معیشت کے گورکھ دھندے اور حکومتی کارکردگی! (قسط سوئم)

تجارتی خسارے کے علاوہ جس بات پر حکومت کے سب سے زیادہ لتے لئے جاتے ہیں وہ غیر ملکی قرضہ جات میں ’’ہوشربا‘‘ اضافہ ہے۔ حکومتیں قرضہ لینے پر کیوں مجبور ہوتی ہیں اس بات کو سمجھنے کے لئے بجٹ اور مالیاتی خسارے کی سوجھ بوجھ ہونا بہت ضروری ہے۔ گھریلو سطح کی طرح، قومی بجٹ بھی آمدنی اور اخراجات کے توازن کو مد نظر رکھتے ہوئے بنایا جاتا ہے۔ اگر آمدنی اخراجات سے زیادہ ہو تو بجٹ کا میزانیہ فاضل یا سرپلس ہوتا ہے۔ اگر صورتحال اس کے برعکس ہو تو بجٹ کا میزانیہ خسارے پر مبنی ہوتا ہے جس کو مالیاتی خسارہ بھی کہتے ہیں۔ کیا خسارے کا بجٹ ہونا کوئی انہونی بات ہے؟ کیا ہمارے معیشت خطے میں اکیلی مالیاتی خسارے کا شکار ہے؟ کیا دنیا کی کوئی بڑی معیشت بھی مالیاتی خسارے کا سامنا کرتی ہے؟ یہ وہ سب سوال ہیں جن کو سمجھے بغیر حکومتی کارکردگی کا جائزہ لینا بے سود ہے۔

اگر ہم صرف اپنے خطے کا جائزہ لیں تو قریب ترین حریف بنگلہ دیش کا مالیاتی خسارہ 2016 میں تقریباً11ارب ڈالر تھا جو اس کے جی ڈی پی کا 4.2فیصد ہے۔ اگر بات کریں بھارت کی، جس کی معیشت کا حجم ہم سے قریب قریب 8 گنا ہے تو اس کا مالیاتی خسارہ گزشتہ سال تقریباً 79 ارب ڈالر تھا جو اس کے جی ڈی پی کا 3.9 فیصد بنتا ہے۔ اگر یورپی معیشتوں کی بات کریں تو جرمنی اور برطانیہ کابجٹ سرپلس ان کے جی ڈی پی کا نہایت معمولی حصہ بنتا ہے، جبکہ امریکہ کا گزشتہ سال کا بجٹ خسارہ 160 ارب ڈالر تک جا پہنچا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بجٹ کے سرپلس یا خسارے کا سیدھا سیدھا تعلق ٹیکس کلیکشن سے ہے۔ یورپی ممالک میں ٹیکسز کی شروح بہت بلند ہیں جہاں آمدنی پر زیادہ سے زیادہ 70فیصد انکم ٹیکس بھی لاگو ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ سخت ٹیکس قوانین، ٹیکس کو قومی ذمہ داری سمجھنے کا کلچر اور معیشت کا کلی طور پر دستاویزی ہونا وہ امور ہیں جن کے باعث یورپی ممالک میں حکومتوں کی آمدنی اخراجات سے زائد ہوتی ہے اور وہ فاضل بجٹ سے اپنے زر مبادلہ کے ذخائر اور افراط زر کی شروح مستحکم رکھتے ہیں، جبکہ سوشل ویلفیئر منصوبوں کے اخراجات بھی اسی زائد رقم سے پورے ہوتے ہیں۔ دوسری جانب امریکی سرمایہ دار کی نفسیات ٹیکس کوایک بوجھ سمجھتی ہے، جس کے باعث وہاں باقاعدہ لابیز بنی ہوئی ہیں جو حکومتوں کو ٹیکسز کی شرح بڑھانے اور نئے ٹیکسز کے نفاذ سے روکنے کے لئے کام کرتی رہتی ہیں۔ پھر امریکی قوانین سرمایہ داروں ٹیکس بچانے کے مواقع بھی بہم فراہم کرتے ہیں (اور ایسے قوانین بھی اسی سرمایہ دارانہ اثر و رسوخ کے باعث تشکیل پاتے ہیں) جس کی وجہ سے امریکی معیشت کلی طور پر دستاویزی ہونے کے باجود مالیاتی خسارے کا شکار رہتی ہے۔ ہمارے خطے میں صورتحال مزید ابتر ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ معیشت کا مکمل طور پر دستاویزی نہ ہونا ہے، جس کی وجہ سے دستاویزی معیشت کے ساتھ ساتھ ایک غیر رسمی، غیر دستاویزی معیشت بھی چل رہی ہوتی ہے جو ٹیکس نیٹ سے کلی طور پر باہر ہوتی ہے۔ تمام دستیاب اعداد وشمار دستاویزی معیشت کی بنیاد پر جاری کیے جاتے ہیں جبکہ محتاط ترین اندازوں کے مطابق غیررسمی معیشت کا حجم کم ازکم بھی رسمی معیشت کے برابر ہے، جبکہ کئی ماہرین اسے رسمی معیشت سے دگنا بتاتے ہیں۔ سو اگر ہم کہتے ہیں کہ ہماری معیشت کا کل حجم 285ارب ڈالر ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ ہماری معیشت کا اصل حجم 570 ارب ڈالر سے زائدہوگا۔ اس پہ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ دستاویزی معیشت میں موجود لوگوں کی بھی ایک کثیر تعداد ٹیکس نہیں دیتی، جس کی وجہ سے حکومتوں کو بالواسطہ ٹیکسز کی بھر مار کرنا پڑتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بات طویل ہوتی جا رہی ہے ، اس لئے اب مالیاتی خسارے کی جانب واپس پلٹتے ہیں۔ گزشتہ مالی سال میں ہمارا بجٹ خسارہ تقریباً 1350 ارب روپے یا 13 ارب ڈالر تھا۔یوں ہمارا مالیاتی خسارہ ہمارے جی ڈی پی کا 4.5 فیصد رہا۔ اگر اس کا تقابل گزشتہ حکومت کے دور سے کیا جائے تو اس وقت مالیاتی خسارے کا حجم 12.7ارب ڈالر تھا، تاہم یہ اس وقت کے جی ڈی پی کا 5.9 فیصد بنتا ہے ۔ سو موجودہ حکومت اس میں 24فیصد تک بہتری لے کر آئی ہے۔ اب اس خسارے کو کم کرنے کی دوہی صورتیں ہیں۔ یا تو اخراجات کمی کر دی جائے یا پھر ٹیکس ریوینیو میں اضافہ کیا جائے۔ بدقسمتی سے دونوں ہی کام جوئے شیر لانے کے مترادف ہیں۔ پہلے اخراجات کی بات کرتے ہیں کیونکہ اس حوالے سے عوام میں مغالطے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ گزشتہ مالی سال ہمارے کل اخراجات تقریباً 5800 ارب روپے کے رہے جبکہ اس کے مقابل آمدن 4500 ارب کی رہی۔ عموماً عوام سمجھتے ہیں کہ ان اخراجات کا بڑا حصہ حکمرانوں کے اللوں تللوں میں خرچ ہوتا ہے، جبکہ بڑی حد تک ایسا نہیں ہیں۔ ان اخراجات کا تقریباً 23فیصد ترقیاتی اخراجات پر مشتمل تھا جو ملکی معیشت کا پہیہ چلانے کے لئے آب حیات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان اخراجات کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو روزگار حاصل ہوتا ہے، بلکہ انہیں کے نتیجے میں مستقبل میں آمدن کے نئے دھارے بھی تشکیل پاتے ہیں۔
سو ان کو یک دم ختم کردینا یا کم کردینا معاشی نمو کے کے لئے زہر قاتل ثابت ہوسکتا ہے ۔ اس کے بعد کل اخراجات کا تقریباً 13 فیصد دفاعی بجٹ پر مشتمل ہے جس پر بات کرنا نہ صرف یہ کہ شجر ممنوعہ ہے، بلکہ موجودہ حالات میں اس میں زیادہ کمی کی بھی نہیں جا سکتی ۔ وفاقی حکومت کی ’’عیاشیوں‘‘ پر ، جنہیں ہم آپریٹنگ اخراجات کہتے ہیں ، 660 ارب روپے کے قریب خرچ ہوتے ہیں جو کل بجٹ خسارے کا نصف بھی نہیں بنتا۔ سو اگر ان عیاشیوں کا یک لخت خاتمہ کر بھی دیا جائے مالیاتی خسارہ تب بھی برقرار رہے گا، اگرچہ ایسا صرف فلموں اور ڈراموں کی حد تک ہی ممکن ہے، عملی طور پر ہر گز نہیں کیونکہ اس صورت میں تو غیر ملکی مہمانوں اپنا ٹفن باکس تک خود ساتھ لانا پڑے گا، اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے اوبر یا کاریم کے رکشے بُک کروانا پڑیں گے! ہزاروں مقامی افراد کے روزگار پر جو لات پڑے گی وہ الگ ہے۔ ایسا کرناعملاً کس حد تک ممکن ہے، اس کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ تحریک انصاف کے حکومت میں آنے کے 3.5 سال بعد بھی پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ ہاؤس کی رونقیں اپنے پورے طمطراق کے ساتھ بحال ہیں۔ چلیں ہم فرض کرلیتے ہیں کہ حکمرانوں کو سادگی اپنانے پر مجبور کر کے ہم ان اخراجات میں 40 فیصد تک کمی کر لیتے ہیں، تو بھی مالیاتی خسارہ 1000 ارب روپے سے زیادہ ہی رہے گا۔ یہاں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بجٹ خسارے کا اصل سبب حکمرانوں کی عیاشیوں سے زیادہ ٹیکس چوری اور معیشت کے بڑے حصے کا ٹیکس نیٹ سے باہر ہونا ہے ۔گزشتہ سال ہماری ٹیکس آمدنی تقریباً 3600 ارب روپے یا 35 ارب ڈالر رہی۔ بجٹ خسارے پر قابو پانے کے لئے ہمیں تقریباً 13 ارب ڈالر کی آمدن مزید درکار ہے۔ اگر غیر دستاویزی، غیر رسمی معیشت کو ٹیکس نیٹ میں لا کر موجودہ ٹیکس کلیکشن کا نصف بھی قومی آمدن میں شامل ہو جائے تو واقعی کچھ سال میں دودھ اور شہد کی نہریں بہاجاسکتی ہیں کیونکہ ان اضافی 17.5 ارب ڈالرسے نہ صرف مالیاتی خسارہ ختم ہو جائے گا، بلکہ ہمیں 4.5 ارب ڈالر فاضل مل جائیں گے جن سے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ تاہم جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا کہ ایسا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ حکومت اس سمت میں درست اقدامات کے ذریعے بہتری لا رہی ہے۔ مثلاً نان فائلرز پر ودہولڈنگ ٹیکسز میں اضافے کے ذریعے گھیرا تنگ کیا جارہا ہے اور اس سلسلے میں حکومت کسی دباؤ کو خاطر میں نہیں لا رہی، جس کی وجہ سے ٹیکس دہندگان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح کئی ایسے سیکٹرز جو ابھی تک ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں تھے ان کو اس جال کے اندر لے لیا گیا ہے جیسا کہ رئیل اسٹیٹ اور اسٹاک مارکیٹ وغیرہ۔ حکومت نے اس سلسلے میں اب تک ہر دباؤ کامیابی سے برداشت کیا ہے جس کی وجہ سے گزشتہ سال ٹیکس کلیکشن میں 21 فیصد اضافہ ہوا تھا اور اس سال 15فیصد تک اضافہ متوقع ہے۔ مگر جب تک ٹیکس کلیکشن کا نظام مکمل طور پر بالغ نہ ہو جائے ، حکومتوں کے پاس بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لئے چند ہی راستے ہی ہوتے ہیں۔ بیرونی امداد، نئے ٹیکسز کا نفاذ، ٹیکسز کی شرح میں اضافہ، نئی سیکوریٹیز کا اجرا یا پھر قرضہ لینا۔ حکومتیں ان تمام آپشنز میں سے سب پر پہ تھوڑا تھوڑا عمل کرتی ہیں، تاہم مالیاتی خسارے کی بیشتر تمویل یا فنانسنگ قرض کے ذریعے ہی کی جاتی ہے، اور اس میں ہم منفرد نہیں، عالمی سطح پر بھی یہی رجحان پایا جاتا ہے۔ قرض داری میں موجودہ اور گزشتہ حکومت کی پرفارمنس کا جائزہ ہم اگلی قسط میں لیں گے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

محمد احسن سمیع
جانتے تو ہو تم احسنؔ کو، مگر۔۔۔۔یارو راحلؔ کی کہانی اور ہے! https://facebook.com/dayaarerahil

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply