بےنام مسکراہٹ

بچپن کی معصومیت سے جڑی بعض باتیں اس قدر خوبصورت ہوتی ہیں کہ زندگی کی تلخ حقیقتوں میں کھو کر بھی جب کبھی ان کو یاد کیا جائے تو چند لمحوں کے لیے ہونٹوں پر بےنام سی مسکراہٹ آ کر ٹھہر جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک معصوم حماقت میں نے بھی کی تھی۔۔۔اس وقت میری عمر بمشکل گیارہ سال تھی۔ رمضان کا مہینہ تھا اورطاق راتوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ ہمارے پڑوس میں بیگم صابرہ کا گھر تھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ طاق راتوں میں جاگ کر عبادت کی جاتی ہے۔ میں نے امی سے تصدیق چاہی۔۔۔
امی کیا آج جاگنے والی رات ہے؟
امی نے بتایا کہ،ہاں آج طاق رات ہے اور طاق راتوں میں جاگ کر عبادت کرتے ہیں.
میں نے اسی وقت فیصلہ کیا اور امی سے کہا کہ بس اس بار میں بھی جاگوں گی۔۔۔ امی نے ہنستے ہوئے کہا اچھا ٹھیک ہے جاگ لینا۔ امی کو لگا تھا کہ میں شام تک یہ بات بھول جاؤں گی۔ شام کو امی صابرہ آنٹی کے گھر کسی کام سے گئیں، میں امی کے ساتھ ہی تھی۔ میں نے جوش میں آنٹی کو بتایا کہ آج رات میں بھی عبادت کے لیئے جاگوں گی۔ تو امی نے کہا اکیلے کیسے جاگو گی؟ مجھے تو صبح جاب پر جانا ہے،میں تو نہیں جاگ سکتی۔ تو صابره آنٹی کی بیٹی سعدیہ باجی کہنے لگیں کہ ہمارے ہاں بھیج دینا ہم تو سارے ہی جاگ رہے ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ امی کچھ کہتیں میں نے جوش میں حامی بھر لی۔۔۔

افطاری کے بعد کپڑے تبدیل کیئے اور اپنا سامان یعنی، ایک عدد تکیہ بغل میں دبائے، ایک تسبیح ہاتھ میں پکڑے، ایک جائے نمازاور مسنون دعاؤں کی کتاب کو دوسرے ہاتھ میں تھامے جانے کے لیئے تیار ہوگئی۔ امی نے جو یہ حال و حلیہ دیکھا تو ہنس پڑیں اور صابره آنٹی کے گھر جانے سے منع کر دیا۔ میں جو بالکل تیار کھڑی تھی امی کے انکار کے بعد رونے لگی اور جانے کی ضد کرنے لگی۔ امی کے کافی دیر سمجھانے کے بعد بھی میں نہیں مانی۔ یہاں تک کہ رات گیارہ بجے امی نے تھک ہار کر مجھے جانے کی اجازت دے دی۔ میں نے خوشی خوشی اپنا بوریا بستر پھر سے اٹھایا اور نکل پڑی۔ گلی میں کچھ آنٹیاں سامنے ہی ایک گھر کے چبوترے پر بیٹھی خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔ میرے ہاتھوں میں تکیہ دیکھ کر پوچھنے لگیں کہ کہاں جا رہی ہو، تو میں نے بڑی ہی ترنگ میں جواب دیا۔ آج جاگنے کی رات ہے نا۔۔۔میں صابرہ آنٹی کے گھر ان کے ساتھ رات جاگنے جا رہی ہوں،ہم مل کر عبادت کریں گے۔ وہ آنٹیاں ہنسنے لگیں۔۔ لیکن کچھ کہا نہیں۔

میں نے آگے بڑھ کر صابره آنٹی کے گھر کی بیل بجائی۔ کوئی جواب نہیں ملا۔ پھر بیل بجائی، تب بھی کوئی جواب ندارد، تیسری دفعہ پھر بیل دی، تب بھی خاموشی۔ اب حال یہ تھا کہ امی جی دروازہ بند کر چکی تھیں اور وہ ساری آنٹیاں چبوترے پر بیٹھی مجھے ہی دیکھ رہی تھیں۔ مارے شرمندگی کے برا حال تھا۔ اب وہیں دروازے پر کھڑے ہلکے ہلکے دروازہ بجاتی رہی کہ کوئی دروازہ کھول دے، مگر دروازہ تب بھی نہیں کھلا۔ صابره آنٹی کے دروازے پر کھڑے ہوئے تقریبا ً بیس پچیس منٹ گزر چکے تھے۔ ایک دفعہ پھر ہمت کر کے ان کے گھر کی بیل بجائی اور تین، چار بیلیں ایک ساتھ بجا ڈالیں۔ تب کہیں جاکر صحن میں کسی کی چاپ سنائی دی۔ اڑے ہوئے بالوں کے ساتھ نیند میں ڈوبی سعدیہ باجی نے دروازہ کھولا۔ مجھے تکیہ و تسبیح ہاتھ میں لیئے کھڑے دیکھ کر چونک گئیں۔ میں نے بھی جھٹ سلام کیا اور کہا۔۔۔باجی آج جاگنے کی رات ہے ، آپ نے کہا تھا، تو میں جاگنے آئی ہوں۔ سعدیہ باجی سٹپٹا گئیں پھر ذرا سنبھل کر کہنے لگیں۔۔۔وہ امی کا بی پی بہت ہائی ہوتا ہے اس لیئے وہ تو دوا لے کر سو گئیں، اور میرے بھی سر میں شام سے درد ہے اس لیئے میں بھی سو گئی تھی ۔ ہم لوگ آج نہیں جاگ رہے۔ تم ستائیسویں کو آنا مل کر جاگیں گے۔۔ا ور یہ کہتے ہوئے سعدیہ باجی نے دروازہ بند کر دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب منظر کچھ یوں تھا کہ تقریباً رات کے ساڑھے گیارہ بجے، ایک بغل میں تکیہ اور دوسری بغل میں جائے نماز دبائے، ہاتھوں میں تسبیح اور مسنون دعاؤں کی کتاب لیے، میں بیچ گلی میں کھڑی تھی۔ پیچھے چبوترے پر بیٹھی آنٹیاں دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ مجھے گھر کی طرف واپس جاتا دیکھ رہی تھیں۔ آٹھ دس قدم کا فاصلہ بہت زیادہ لگ رہا تھا۔ گھر جاتے ہوئے بے حد شرمندگی تھی کیونکہ امی کی بات نہیں مانی تھی۔ امی نے پہلی ہی بیل پر دروازہ کھولا اور میری رونی صورت دیکھ کر گلے لگا کر بہت پیار کیا۔۔۔۔۔اس طاق رات کو میں جاگی تو نہیں مگر روئی بے انتہا۔ ساتھ ہی ایک بات سمجھ آگئی تھی کہ لوگ جو کہہ رہے ہوتے ہیں وہ کرتے نہیں ہیں۔ اس رات ساڑھے گیارہ بجے کھلے آسمان کے نیچے کھڑی ہو کر میں نے جو دنیا کا روپ سمجھا وہ شاید کبھی کسی کے بتانے سے سمجھ نہیں آتا۔ آج بھی ہر رمضان کی طاق راتوں میں یہ حماقت یاد آتی ہے، بیچ گلی میں اپنے آپ کو تکیہ، جائے نماز، اور تسبیح لیئے کھڑا دیکھتی ہوں، تو کچھ لمحوں کے لئے ہونٹوں پر بے نام سی مسکراہٹ ٹھہر جاتی ہے۔

Facebook Comments

حمیرا گل
طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply