معراج مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

سفر معراج حضور نبی اکرم ﷺ کا وہ عظیم معجزہ ہے جس پر انسانی عقل آج بھی حیران ہے۔ انتہائی کم وقت میں مسجدِ حرام سے بیت المقدس و سدرۃ المنتہیٰ تک لمبی مسافت طے ہوجاتی ہے۔سورۃ بنی اسرائیل کی پہلی آیت ؛ جس کو آیتِ معراج بھی کہتے ہیں ؛اﷲ جل شانہٗ نے ارشاد فرمایا : سُبْحَانَ الَّذِیْ أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلاً پاک ہے اسے جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گیا۔ مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الأَقْصَی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہُ وہ مسجد جس کے ارد گرد ہم نے برکت رکھی ہے۔ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا تاکہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ بے شک وہ سنتا دیکھتا ہے۔
اب اس آیتِ کریمہ کی ترتیب دیکھیں تو بالکل سائنسی طریقۂ کار کے مطابق ہے۔ چوں کہ یہ سائنس کا چیلنج ہے کہ ہم بہت بلند گئے؛ اﷲ نے اپنے محبوب کو یہ دوسرا بڑا معجزہ دیا تاکہ اس سے افتخار کا سر توڑا جائے …… آنا جانا، سیر و سیاحت، سفر؛یہ ہمارا روز مرہ ہے۔ فلسفے اور سائنس کی زبان میں اسے حرکت کہتے ہیں۔ اور حرکت پر سائنس کے ۶؍ سوالات ہیں۔ محرک کون ہے؟ متحرک کون ہے؟ زمانۂ حرکت کیا ہے؟ مبداءِ حرکت کیا ہے؟ منتہاے حرکت کیا ہے؟ اور وجہِ حرکت کیا ہے؟…… یعنی حرکت کس نے دی؟ حرکت کس کو دی؟ حرکت کب دی؟ حرکت کہاں سے دی؟ حرکت کہاں تک دی؟اور حرکت کیوں دی؟
جب حرکت کی بات چھِڑتی ہے تو سائنس یہ چھ سوالات کرتی ہے۔ اب دیکھیے!معراج کا یہ جو سفر ہے جسے سائنس حرکت کہتی ہے ؛ ان چھ سوالوں کی ترتیب سے جواب موجود ہے۔محرک کون ہے؟ حرکت کس نے دی؟ اﷲ تعالیٰ جل شانہٗ نے ارشاد فرمایا: سُبْحَانَ الَّذِیْ أَسْرَی حرکت کس کو دی؟ بِعَبْدِہِ حرکت کب دی؟ لَیْلاً حرکت کہاں سے دی؟ مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حرکت کہاں تک دی؟ إِلَی الْمَسْجِدِ الأَقْصَی حرکت کیوں دی؟ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا چھ سوالوں کا ترتیب کے ساتھ جواب اس ایک آیت کے اندر موجود رکھ دیا گیاہے۔
یہ جو سفر کا لفظ ہم بول رہے ہیں یہ روز مرہ ہے؛ ورنہ قرآن مجید نے اسے سفر نہیں کہا ’’ سیر‘‘ کہا ہے۔اور اتنی سریع ہے کہ آنکھ جھپکنے سے پہلے گئے بھی اور آئے بھی، بستر بھی گرم، پانی ابھی بہہ رہا ہے، زنجیر ابھی ہل رہی ہے۔ اور لوگ کہتے ہیں یہ کیسے ہوا؟ عقلیں حیران ہیں۔ ہم کہتے ہیں اﷲ تعالیٰ نے محبوب کے اتنی سرعت کے ساتھ آنے جانے کو سفر نہیں کہا سیر کہا ہے۔ حالاں کہ سیر اور سفر میں فرق ہوتا ہے۔ جو سفر ہوتا ہے وہ تیز تیز ہوتا ہے۔ اور جو سیر ہوتی ہے وہ بہت متین ہوتی ہے۔ بندہ چلتا ہے، راستے میں کوئی منظر ہو کوئی پھل کھلا ہو اس کے اوپر پڑی ہوئی شبنم ہو تو رک جاتا ہے۔ سیر آہستہ آہستہ اور سفر تیز۔ اور اتنی جلدی گئے اور پلٹ کے آئے؛ اس کو رب نے سفر نہیں کہا سیر ہے۔ کہا کیا سمجھو گے میرے نبی کو! میرے نبی کی سیر کو نہیں سمجھ سکتے ؛ جس کی سیر اتنی تیز ہے تواس کا سفر کتنا تیز ہوگا؟ …… کہا جاتا ہے کہ جب دکھ میں امتی نبی کو پکارتا ہے تو مدینے سے اتنی جلدی نبی کیسے آجاتا ہے؟ تو ہم کہتے ہیں یہ تو نبی کی سیر ہے جو سمجھ میں نہیں آتی اور جب امتی دکھ میں پکارتا ہے پھر نبی سیر کرتا تو نہیں آتا؛ سفر کرتا آتا ہے۔جس کی سیر سمجھ نہیں آتی اس کا سفر سمجھ میں کیسے آسکتا ہے؟ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں ؂
واﷲ! وہ سن لیں گے فریاد کو پہنچیں گے
اتنا بھی تو ہو کوئی جو آہ کرے دل سے
ایک نہایت اہم مسئلہ:
حضور علیہ السلام کا معراج فرمانا قرآن عظیم اور احادیث مبارک سے ثابت ہے۔علماء فرماتے ہیں مسجد الحرام سے مسجد اقصٰی تک کے سفر کو“اسراءکہتے ہیں اور یہ قرآن عظیم سے ثابت ہے اسکا منکر کا فر ہے۔اور مسجد اقصٰی سے آسمانوں تک تشریف لے جانا اور عرش سے آگے لامکان تک تشریف لے جانااورجنت اور دوزخ کا ملا حظہ فرمانا احادیث مبارک سے ثابت ہے اسے معراج کہتے ہیں اس کا منکر فاسق وفاجرہے اور سخت گناہگارہے۔(معراج لنبی مصنف غزالی دوراں علامہ سیداحمد سعید کا ظمی رحمتہ اللہ علیہ)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply