متنازع فلم اور ہم جنس پرستی/چوہدری عامر عباس

گزشتہ روز متنازع فلم جوائے لینڈ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک مختصر سی تحریر شئیر کی تھی کہ اس فلم کو بین کرنے کے بجائے اس پر پہلے مزید بحث کرنے کی ضرورت ہے۔ حالانکہ میں نے اس مووی کی حمایت میں کچھ نہیں لکھا تھا مگر کچھ دوستوں نے میری تحریر سے اختلاف کیا مجھے خوشی ہوئی انکا اختلاف بھی سر آنکھوں پر۔ آئیں اس پر تھوڑا کھل کر بات کرتے ہیں۔

بہت سے دوستوں کو اس فلم کے مکمل کانٹینٹ پر اعتراضات ہیں۔ میری کل ہی جوائے لینڈ فلم کے ایک سینئر پروڈکشن ممبر سے بات ہوئی انکے بقول سنسر بورڈ نے اس فلم پر دس کے قریب چھوٹے چھوٹے سوالات اٹھائے باقی فلم کو کلیئر قرار دیا تھا ہم نے وہ تمام سین اور ڈائیلاگ جو کہ چند منٹ کے بنتے تھے انھیں فلم سے حذف کر دیا تھا مگر اس کے باوجود فلم کو بین کر دیا گیا جبکہ اس فلم کی ریلیز بھی طے ہو چکی تھی لہذا یہ معاملہ وزیراعظم کے سامنے پیش ہوا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سنسر بورڈ نے اپنے پہلے ریوو میں غالباً صرف دس اعتراض لگائے جن کو دور کر دیا گیا پھر بعد میں اس فلم پر یوں بین کر دیا جانا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔

ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ اسے ایک ایسے پروڈیوسر نے بنایا ہے جو ٹرانس جینڈرز کے حق میں فلمیں بناتا ہے اور ایک ایسے ادارے نے ایوارڈ دیا ہے جو ٹرانس جینڈرز کو پروموٹ کرتا ہے۔ کیا محض یہ اعتراضات کافی ہیں جن کیوجہ سے ایک فلم کو بین کر دیا جانا مناسب عمل ہے انھی اور ان جیسے دیگر بہت سے سوالات کے جوابات کیلئے حکومت کی جانب سے کمیٹی تشکیل دی گئی۔

میاں شہباز شریف صاحب نے اس فلم پر ایک ہائی پاور کمیٹی بنائی ہے میرے خیال میں تو یہ ایک بہت احسن اقدام ہے۔ اس طرح مذکورہ فلم پر کھل کر بحث ہوگی اور ناقدین کے تمام سوالات کے تسلی بخش جواب دئیے جا سکیں گے۔ وزیراعظم کے اس اقدام کی ستائش ہونی چاہیئے مگر کچھ لوگ یہ اعتراض بھی کر رہے ہیں کہ ملک کے وزیراعظم نے اس فلم کو اتنی اہمیت کیوں دی۔ انتہائی فضول قسم کی دلیل ہے۔ بھئی میڈیا انڈسٹری ملک کی بڑی انڈسٹری ہوتی ہے اگر سربراہ مملکت اس پر توجہ نہیں دے گا تو کون دے گا۔ میڈیا کے دم سے ہی بہت سے ممالک اربوں ڈالر ریونیو کما رہے ہیں۔

اس فلم کے ناقد کہہ رہے ہیں کہ اس فلم میں ٹرانس جینڈرز کو پروموٹ کیا گیا ہے۔ میرا ان سے ایک سوال ہے کہ اکثر شادیوں پر ٹرانس جینڈرز یا خواجہ سراؤں کو بلایا جاتا ہے جو شادی کی محفل میں ساری رات ڈانس کرتے ہیں اور اس گاؤں دیہات محلے کا جم غفیر اس سے محظوظ ہوتا ہے اور یہ سلسلہ سال ہا سال سے چلتا آ رہا ہے اس پر میں نے آج تک اعتراض نہیں دیکھا حالانکہ اس پر اعتراض اٹھانا بنتا ہے کہ یہ لت تو پہلے ہی ہر جگہ پہنچی پڑی ہے۔ مہک ملک کو کس نے اتنا پروموٹ کیا کہ آج اس کا ایک رات کا معاوضہ لاکھوں میں ہے جبکہ اپائنٹمنٹ لینے کیلئے تین ماہ قبل وقت لینا پڑتا ہے۔ آپ یہ دیکھیں کہ سالہا سال سے چلے آ رہے اس سلسلے کو دیکھ کر کیا آپ کے گاؤں دیہات محلے یا شہر کے لوگوں نے ٹرانس جینڈرز کا روپ دھارا ہے؟

آگے چلتے ہیں۔ بھارتی فلمیں پاکستان سمیت دنیا بھر میں بہت شوق سے دیکھی جاتی ہیں جن کے اکثر مناظر انتہائی قابلِ اعتراض ہوتے ہیں۔ غیر مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق پچاس فیصد پاکستانی گھرانوں میں ایک سال میں اوسطاً دس سے پندرہ بھارتی فلمیں یا ڈرامے دیکھے جاتے ہیں۔ انکے فلموں اور ڈراموں کی ابتداء ہی بت پرستی سے ہوتی ہے کیا اس کو کبھی بین کیا گیا ہے حالانکہ اس کو بین کرنے کی ازحد ضرورت ہے۔

سب سے پہلے تو پھر بھارتی فلموں کو بین کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے تو بھارتی فلموں پر بہت اعتراض ہیں کہ انھوں نے ہماری سوسائٹی کو بہت نقصان پہنچایا ہے مگر اسے بین نہیں کیا گیا۔ آج بھی دیکھی جاتی ہیں کہ یہ انٹرٹینمٹ کا ذریعہ ہیں۔ کیا آپ نے کبھی دیکھا کہ ان فلموں سے متاثر ہو کر کسی نے نعوذ باللہ اپنی میت کو جلایا ہے؟ لوگ ان فلموں کو محض انٹرٹینمٹ کیلئے دیکھتے ہیں۔

تھوڑا اور آگے چلتے ہیں۔ ٹرانس جینڈرز یا ہم جنس پرست تو ہر شہر گاوں سوسائٹی ہر محلے اور ہر جگہ موجود ہیں جو اپنے کام جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔ آپ سب کو علم بھی ہے اپنے اردگرد نطر دوڑائیں تو آپ کو بہت سے لوگ ایسے نظر آئیں گے۔ کیا آپ نے کبھی اس فبیح ترین معاشرتی برائی پر آواز اٹھائی؟

یونیورسٹی اور کالجز جہاں جی پی اے یا گریڈز سسٹم ہیں وہاں کیا کچھ ہوتا ہے ہر ایک کو پتہ ہے۔ ہر ایک نہیں مگر بہت سے اساتذہ بچوں کا ہر حوالے سے استحصال کرتے ہیں جن کی میڈیا پر سٹوریز بھی بریک ہوتی رہتی ہیں پلیز اس کیخلاف بھی مضبوط آواز اٹھائیں تاکہ یہ غلیظ برائی بھی معاشرے سے ختم ہو سکے۔

ہوٹلز اور ورکشاپس اور ایسی کام کرنے والی جگہوں پر کم عمر بچے کام کرتے ہیں۔ کسے نہیں معلوم کہ ان جگہوں پر اکثر بچوں کا جنسی استحصال ہوتا ہے اور مسلسل ہوتا آ رہا ہے کبھی اپنی آواز اس پر بھی بلند کیجئے اور اس قبیح معاشرتی برائی کا سد باب کیجئے۔

تھوڑا مزید آگے چلتے ہیں آج سے بیس برس قبل شہروں اور ٹاؤنز میں صرف مخصوص جگہوں پر قحبہ خانے ہوتے تھے مگر آج ہم دیکھتے ہیں کہ اسی طرح کے قحبہ جانے ہر محلے تک اپنے پنجے گاڑھ چکے ہیں جہاں جنس مخالف اور ہم جنس پرستی دونوں صورتوں کا اہتمام ہوتا ہے پلیز اس کیخلاف بھی اسی طرح بھرپور طریقے سے آواز اٹھائیں۔

میں جوائے لینڈ کا حامی نہیں ہوں مگر میرے ذہن میں یہ کچھ سوالات اٹھتے ہیں جن کے جواب ہنوز تشنہ ہیں۔ سوالات تو اس کے علاوہ بھی ہیں مگر تحریر بہت طویل ہو چکی ہے۔ کُل ملا کر میرا مدعا صرف یہ ہے کہ وزیراعظم نے جو کمیٹی بنائی ہے اس پر کام ہونے دیں۔ اگر واقعی قابلِ اعتراض کوئی سین ہیں تو اس فلم کو لازمی طور پر بین کر دیا جائے مگر محض اپنی انا کی تسکین کیلئے اسے متنازعہ مت بنائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک آخری بات یہ ہے کہ اس فلم پر اعتراض اٹھانے والوں نے ایک ہائپ پیدا کرکے اس فلم کو پروموٹ کر دیا ہے۔ اگر یہ فلم دنیا کے کسی دیگر ملک میں بھی ریلیز ہو جاتی ہے تو یہ سینما سے نکلتے ہی پہلے مہینے میں پاکستان بھی پہنچ جائے گی اور تجسس کی ماری عوام اسے ضرور دیکھے گی۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply