بھارت: فرقہ وارانہ فسادات کے مجرموں کو معافیاں(1)۔۔افتخار گیلانی

بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کا برپا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 1947میں آزادی کے بعد سے پچھلے 75سالوں میں ملک کے طول و عرض میں 60 ہزار کے قریب فسادات ہوئے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 2014 سے 2020کے وقفہ کے درمیان 5,417 فسادات ریکارڈ کئے گئے ہیں۔یعنی ایک طرح سے ملک میں ہر روز دو فسادات ہوئے ہیں۔ اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ فسادات میں ملوث افراد کو شاید ہی کبھی سزا ملتی ہے۔ جہاں تک میرے علم میں ہے 1984کے سکھ مخالف فسادات اور 2002کے گجرات کے مسلم کش فسادات واحد دوایسی مثالیں ہیں، جن کی پیروی کی گئی اور قصورواروں کو عدالتوں نے سزائیں بھی سنائیں۔ جہاںسکھوں کے خلاف بلوہ کرنے والے کانگریسی رہنماوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا کام گوردوارپربندھک کمیٹی نے کیا، گجرات کے فسادات میں ملوث بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیڈروں اور کارکنوں کو جیلوں تک پہنچانے کا کریڈٹ سماجی کارکن تیستا سیٹلوارڑ، ان کے شوہر جاوید آنند اور چند باضمیر پولیس افسران کے سر جاتا ہے، جنہوں نے ہزاروں مشکلات کے باوجود برسوں تک عدالتوں میں گجرات فسادات کی پیروی کی،گواہوں اور کیس مٹیریل کی حفاظت کروائی، کئی کیسوں کو گجرات سے باہر مہاراشٹرہ منتقل کروایااور قصور واروں کو سزائیں دلوائیں۔یہ ایک شاید بڑی وجہ تھی کہ 2002کے بعد گجرات میں کوئی بڑی فرقہ وارانہ واردات برپا نہیں ہوئی۔ ورنہ بقول ایک سابق سینیر پولیس افسر وبھوتی نارائین رائے، جنہوں نے 1989میں اتر پردیش کے میرٹھ شہر میں ہاشم پورہ اور ملیانہ قتل عام کی ابتدائی تحقیقات کی تھی،فسادات سے نپٹنے کے نام پر پولیس اکثر مسلمان نوجوانوں کو ہی حراست میں لیتی ہے۔ پھر فسادیوں کے ساتھ تصفیہ کرواکے رہا کراتی ہے۔ اپنے تین دہائی تک محیط صحافتی کیرئر کے دوران فسادات کو کور کرتے ہوئے میںنے بھی دیکھا ہے کہ ایک توپولیس کا رول جانبدارانہ رہتا ہے اور پھر فسادات تھمنے کے بعد وہ دونوں اطراف کے لوگوں کے خلاف معاملہ درج کرکے ان کو جیل بھیج دیتی ہے، تاآنکہ وہ جیل میں ہی سمجھوتہ کرکے ایک دوسرے کے خلاف کیس واپس لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔چند سال قبل آسام میں انتخابات کے دوران جب میں نے وہاں چند سیاسی راہنماوں کو یاد دلایا کہ 1983میں اس صوبہ میں نیلی کے مقام پر دس ہزار بنگالی مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا، اسکی تفتیش کہاں تک پہنچی ہے؟ تو وہ میرا منہ تکتے رہے او ر کہا کہ وہ اب آگے بڑھ گئے ہیں اور ان فسادات کو انہوں نے یاداشت سے کھرچ دیا ہے۔ کیا ایسا دنیا میں کہیں ممکن ہے؟ گجرات فسادات کیس میں نہ صرف اب تیستا سیتلواڑ اور ان کی تنظیم سب رنگ ٹرسٹ کو حکومت اور خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی سے لوہا لینے کیلئے سزا دی جارہی ہے،بلکہ جن قصور واروںکو انہوں نے عدالتوں کے ذریعے کیفر کردار تک پہنچایا تھا ،کی اب سزائیں معاف کی جارہی ہیں یا ان کو ضمانتوں پر رہا کیا جا رہا ہے۔ سیتلواڑ کی تنظیم پر پہلے غیر ملکی عطیہ لینے پر پابندی عائدکی گئی اور اسکے بعد اسکے خلاف تفتیش کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا گیا کہ ابھی جون میں ان کی ممبئی میں واقع رہائش گاہ پر گجرات پولیس نے ریڈ کرکے انکو حراست میں لے لیا۔ سیتلواڑ کے علاوہ سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولیس آر بی سری کمار اورایک اور پولیس آفیسر سنجیو بھٹ پر بھی مقدمہ دائرکر کے جیل پہنچا دیا گیاہے۔ گجرات میں ایک کیس بلقیس بانو کا تھا، جن کو 3 مارچ 2002 کو فسادات کے دوران اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہ اس وقت 19 سال کی تھیں اور حاملہ تھیں۔ احمد آباد کے قریب فسادیوں نے اس کی تین سالہ بیٹی سمیت اس کے خاندان کے چودہ افراد کو قتل کر دیا تھا۔ ایک آدمی نے بیٹی کو اسکی ماں کے بازو سے چھین کر اس کا سر پتھر پر مار دیا تھا۔عدالت کے فیصلہ کو ،جس میں یہ واقعات تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں، پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ آخر ایک انسان اس قدر شقی القلب کیسے ہوسکتا ہے؟۔ یہ سبھی ملزمان بلقیس بانو کے پڑوسی تھے۔ پچھلے ہفتے اس کیس میں عمر قید کی سزا پانے والے گیارہ افراد کو گودھرا جیل سے رہا کر دیا گیا، کیوں کہ گجرات حکومت نے معافی کی پالیسی کے تحت ان کی درخواست منظور کر لی ہے۔صوبہ کے ایڈیشنل چیف سکریٹری (داخلہ) راج کمار نے صحافیوں کو بتایا چونکہ مجرموں نے 14 سال جیل میں گزارے ہیں اور ساتھ ہی دیگر عوامل جیسے ’’عمر، جرم کی نوعیت، جیل میں سلوک‘‘ کی بنیاد پر یہ درخواست منظور کی گئی۔مگر وہ یہ بتانا بھول گئے کہ خواتین کو ہراساں کرنے اور زنا بالجبر جیسے جرائم کو معافی سے بری رکھا گیا ہے۔ مجرموں کی رہائی کے بعد ان کا جس طرح استقبال کیا گیا، اس سے ایک مسیج تو واضح ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کسی بھی جرم کو برداشت کیا جائیگا اور اسکو انجام دینے والا ہیرو ہے۔ دراصل مجرموں میں سے ایک، رادھے شیام شاہ نے 14 سال قید کی سزا کاٹنے کے بعد معافی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔جس نے اسکو قیدیوں سے متعلق صوبہ کی کمیٹی سے رجوع کرنے کیلئے کہا تھا۔ اس کمیٹی کے ایک رکن اور گودھرا کے موجودہ بی جے پی ممبر اسمبلی سی کے راؤلجی کا کہنا ہے کہ یہ مجرمیں ’’برہمن’’ ہیں اور “اچھے اخلاق’’ کے مالک ہیں۔ یہ صرف بلقیس بانو کا کیس نہیں ہے۔ 2014کے بعد سے نئی دہلی میں وزیر اعظم مودی کی حکومت آنے کے بعد سے تو کئی قصورواروں کو رہا کیا گیا ہے۔ آنند ضلع کے اوڈ گاؤں کے 40 سالہ ادریس نے حال ہی میں بی بی سی کو بتایا کہ ان کی دادی، ماں اور ایک قریبی دوست کو ان کے سامنے ایک ہجوم نے قتل کر دیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ قاتلوں کی اس بھیڑ میں ان کے سکول کے دوست اور پڑوسی بھی شامل تھے۔ ان کے خاندان کے افراد کے قتل کے معاملے میں 80 ملزمان نامزد تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی جیل میں نہیں ہے۔ سب کو عدالت سے ضمانت مل چکی ہے۔ احمد آباد سے متصل نرودا پاٹیہ میں ہوئے قتل عا م میں نچلی عدالت نے بی جے پی کی وزیر مایا کوڈنانی کو فسادات کا ماسٹر مائنڈ قرار دیتے ہوئے انھیں 28 سال قید کی سزا سنائی تھی۔(جاری ہے) ۔بشکریہ 92 نیوز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply