفارم کے باعث بچوں کی تعلیم میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں ، اس کے لئے وہ کیا اقدام کرتے ہیں، اور شرمیلا فاروقی جو اپنی پارٹی کے دفاع میں دن رات مصروف عمل رہتی ہیں ،کیا وہ ان معصوم بچوں کے مستقبل کا دفاع کرتی ہیں یا نہیں۔

Facebook Comments

شاہد شاہ
سو لفظی کہانیاں اور مکالمہ لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply