ہم سب کا لٹتا ہوا مے خانہ

علی سجاد شاہ میرے ان فیس بک دوستوں میں ہیں جن سے خوامخواہ محبت ہوتی ہے۔ اور جن سے خوامخواہ محبت ہوتی ہے ان کے نخرے بھی بہت ہوتے ہیں۔ علی میری خاطر تَن کر کھڑے بھی ہو جاتے ہیں اور میری یا “مکالمہ” کی کسی لغزش کو بخشنا دوستی کی توہین تصور کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں علی ناراض ہیں کہ میں سنجیدہ لکھنے کے بجائے جگتیں کیوں کر رہا ہوں اور دوسری کسی سائیٹ کا یہ حق کیوں نہیں مانتا کہ وہ اپنی پالیسی اور مواد خود مرتب کرے۔ سو آئیے سنجیدہ سی گفتگو کر لیں۔
بھائی عدنان کاکڑ ایک سلجھے ہوئے انسان ہیں، “ہم سب” کی کامیابی میں بطور معاون مدیر انکا بہت اہم حصہ ہے۔ وسی بابا بھی اچھے ہیں اور ان گنے چنے لوگوں میں سے ہیں جن سے میری تو تڑاخ بھی ہے۔ اور ہم تینوں میں مشترکہ محترم وجاہت مسعود ہیں، جو ہم تینوں اور نہ جانے کتنوں کے استاد بھی ہیں اور وہ ساقی بھی جو نہ بہکنے دے نہ ہوش میں رہنے دے۔ بھائی عدنان اور وسی نے لدھیانوی صاحب کے متعلق ایک تحریر چھاپی بطور انٹرویو، جس پر کئی جگہ سے اختلاف و احتجاج ابھرا۔ اسکے بعد عدنان بھائی نے “لبرل طالبان” کی اصطلاح متعارف کروائی جس نے بھڑکتی پر تیل ڈالا اور کئی اپنے بھی ششدر رہ گئے۔ (اس کے بعد ہی میں نے فقط ظرافت کی حد تک کچھ سٹیٹس لکھے یا مولوی فضل اللہ کا خواب دیکھا)۔ محترم وجاہت مسعود نے اسکا مکمل دفاع کیا اور بطور چیف شاید وہ حق بجانب ہوں۔
سب سے پہلے تو میں یہ واضح کر دوں کہ میں مکمل یقین رکھتا ہوں کہ، جیسا کچھ دوستوں کی جانب سے کہا گیا، “ہم سب” اور اسکی ٹیم آبپارہ کے ہاتھوں کھیلتی کٹھ پتلی ہرگز نہیں۔ میں اسے “ہم سب” کے اندازے کی غلطی تو مان سکتا ہوں مگر انکا بکنا یا جھکنا ہرگز نہیں۔ ادارہ “ہم سب” اور اسکی ادارتی ٹیم کو یقینا یہ اختیار ہے کہ وہ اپنی پالیسی مرتب کریں یا جیسا وہ کہتے ہیں کہ مکالمے کے فروغ کیلیے مختلف لوگوں سے انٹرویو کریں۔ میں تو شروع ہی سے مکالمے کے حق میں ہوں اور کوئی بھی سائیٹ مکالمہ کو فروغ دے تو مجھ سے زیادہ خوشی کسے ہو گی۔
مگر پھر ہم سب کو اعتراض کیا ہوا؟ اعتراض شاید اس انداز پر ہوا جس طور یہ رودادِ ملاقات پیش ہوئی۔ پہلا ہی انٹرویو ایک ایسی شخصیت کا، جس کا ماضی اور حال مشکوک تھا شاید بے چینی کا باعث بنا۔ مزید ازاں یہ انٹرویو ہوتا تو شاید اتنا باعثِ احتجاج نہ ہوتا، مگر اس روداد کو پیش کرنے کا انداز، اس کی سرخی اور پھر الفاظ کا چناؤ، دانستہ نادانستہ، انٹرویو سے زیادہ پروجیکشن تھے، ایک ایسے شخص کی پروجیکشن جو پاکستان میں موجود ایک بڑی اکثریت کیلیے قابل قبول نہیں۔ سوال اٹھتا ہے، اور عدنان بھائی اور دیگر دوستوں نے اٹھایا بھی کہ پھر کیا مخالفین سے مکالمہ نہ کریں، اور دہشت کے یہ سلسلے بند کرنے کی کوشش نہ کریں؟ بالکل کیجئیے کہ یہ وقت کی ضرورت ہے، مگر انکو گلوری فائی کر کے نہیں، انکا یکطرفہ موقف دے کر نہیں۔ میں پروفیشنل صحافی نہیں ہوں مگر بطور ایک قاری بھی مجھے یقین ہے کہ ایک انٹرویو مختلف ہوتا ہے اس سے جو چھاپا گیا۔ اگر تو مقصد ہاؤ ہو تھا تو کامیابی ہوئی، لیکن اگر مقصد مکالمہ اور غلط فہمیوں اور نفرتوں کا ازالہ تھا تو معذرت کے ساتھ مکمل ناکامی۔
ایک اہم سوال ہے کہ کیا ہمیں حق ہے کہ “ہم سب” پر اعتراض کریں؟ انکی تحریر کو طنز کا، مزاح کا نشانہ بنائیں یا اس پر احتجاج کریں؟ یا اگر ایسا ہوا تو کیوں ہوا؟ صاحبو کوئی بھی سائیٹ، لکھاری اور قاری کے بنا کچھ بھی نہیں ہے۔ جس طرح بغیر مکین گھر فقط پتھر سیمنٹ کا ڈھانچہ ہے، ایسے ہی لکھاری اور قاری کے بنا سائیٹ فقط ایک ڈومین۔ رینکنگ ہو یا کمائی، یہ لکھاری اور قاری کی محنت اور محبت کا ہی نتیجہ ہے۔ سو قاری کو اگر تحریر سراہنے کا حق ہے تو اس پر طنز، ناپسندیدگی اور احتجاج کا بھی مکمل حق ہے۔ اس حق کو استعمال کرنے والوں کو طعنے مارنا فقط کدورت کا باعث ہی بن سکتا ہے۔
یہ سوشل میڈیا کی دنیا ہم سب دوستوں نے مل کر بسائی ہے۔ اسے ایک متوازی یا متبادل میڈیا کی طاقت دی ہے۔ ایک عام سے پیج سے لے کر “مکالمہ”، “ہم سب” اور “دلیل” جیسی سائیٹس اور فقط لائک کا بٹن دبانے والے سے لے کر لمبے کمنٹس کرنے والے تک، سب ہی اس میڈیا کے معمار ہیں۔ اس میڈیا نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی طاقت میں اتنا اضافہ کر لیا ہے کہ مین سٹریم میڈیا اب ہمارا محتاج ہے، ہم اس کے نہیں۔ وہ کوئی خبر “کِل” یا اگنور کرنا بھی چاہیں تو ہم مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ توجہ دیں۔ وہ بہت سے مسائل جو وہ اپنی کمرشل یا دیگر مجبوریوں کی وجہ سے سامنے نہیں لاتے، ہم سامنے لاتے ہیں اور جنکو مجبوریوں کی وجہ سے وہ سامنے لاتے ہیں، ہم ان کو مسترد کر سکتے ہیں۔ مین سٹریم میڈیا مکمل نہ سہی، جزوی طور پر سوشل میڈیا پر ہمارے بنائے اس مے خانے کا محتاج ہو چکا ہے۔ اس مے خانے سے وہ شراب بھی ملتی ہے جو نایاب ہے اور وہ جام بھی سنبھال کر رکھا جاتا ہے جسے شکستہ سمجھ کر پھینک دیا گیا ہو۔ ایسے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے کہ ایسا کوئی قدم نہ اٹھایا جائے جو اس مے خانے کے لُٹ جانے کا باعث بنے، جو اسے بھی مین سٹریم میڈیا کی طرح دوسروں کے ہاتھ کھلونا بنا دے۔ شاید یہ جو احتجاج ہوا، اختلافی آوازیں اٹھیں، انکے پیچھے بھی یہ ہی سوچ تھی اور یہی خوف تھا کہ ہم سب کا یہ مے خانہ لُٹ نہ جائے۔
ایک مضبوط، آزاد اور بے خوف سوشل میڈیا ہمارا ہتھیار بھی ہے اور ہمارا حق بھی۔ ہم آپ کا ہر حق تسلیم کرتے ہیں، آپ ہمارا حق بھی تسلیم کیجیے۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply