وجود سے وجود تک۔۔۔فوزیہ قریشی

اللہ نے اسے پانچ برس بعد اس خوشخبری سے نوازا تھا ۔ جس کے لیے وہ پل پل ترسی تھی۔۔ اب اسکے بھی اولاد کی مہک آئے گی،اس کا سونا پن بھی اب دور ہو جائے گا۔.”
“وہ عاشر کو اپنی رپورٹ دکھاتے ہوئے بولی، ۔تم اب خوش ہو نا،اب تو تم دوسری شادی نہیں کرو گے بولو.”
وہ مسکراتے ہوئے، کچھ یوں گویا ہوا, “ہاں بھئی ہاں بہت خوش ہوں اور تم سے کس نے کہا؟ میں دوسری شادی کر رہا تھا.”
امی جان نے ، وہ بولی۔
اوہو! امی تو ویسے ہی کہتی تھیں اور میں کونسا کرنے والا تھا؟ اچھا چھوڑو یہ بیکار کی باتیں ۔ اپنے آپ کو ان باتوں سے دور رکھو، یہ تمہاری صحت کے لئے اچھی نہیں ہیں ۔
یہ باتیں تو اس کا پیچھا کرتی تھیں وہ کیسے بھلا سکتی تھی ان کو؟ کب کب؟ کس کس اور کتنوں کے طعنوں کا سامنا رہا؟ ” پچھلے پانچ برسوں میں اسے.”
سال گزرنے کے بعد ہی جہاں جاتی جس سے ملتی پہلا سوال یہی پوچھا جاتا۔ کتنے بچے ہیں آپ کے؟ شادی کو کتنے برس ہو گئے ہیں؟ اپنا علاج کیوں نہیں کرواتی تم ؟
“کہیں بانجھ تو نہیں ہو۔ اس کے ماتھے پر لگے بانجھ پن کا داغ بھی اب مٹ جائے گا ۔وہ بہت خوش تھی اور یہی سوچ اس کے وجود کوکہیں اندر تلک اک خوشگوار احساس سے سرشار کر دیتی تھی”.
ساس ،اسے اوپر سے نیچے تک عجیب سی نظروں سے دیکھتے ہوئے بس ایک ہی جملہ ہر پل دہراتی تھی ۔ ہائے میرے معصوم بچے کے مقدر میں یہ خوشیاں کب آئیں گی؟
بس مجھے اپنے بیٹے کی دوسری شادی کرنی پڑے گی۔ اس کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔
“ایسے میں وہ نمک کی طرح طعنوں کے ابلتے کھولتے پانی سے وہیں گھل سی جاتی لیکن منہ سے اک لفظ نہ بولتی اور اپنے کاموں میں جُت جاتی.”
” نند نے ایک دن اپنے بچے کے کپڑے بدلتے ہوئے اس سے کہا، “تم اپنا چیک اپ کیوں نہیں کرواتی؟ آخر پتا تو چلے مسئلہ کیا ہے؟ شادی کے بعد زیادہ دیراچھی نہیں ہوتی۔ ہمارے بھی تو ارمان ہیں بھتیجے کو گودوں کھلانے کے”۔
وہ سرجھکائے اپنا کام کرتی بس یہی جواب دیتی تھی ۔ “علاج تو چل رہا ہے آپی، دیکھیں کب اللہ کو منظور ہوتا ہے؟”
یہ وہی نند تھی جس کی اپنی اولاد شادی کے چار سال بعد ھوئی تھی۔ اس سے پوچھتے ہوئے اسے پل بھر کے لئے بھی اپنا گزرا وقت یاد نہیں آیا۔۔
“پتا نہیں کس کس کے طعنے سہے تھے اس نے۔۔ساس، نند دیورانی ، جیٹھانی اور تو اور دور کے رشتے دار بھی جیسے موقع کی تلاش میں ہی رہتے تھے.. کہیں آنے جانے کو بھی دل نہیں مانتا تھا اب اس کا۔۔۔ اس کے نازک تصورات کے قدم پل پل لڑکھڑاتے تھے جو کبھی اس نے بنے تھے.”
لوگوں کی گز بھرلمبی زبانوں پر قدغن کون لگاتا۔؟ جو دل کو چھلنی کرتی تھیں ۔اب اس کے پاس صرف ایک ٹوٹا ہوا دل تھا جو بولتا نہیں تھا .کبھی کبھی زور زور سے چیخیں مارتا تھا اور جب چیخ چیخ کر تھک جاتا تو خود ہی خاموش ہو جاتا۔۔ یہی خاموشی درد کی لہر بن کر اس کی روح کو گہرایئوں تک زخمی کر دیتی تھیں۔۔ایسے میں کتنی حسرتیں اندر ہی اندر دفن ہو جاتیں  اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔۔ پھر بھی کوئی یہ سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں تھا کہ یہ اس کے اختیار میں نہیں ہے۔ اوپر والا جسے چاہے، جب چاہے نواز دے ۔
“دعائیں ،وظیفے، نوافل، منت اور نذرانے کیا کیا جتن نہیں کئے تھے اس نے؟ اس کی دعا کا حرف حرف درد کی خلش میں ڈوبا ہوتا تھا ۔ سجدے میں گرنے والے آنسوؤں نے فرش تا عرش ہلا ڈالا تھا ۔ تب جا کراس کی امید بر آئی تھی۔”۔
بڑا کٹھن وقت دیکھا تھا اس نے ۔ سب سن سن کر اب وہ تھک چکی تھی ۔ ایک وقت ایسا بھی آیا ، جب اسے خاندان کی خوشیوں میں شامل نہ کیا جاتا تھا۔۔کہیں اس کا سایہ نو بیاہتا جوڑوں پر نہ پڑ جائے۔ غرض کہ پل پل انگاروں پر لوٹی تھی وہ، اس ایک لمحے کے انتظار میں۔
“اس خبر کے بعد تو جیسے اس کے پاؤں زمین پر ہی نہ ٹکتے تھے۔ سب بہت خوش تھے۔۔ پہلے پہل تو یقین ہی نہ آیا بار بار اپنی رپورٹ کو دیکھتی۔ ان چند دنوں میں ملنے والی اس خوشی نے دل پر لگے پچھلے چند برسوں کے تمام زخموں کو دھو ڈالا تھا۔ساس ، نند اور شوہر بھی اس کا ہر ممکن خیال رکھنے لگے تھے۔۔
ساس کہتی ، اپنا نہیں تو اس ننھے وجود کا خیال رکھو بٹیا۔ وقت پر کھایا کرو۔ آہستہ قدم اٹھایا کرو اور ہاں کسی بھی چیز کے لئے بلا جھجک کہہ سکتی ہو۔۔
وہ! جی امی، “ضرور”کہہ دیتی تھی۔۔
وہ ہر اس پل کو جی بھر کر جینا چاہتی تھی جس کا اتنی شدت سے کبھی انتظار کیا تھا اور اس احساس کو بھی جس نے اس کے وجود میں ایک نئی روح پھونکی تھی۔
“شروع شروع میں طبعیت کا بوجھل رہنا۔ کبھی کبھی کچھ کھانے کو من نہ کرتا تو کبھی رات کے پچھلے پہر بھی یوں مچلنا کہ ابھی نہ ملا کچھ کھانے کو تو وہ سب تہس نہس کر دے گی ۔ عجیب سی کیفیت تھی۔ جس چیزسے کبھی چڑ تھی وہی کھانے کو من کرتا اور جو پسندیدہ تھی اس کے کھانے کی رغبت نہیں ہوتی تھی۔ کبھی کبھی رات میں طبعیت بوجھل ہو جاتی تو کبھی دن میں ۔اک اک پل کتنا حسین تھا اس کا اندازہ اسے پہلی بار ہواتھا.”
وقت کو پر لگ گئے مہینے  ہاتھوں سے ریت کی طرح پھسلتے گئے اور وقت کا اندازہ ہی نہیں ہوا لیکن اک اک پل اس نے جی بھر کر جیا ۔اس کے اندر پلنے والی روح اب مکمل وجود میں آچکی تھی ان پچھلے چند ماہ میں اُس کے اٹھنے ، بیٹھنے ،کھانے پینے اور کھیلنے تک کے احساسات کو پل پل محسوس کیا تھا اِس نے ۔
“اسے اب لگنے لگا تھا کہ جیسے وہ جگہ اس ننھے وجود کی بڑھتی جسامت کے لئے کم پڑنے لگی ہے۔۔ جس کا احساس تب شدت سے ہوتا جب وہ اپنے ننھے ننھے پاؤں پھیلانے کی کوشش میں اسی کے وجود میں خود کو سمیٹ لیتا۔”
“اب وہ دن گننے لگی تھی اور پل پل اس لمحے کی منتظر تھی کہ کب وہ آزاد فضا میں سانس لے گا اور اس کے لمس کی گرمی و سردی وہ اپنے ہاتھوں سے محسوس کرے گی۔ یہ احساس اتنا شدید تھا کہ بیان سے باہر کیونکہ وہ اب اک مکمل وجود میں ڈھلنے جارہی تھی جس کے لئے شائد اس کائنات میں بھیجی گئی تھی۔ وہ وجود جس کے قدموں تلے جنت تھی۔ جس کے لئے، اسےپانچ برس بعد چنا گیاتھا۔۔”
آخر وہ لمحے بھی قریب آگئے جب درد کی شدت نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔۔ بدن کی اس تکلیف کے باوجود بھی صبرایسا تھا کہ ان آہ و بکا میں بھی اک سرُور کی سی کیفیت تھی۔کسی نہ کسی طرح خدا خدا کرکے اسے ہسپتال پہنچا دیا گیا ۔۔
“درد کی شدت نے ہوش وحواس بھی چھین لئے تھے۔ اسے لگا جیسےوہ کسی برزخ میں ہو۔۔۔۔احساس تھا اک خواب کی مانند، چار سو صرف اندھیرا تھا۔ ہلکی سی دودھیا روشنی صرف اتنا احساس دلا رہی تھی کہ وہ ابھی زندہ ہے ۔ لیکن کہاں ہے ؟ نہیں جانتی کونسی جگہ ہے ؟ آس پاس کوئی کیوں نہیں ہے؟ ایک ایک سانس اتنی بھاری تھی۔ اس کے منہ پرآکسیجن ماسک لگا دیا گیا۔ اچانک اک آواز اس کےکانوں سے ٹکرائی اک نومولود روتے ہوئے بچے کی آواز، پہلی اور آخری آواز اس کے وجودسے اتنی سبک رفتاری سے نکلی۔۔اس کے بعد لگا کسی نے جسم سے روح کو کھینچ لیا ہو ۔ سانس ساکن ہوگئی اور وجود اک بت کی مانند بے جان ، اس کے چاروں طرف اب مکمل اندھیرا تھا لیکن آواز وہیں موجود تھی۔”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply