• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • وارث شاہ اور منافق جنسی بھیڑیئے کیدو کا مکالمہ -3/کاشف حسین سندھو

وارث شاہ اور منافق جنسی بھیڑیئے کیدو کا مکالمہ -3/کاشف حسین سندھو

یہ وارث شاہ کا بہت اہم ڈرامہ ہے اس ڈرامے میں وارث یہ دکھاتے ہیں کہ کیدو بظاہر سماج کے غیرت کے اصولوں پہ قائم شخص کا کردار  ہے لیکن یہ وہ کردار ہے جسکا اندر گند سے بھرا ہوا ہے یہ کردار ہمارے دائیں بائیں ہر جگہ موجود ہے وارث بڑی خوبصورتی سے اسکی پرتیں کھولتے ہیں اس ڈرامے کا اہم سین وہ ہے جس میں کیدو ہیر کی سہیلیوں سے مار کھانے کے بعد پنچایت بلاتا ہے اور اس پنچایت میں ہیر کی سکھیاں کیدو کو جن الفاظ میں یاد کرتی ہیں وہ بیان کیدو کی بدکرداری جو پارسائی کے بھیس میں چھپے سامنے لے آتا ہے
منہ انگلیاں گھت کے کہن سبھے کارے کرن تھیں ایہ نہ سنگ دا اے
ساڈیاں ممیاں ٹوہندا توڑ گلھاں پچھوں ہوئیکے ستھناں سنگھ (س پہ زیر) دا اے
سانوں کٹیاں کرے تے آپ پچھوں ساہن ھوئیکے ٹپدا رنگدائے (ر پہ زیر)
تیڑوں لاہ کہائی وتے پھرے بھوندا بھوں بھوں موتدا تے نالے ٹھنگدا اے
” سب لڑکیاں یہ بیان کرتی ہیں کہ یہ شخص بے شرم ہے ہماری چھاتیوں سے لیکر گالوں تک کو گھورتا ہے اسکا بس نہیں چلتا کہ یہ ہماری شلواروں میں گھس جائے یہ ہمیں یوں تاڑتا ہے جیسے نوجوان بھینسوں کو نر سانڈ دیکھتا ہے کمر ننگی کر کے یہ سارا دن کسی لڑکی کو خراب کرنے کے لیے موقعے کی تلاش میں رہتا ہے ”
یہاں یہ سوال پیدا ھوتا ہے کہ جب وارث ہیر اور رانجھے کی جنسی واردات کو برحق سمجھتے ہیں تو کیدو کی جنسی سرگرمیوں کو برا کیوں کہتے ہیں ؟ وآرث کی فکر صاف ہے وہ ہیر اور رانجھے کے تعلق کو دو انسانوں کا باہمی فیصلہ سمجھ کر اسکی حوصلہ افزائی کرتے ہیں لیکن کیدو کی شکل میں سماج کے ان فرسودہ اصولوں پہ تنقید کرتے ہیں جو بظاہر تو سماج میں “پاکبازی ” کو رواج دینے کے لیے بنائے گئے ہیں لیکن درحقیقت وہ ترسے ھوئے منافق پیدا کر رہے ہیں آپ نے ایسے کردار عام دیکھے ھونگے جو ہر وقت پردے اور عورت مرد کے اختلاط روکنے کی تلقین میں مصروف ھوتے ہیں لیکن اپنے اوپر پارسائی کا خول چڑھاتے چڑھاتے تھک جاتے ہیں یہ جسقدر خود کو اور سماج کو پارسا بنانے کی کوشش کرتے ہیں اسی قدر انکا باطن انہیں جنسی خواہش کی طرف دھکیلتا ہے یہ عمل کا ردعمل ہے جب بھی آپ اپنی فطرت کو غیرضروری طور پہ دبائیں گے وہ اسی قدر آپکو ابھارے گی ہیر رانجھے فطری تقاضوں کے تحت ایکدوسرے کے قریب آتے ہیں اور ایکدوسرے سے تسکین حاصل کر کے ایکدوسرے تک محدود ھو جاتے ہیں لیکن کیدو جیسے کردار بظاہر ایسے تعلق کو چالو سماج کے اصولوں کے خلاف سمجھتے ہوئے اسکی مخالفت کرتے ہیں لیکن یہ مخالفت انکے اندر ردعمل کو جنم دیتی ہے یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپکے سامنے ایک ننگی عورت کی تصویر رکھی جائے تو آپ اسے کچھ دیر دیکھنے کے بعد کسی بھی ذریعے سے ڈسچارج ھو کے دوسرے کاموں میں مصروف ھو جائینگے یا اگر آپکو خواہش نہیں ھو گی تو آپ اسے نظرانداز کر دینگے لیکن اگر آپ خود پہ پابندی لگائینگے کہ مجھے اسے نہیں دیکھنا تو یہ تصویر آپکے شعور میں بیٹھی رہے گی آپ ردعمل میں اپنے اندر کئی اور تصویریں جنم دے لینگے آپکا خیال اس تصور سے باہر نہیں آ پائے گا کیونکہ آپ غیرفطری طریقے سے خود کو دبانے کی کوشش کر رہے ھونگے کیدو کا کردار بھی ایک ایسا ہی کردار ہے جو عورت مرد کے علی الاعلان آزادانہ باہمی تعلق کو غلط لیکن چوری چھپے کیے جانے والے ہر گند کو درست سمجھتا ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply